دھمکیاں نہیں جمہوری سوچ
شیئر کریں
دھمکیوں اور تھریٹ الرٹس کوبھی اہمیت نہ دی گئی کرونا پھیلائو کے خدشات بھی نظرانداز کر دیے گئے گرائونڈ میں پانی بھرنے ، دروازوں کو تالے لگا نے، سائونڈ سسٹم اور کرسیاں فراہم کرنے والوں کے خلاف کاوائیوں کی بڑھیکیںلگانے کے باوجود مطلوبہ مقاصد حاصل نہ ہو ئے تو حکومت نے مجبوراََ پی ڈی ایم کو مینارِ پاکستان پر جلسہ کی اجازت دیدی حکومت اجازت نہ بھی دیتی توکون اپوزیشن نے جلسہ کرلینا تھا اب جلسے کے بعد منتظمین اور خدمات فراہم کرنے والوں کے خلاف کاروائیاں ہوتی دیکھ کر اندازہ ہو گا کہ سیاسی درجہ حرارت ناقابلِ برداشت ہوتا ہے یا مذاکرات کے لیے سازگار ماحول بنتا ہے بظاہر دونوں فریقوں کارویہ بے لچک ہے قبل ازیں حکومت این آراو کے نام پر بات چیت سے انکاری تھی اب اپوزیشن نے بھی پیشکشوں کی تصدیق کرتے ہوئے بات چیت کے لیے دروازے بند کردیے ہیں یہ جمہوری طرزِ عمل نہیں ٹیبل ٹاک سے مسائل حل ہوتے ہیں لیکن ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہاں بات چیت پر کوئی آمادہ نہیں بلکہ سبھی اپنے موقف کو برحق جانتے ہوئے لچک پیداکرنے سے انکاری ہیں یہ مسلمہ جمہوری اصولوں کی تضحیک اور آمرانہ انداز ہے۔
ابھی چند دن تو13 اگست کے جلسے کی کامیابی و ناکامی کے حوالے سے دلائل کی چاند ماری ہوتی رہے گی اپوزیشن کے جلسے کو حکومت ناکام کہے گی تو اپوزیشن جلسے کو عوامی ریفرنڈم کہہ کر اپنی خامیوں کو چھپانے کی کوشش کرے گی اپوزیشن نے اقتدار سے فوری بے دخلی کے سواکسی فارمولے کو قبول کرنے سے انکارکردیا ہے جب تک دونوں فریق ایک دوسرے کوتکریم نہیں دیں گے تو بھلا اور کوئی کیونکر احترام کرے گا حکومت جلسے کوبُری طرح ناکام کہہ کر لاہوریوں کی بدعنوانوں سے نفرت قرار دے رہی ہے مگر جلسے کے بعد اپوزیشن بہت خوش اور پُراعتماد ہے اور31جنوری تک مستعفی نہ ہونے کی صورت میں اگلے دن لانگ مارچ کی تاریخ کا علان کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کے لیے مریم نواز کے لیے تو تمام سہولتوں سے آراستہ کنٹینر بھی تیار ہو چکا یوں اِس اِ مکان کو تقویت مل رہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں افہام و تفہیم کے راہیں مسدود ہوچکیں لیکن کشتیاں جلا کر میدان میں اُترنے والوںکو مضمرات نظر انداز نہیں کرنے چاہیے کیونکہ ملک کی کمزور معاشی صورتحال کسی نئے تجربے کی متحمل نہیں اس لیے اتھل پتھل کی بجائے تبدیلی کامروجہ راستہ اختیار کرنا ہی سب کے لیے سود مند ہوگا ۔
بلاول بھٹو نے مریم نواز کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ پی ڈی ایم ایسے حالات پیدا نہیں ہونے دے گی جس سے تیسری قوت کو مداخلت کا موقع ملے مگر بظاہرحکومت کے خلاف عدمِ اعتمادکی کسی تحریک پیش کرنے کی بجائے سارازور احتجاج پر ہے حالانکہ اتحادی ناراض ہیں اور حکومت کوایوانوں کی بجائے اقتدار کے اصل مراکز کے حمایت سے مستحکم ہے اور جب تک وہاں سے تبدیلی کی ڈوریاں نہیں ہلتیں تبدیلی کا امکان کم ہے حکومت نے بڑی مہارت وہوشیاری سے تحریک کا رُخ مخصوص اِدارے کی طرف موڑ دیا ہے جس کی بنا پرفوری تبدیلی کے امکانات کم ہی سہی لیکن اپوزیشن تمام آپشن پر کام کرنا چاہیے کیونکہ سیاسی محازآرائی پُرتشدد تصادم کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو تیسری قوت کو آگے آکر جمہوری بچوں کو سیاست بدری کا حکم دے سکتی ہے چاہے بلاول بھٹو ایسی نوبت نہ ہونے کا یقین دلائیں جب انہونی ہوتی ہے تو کسی سے پوچھ کر نہیں آتی اور پھرکسی میں روکنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی ۔
حکومت نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے کبھی سنجیدہ کو شش نہیں کی اب بھی پی ڈی ایم کے اگلے مرحلے سے نمٹنے کے لیے کابینہ میں وزارتوں کے قلمدان تبدیلی سے بدنیتی کا پیغام ملا ہے حکومت لاکھ کہے کہ یہ شیخ رشید کو وزیرداخلہ بنانے کا مقصد اپوزیشن کا نکیل ڈالنا نہیں لیکن فہمیدہ حلقے نئی تبدیلی کو پی ڈی ایم کے لیے مستقبل میں سخت وقت کی تیاری قراردیتے ہیں وفاقی کابینہ کا چھٹی کے روز بغاوت کے مقدمات اندراج کا اختیار وفاقی سیکرٹری داخلہ کو تفویض کرناخاصا معنی خیز ہے اپوزیشن کو ریاستی طاقت سے قابو کرنا حکومت کے خلاف جاری تحریک کی معاونت کے مترادف ہو گا ملتا ن جلسہ سے قبل بداعمالیوں کی بنا پر حکومت کی کمزور حیثیت آشکار ہوچکی مزید کسی حماقت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تو انہونی کا امکان رَد نہیں کیا جا سکتا اِس لیے سنجیدہ مشاورت سے سیاسی محازآرائی میں کمی لانے کا راستہ تلاش کرنا ہی ہوش مندی ہے اپوزیشن کو اشتعال دلانا کسی طور جمہوریت کی خدمت نہیں ملک میں انتشار اور تصادم کی فضا رہے گی تو نہ صرف حکومت کمزور ہوتی جائے گی بلکہ معیشت متاثر ہونے کے ساتھ سیاسی اورداخلی استحکام پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہوں گے۔
لاہور کے جلسے سے حکومت خوفزدہ ہے حالانکہ لاہور میں ہی لاہوریوں کو انگریز اور ہندوئوں کا ساتھی کہہ کر محمود اچکزئی نے کوئی دانائی کا کام نہیں بلکہ ڈی ایم کو ناکامی کی راہ پر لانے کی کوشش کی ہے افغانستان پر قبضے کا طعنہ دینا بغض و عناد کے سواکچھ نہیں ایساپہلی بار نہیں ہوا بلکہ کراچی میں اُردو پر تنقید کی حماقت بھی کر چکے ہیں کوئٹہ جلسے سے خطاب کے دوران ایک مقررنے آزاد بلوچستان جیسا لفظ استعمال کیا یہ پی ڈی ایم میں موجود خلفشارکا آئینہ دار ہے جس کا خاتمہ ایسے انداز میں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لاہور جلسے کے دوران مائیک بند کرنے کی حکمتِ عملی کی دوبارہ ضرورت نہ پڑے ۔
تیسری قوت مداخلت کے جواز پر کم ہی توجہ دیتی ہے مگر اب شاید ہی نظریہ ضرورت کو عدالتی تحفظ مل سکے لیکن سیاسی قوتیں بے لچک رویے اپنا لیں تو کچھ بھی حتمی طور پر کہنا مشکل ہوجاتا ہے نیز قوم سوچنے پر مجبورہوجاتی ہے کہ اقتدار کے لیے جذباتی سیاستدان قوم کی بھلائی کے جذبے سے محروم ہیںاِس لیے سیاسی قوتوں پر کامل ناکامی کا داغ غیر سود مند ہوگا ایسا تبھی ممکن ہے جب مسائل بڑھانے کی بجائے حل تلاش کیا جائے اگر ایسا ہوجائے توآمریت آنے کی نہ صرف راستے بند ہوں گے بلکہ جمہوریت کی بحالی کے لیے سڑکوں پر آنے ضرورت بھی نہیں رہے گی لانگ مارچ پہلی بار نہیںہونے جارہابے نظیر بھٹو،نوازشریف ،عمران خان طاہرالقادری ، مولانا فضل الرحمٰن سے لیکرمولاناخادم رضوی تک اسلام آبادتک مارچ کر چکے مگر باربار چڑھائی کرنے،کارکنوں کو امتحان میں ڈالنے اور سیاسی ماحول پراگندہ کرنا ہی سیاست نہیں آصف زردای کی تجویزتحریکِ عدمِ اعتماد تبدیلی کا جمہوری طریقہ ہے استعفے چھیننے کی دھمکیاں جمہوری رویہ ہرگز نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔