صرف جعلی ادویات کے لیے سزائیں کافی نہیں
شیئر کریں
ڈاکٹر میاں احسان باری
موجودہ حکومتی کارپردازوں کا یہ کہنا کہ آئندہ جعلی ادویات تیار کرنے والوں کو عمر قید ،ایک کروڑ روپے جرمانہ اور ان کی جائیداد کی بھی ضبطی ہو گی،یہ نہ صرف انقلابی قدم ہے بلکہ ایک انتباہ بھی تاکہ آئندہ جعلی ادویات کا دھندہ ختم ہو جائے مگر کیا جعلی زہریلا دودھ ،اینٹوں پسی جعلی سرخ مرچیں و دیگر زہریلی خوردونوش کی اشیاءتیار کرنے کے مجرم یونہی دندناتے پھرتے رہیں گے۔کیا خود ساختہ، انسانی صحت کے لیے مضر ،جعلی زہریلا دودھ اور اینٹوں ملی پسی ہوئی سرخ مرچیں،مختلف قسم کے ملاوٹ شدہ مصالحہ جات اور جعلی گھی تیار کرنا اچھے کام ہیں؟ہر گز ہرگز نہیں! تو پھر انھیں بھی عبرت ناک سزائیں دینے میں کیا قباحت ہے اور کیا امر مانع ہے؟کیا اس قسم کی فیکٹریاں مرکز اور صوبوں میں مقتدر افراد اور ان کے رشتہ داروں کی ہیں ؟جو کچھ بھی ہو ،ہمہ قسم خوردونوش کی اشیاءبمعہ جعلی ادویات کے لیے عمر قید کی سزا مختص کی جائے۔ اسی طرح جعلی شراب تیار کرنے والوں کی بھی ایسی تیسی اسی انداز میں ہونا ضروری ہے۔حال ہی میں صرف ٹوبہ ٹیک سنگھ کے شراب پینے کے ایک واقعے میں درجنوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔شرابی باز تو رہتے نہیں بلکہ جو جو شخص جن جن نشوں پر لگا ہوا ہے وہ انھیں صرف ڈر خوف اور نیک بنو نیک بنو کی تبلیغ سے نہیں چھوڑے گا،اس لیے نشہ آور اشیاءفروخت کرنے اور ان کی تیاری پر مکمل پابندی عائد ہو تاکہ ہمہ قسم نشئیوں کو قابل شریف شہری بنایا جا سکے۔پاکستانی قوم کا ایک طبقہ جس کی تعداد ہر گز ہرگز پندرہ فیصد سے کم نہ ہو گی جن میں نوجوان و دیگر افراد شامل ہیں جو کہ نشوں کی وجہ سے لاچاری اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں وہ کسی روزمرہ کام کو نہ کرتے ہیں نہ کرسکتے ہیں۔ان کی عام معذوروں سے بھی حالت بد تر اور نہ گفتہ بہ ہے۔جو کہ قطعاً پاکستان کے مستقبل کے لیے درست نہیں ہے۔
کوئی وقت تھا کہ مسلمانوں نے اسی بھارت پر 900سال تک حکمرانی کی، انگریز جاتے ہوئے بے ایمانی کرکے ہندو مہاشوں کو اس ملک کا 80فیصد اور ہمیں 20فیصد دیکر چلتے بنے۔ کئی اسلامی ریاستیں بھی کشمیر، جو نا گڑھ وغیرہ بھی ہمارے ساتھ شامل نہ کیںپھر اپنوں کی غلطیوں اور غداریوں سے ہم مشرقی بازو کٹوا کر بھارتیوں اور ان کے ایجنٹوں کے حوالے کر بیٹھے۔اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ ہماری بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے مقتدر افراد بھارت کے صرف 1/10حصہ موجودہ پاکستان کو بھی نہیں سنبھا ل پارہے ۔ہندو بنیا ہمیں زہریلی خوفناک کھا جانے والی آنکھوں سے گھورتا ،منہ چڑاتا اور ہمیں ہمہ وقت پریشرائز کرنے سے قطعاً باز نہیں رہتا صرف 2016میں 380بارہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کی گئی، ان ہنگامی حالات کے تحت تمام نشہ آور ادویات کا خاتمہ کیا جانا اشد ضروری ہے تاکہ ہمیںسارے پاکستانیوں کو ہمہ وقت دشمن سے نبرد آزما ہونے کے لیے مکمل فٹ اور تیار نوجوان مل سکیں ۔صرف ایٹم بم کے مالک ہونا نا کا فی ہے۔نوجوان نسل کو نشوں سے دور رکھ کر جہاد فی سبیل اللہ کے لیے ان میں حب الوطنی کا جذبہ بدرجہ¿ اُتم پیدا کرنا ہو گا۔تب ہی ہم فتح مند ہوں گے اور دشمن ہماری طرف میلی آنکھ سے دیکھ نہ سکے گا۔گو چین ہمارا مخلص دوست ہے مگر قوموں کی دشمنوں سے نپٹنے کی تیاریوں میں اس کا مکمل صحت منداور طاقتور ہونا اولین تقاضا ہے جو صرف جعلی اشیائے خوردنی،جعلی و نشہ آورادویات کی تیاری کوختم کرکے ہی ممکن ہے ۔ جو عوام جعلی زہریلا کیمیکلز ملا دودھ پی رہے اور زہر آلود خوردنی اشیاءاستعمال کرتے ہوں گے وہ کیا خاک لڑائی لڑیں گے ؟مکمل چاک و چوبند ،طاقتور صحت مند افراد ہی فتح مند ہو سکتے ہیں، باقی توسب کہانیا ں ہیں۔ جعلی ادویات کھانے سے لوگ اپنی مخصوص بیماری کے علاوہ مزید کئی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور بیماری خواہ کوئی ہو اس کے لیے صحیح دوائی اور اس میں مختلف چیزوں کا صحیح تناسب ہی نہ ہو تو مریضوں کا کیا بنے گا؟صرف یہ ناں کہ وہ جلد موت کے منہ میں چلا جائے گا۔دل کے امراض کی دوائیاں جعلی استعمال کرلیں تو فوراً ہارٹ اٹیک ہو کر یا بلڈ پریشر ہی کم یا زیادہ ہو کر جان لیوا ثابت ہو گا۔اسی طرح جعلی خوردنی اشیاءکھانے سے بھی کئی بار اموات ہو چکی ہیں ،اگر کھائی گئی اشیاءفور۱ً عمل نہ بھی کریں تو بھی انسان آہستہ آہستہ مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر اگلی دنیا کو سدھار جاتا ہے ۔صرف جعلی ادویات تیار کرنے والوں کو خوفناک سزائیں دینے سے حرام خور ،فراڈیے اب محاذ تبدیل کرکے جعلی مصالحہ جات و جعلی دودھ و دیگر ملاوٹ شدہ اشیائے ؒخوردنی تیار کرنے کے مزید کارخانے لگاڈالیں گے۔ اس لیے ان سبھی سود خور سرمایہ دار افراد کے خفیہ کاروباروں کو تباہ و برباد کرکے اور انھیں کھلے چوکوں پر ہی عبرت کا نشان بنانا ہو گا۔تاکہ انھیں کوئی چھوٹ نہ ملے اور قوم کی ان سے مستقل جان چھوٹ جائے ۔
٭٭