میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سندھ حکومت ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرنے میں ناکام

سندھ حکومت ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرنے میں ناکام

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۷ دسمبر ۲۰۲۰

شیئر کریں

(رپورٹ:اسلم شاہ)کراچی دنیا کا منفرد ، انوکھا شہرکا ٹرانسپورٹ جہاں بیک وقت 15 ادارے کنٹرول اور پلاننگ کے طورپرکا م کررہے ہیں،دنیا بھر میں ٹرانسپورٹ بشمول بس ریل او رپبلک ٹرانسپورٹ ایک ادارے کی چھتری کے نیچے کام کررہے ہیں، کراچی میں الگ الگ کام کرنے والے اداروں کا ایک دوسرے سے رابطہ یا تعاون یامشاوات کا فقدان ہے۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کراچی اور سندھ کے ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرنے میں مکمل طور پر ناکامی سے دوچا ر ہو گئی ہے، 800،2000، 3000اور6000بسیں سڑکوں پر لانے کا متعدد دعوے اور اعلانات بھی مسلسل جاری ہیں، سڑکوں پر بسیس لانے میں ناکامی پر افسوس اورندامت ، شرمندگی کچھ حیا اور شرم کسی میں نہیں، بسوں کے خواب کے نام پر لوٹ مار کا نظام سندھ حکومت میں تاحال جاری ہے، ٹرانسپورٹ کی منصوبہ بندی یکجا نہ ہوسکی، 2008ء سے 2020ء تک تین ٹرانسپورٹ وزیر بشمول اختر جدون ، ناصر حسین شاہ اور سردار علی شاہ تک صرف زبانی دعویٰ اور بیانات سے آگے نہ بڑھ سکا، پیپلز پارٹی نے کراچی ماس ٹرانزٹ سیل غیر فعال، سند ھ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کا قیام عمل ایکٹ2016ء میں وجود میں لایا گیا، گرین لائن، اورنج لائن، بلیو لائن، ریڈ لائن، بروان لائن، یلولائن اور کراچی سرکلرریلوے، لائٹ ٹرین، میگا ٹرین کا منصوبہ بنایا گیا ہے، جس میں اورنج لائن کا منصوبہ 4.7کلومیٹر فاصلے پر تعمیرات ہونے والامنصوبہ پانچ سال میں مکمل نہ ہوسکا، ٹریفک انجینئرنگ بیوروکراچی کاکام منصوبہ بندی، ٹریفک ،سنگلز، پیدلی برج، بس اسٹاپز، لائن مارکنگ اوردیگر ٹرانسپورٹ منصوبہ کی تعمیرات بھی شامل ہیں، اہم ادارہ ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ بلدیہ عظمیٰ کراچی ہو نا چاہیے تھا، لیکن ٹرانسپورٹ کے تمام شعبہ جات پر صوبائی حکومت نے قبضہ جمالیا ہے۔ اس محکمہ کا وجود خطرے میں پڑگیا، سپریم کورٹ کی ہدایت پر ذوالفقار آبادآئل ٹرمینل کے قیام پر ٹرمینل ڈیپارٹمنٹ بلدیہ عظمیٰ کراچی نے کام شروع کررکھا ہے، بس ٹرمینل کی اراضی کے الاٹمنٹ اور قبضہ میں اصل رکاوٹ بورڈ آف ریونیو سندھ حکومت ہے جس نے آئل ٹرمینل حب ریور روڈ کی 50ایکٹر اور سپرہائی وے پر100ایکٹر بس ٹرمینل کا قیام کھٹائی میں پڑ چکا ہے،یکم فروری 1977ء میں قیام ہونے والا کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن شہر میں 18گھنٹے سروس فراہم کرنے والاادارے کو ملازمین کی لوٹ مار انتہا کو پہنچ چکی تھی اور ورلڈ بینک کی مالی امداد سے یہ ادارہ بند کردیا گیا،اس کی بسوں کے چیچیز اورڈھانچہ تاحال چل رہا ہے، 1985ء میں بشریٰ زیذی کے حادثہ یا سانحہ پر منی بسوں کے روٹس معطل ہوگئے، شمس الدین ابڑو ریٹائراڈ افسر کو تعینات کیا گیا تھا، 30سال سے ان کی تقرری کو چیلنج نہیں کیا گیا ہے، وہ کراچی پبلک ٹرانسپورٹ سوسائٹی کے تمام کاموں کے نگران ہے، کراچی سرکلر ریلوے کو چلانے کیلئے کراچی اربن ٹرانسپورٹ کمپنی کا قیام عمل لایا گیا ہے جو، اب تک غیر فعال تھا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں