سید انورقدوائی بھی راہی ملک عدم ہوئے
شیئر کریں
اسرار بخاری
چوکھٹے موت کے خالی ہیں انہیں مت بھولو
جانے کب کون سی تصویر سجادی جائے
حضرت احسان دانش کے اس شعر کی عملی تفسیر ہی کہی جاسکتی ہے کہ جمعة المبارک کی شام تک لاہور پریس کلب میں تاثیر مصطفی ، اقبال چوہدری ، تنویر احمد اور اس کالم نگار سے وہ پریس کلب کے دو روز بعد ہونے والے انتخابات کے حوالے سے پنجاب یونین آف جرنلسٹ (دستور )کے کردار کے سلسلے میں شریک گفتگو رہے ، ہفتے کی صبح صبح لاہور پریس کلب سے موبائل فون پر آنے والے ایس ایم ایس نے شدید جھٹکے کے ساتھ بے یقینی کا شکار کردیا۔ ”سینئر صحافی اور لاہور پریس کلب کے لائف ممبر سید انور قدوائی انتقال کرگئے نماز جنازہ کی اطلاع بعد میں دی جائے گی ۔“
1971ءمیں روزنامہ جاوداں بند ہونے کے بعد راولپنڈی سے لاہور آکر میں نے روزنامہ مغربی پاکستان سے وابستگی اختیار کی تو قراقلی ٹوپی کے ساتھ نوابانہ آن بان رکھنے والے ایک صحافی توجہ کا مرکز بنے، معلوم ہوا یہ نوائے وقت کے چیف رپورٹر سید انور قدوائی ہیں۔ مختلف تقاریب اور پریس کانفرنسوں میں ان سے تقریبا ہرروز ملاقات رہتی اور یوں تعلق کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا ،سید انور قدوائی بہت فراغ دل انسان تھے ،کسی بھی رپورٹر کے لیے یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ کسی دوسرے رپورٹر کی خبر اس سے زیادہ اچھی یا قابل توجہ بن جائے مگر سید انور قدوائی بہت فراغ دلی کے ساتھ کسی بھی خبر کے حوالے سے معلومات فراہم کرتے کہ اس میں یہ چیز بھی شامل کرلو۔ یہ ان کا اخلاص تھا کہ کسی بات پر ساتھیوں کی سرزنش بلکہ بعض اوقات ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتے، تب بھی کوئی برا نہیں مناتا تھا ۔ قدوائی صاحب اسلامی ذہن رکھتے تھے، داتا صاحب کی انتظامی کمیٹی سے وابستہ تھے، کچھ عرصے روحانی شخصیت سید سرفراز شاہ سے خصوصی تعلق تھا ، اپنے دینی رجحانات کے باعث وہ صحافیوں کی تنظیموں میں سرگرم رہے لیکن نظریاتی اختلافات کے باوجود بائیں بازو کی صحافی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے صحافی دوستوں سے بھی ایسی ہی محبت اور اپنائیت کا رشتہ رکھتے تھے ۔ خاتون صحافی ثمن عروج نے انہیں بالکل درست طور پر شجرسایہ دار قرار دیا جو ہمیشہ ساتھیوں پر سایہ فگن رہا ۔میں اکثر جنگ کے دفتر میں ان سے ملنے جاتا جہاں ان کے ساتھی شفیق مرزا جیسی عالم فاضل شخصیت سے بھی ملاقات ہوتی ، ایسا بھی ہوا کہ کسی وجہ سے ہفتے میں دو تین بار جانا ہوا مجھے یاد نہیں کہ منع کرنے کے باوجود ہر مرتبہ بسکٹوں کے ساتھ اصرار کرکے چائے نہ پلائی ہو ،ان کا چائے پلانے کا انداز بھی بڑا الگ سا تھا۔ ”اوہ یار شاہ جی آپ کے بہانے ہم بھی پی لیں گے“۔پھر وہ فون اٹھاتے اور دفتر کی کینٹین میں آرڈر دیتے ”اتنی چائے لے آو¿ اور ساتھ بسکٹ بھی لے آنا“۔ ایک روز پہلے آخری ملاقات میں ،میں نے اور تاثیر مصطفی نے ان سے کہا پانچ چھ سو روپے روزانہ رکشے پر خرچ کرتے ہیں، گھر میں ماشاءاللہ دو دو گاڑیاں ہیں، ایک ڈرائیور رکھ لیں۔جواب دیا: ارے بھائی گاڑیاں بچوں کے لیے ہیں، اپنا کیا ہے رکشے سے گزارہ چل رہا ہے ، دوبارہ عرض کیا: شاہ جی مگر رکشے میں جھٹکے لگتے ہیں۔ بے نیازی سے کہا: ارے بھائی وہ ایک ”جھٹکا“ لگے گا تو گاڑی میںبھی لگ جائے گا ،اور حسب معمول رکشے میں اپنے گھر علامہ اقبال ٹاو¿ن چلے گئے ۔
دیرینہ دوست جنگ کے رپورٹر امتیاز راشد نے بتایاکہ چار بجے کے بعد تک دفتر میں موجود دیکھ کر میں نے پوچھا: شاہ جی خیر ہے اب تک بیٹھے ہیں، آپ تو تین ساڑھے تین بجے چلے جاتے ہیں ۔جواب دیا: ہاں کچھ کام باقی تھے سوچا آج نمٹا ہی لوں ، اس روز وہ اپنا سارا کام مکمل کرکے پانچ بجے کے بعد دفتر سے گھر گئے ۔کیا انہیں احساس ہوگیا تھا کہ آج دفتر میں ان کا آخری دن ہے ؟ ایک دن میں نے ان سے کہا کہ تین سال سے درخواست دے رکھی ہے مگر مجھے گیس کنکشن نہیں ملا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کا آخری دور تھا، انہوں نے کسی کو فون ملایا اور کہا اسرار بخاری کو جانتے ہو ناں ،اثبات میں جواب ملنے پر کہا: پھر ان کے گھر میں گیس کیوں نہیں لگی ؟ان صاحب نے کوئی بات کی تو کہا :اگر انہوں نے نہیں کہا تو میں کہہ رہا ہوں، یہ بتاو¿ کتنے دن میں لگ جائے گی؟ پھر فون پر میری بات کروائی ،دوسری جانب سیاسی دنیا کے جانے پہچانے منیر احمد خان تھے، پھر جب تک میرے گھر میں گیس نہیں لگ گئی قدوائی صاحب منیر احمد خان کو یاد دہانی کرواتے رہے ۔
قدوائی صاحب پنجاب یونین آف جرنلسٹ ”دستورگروپ“کے بعض معاملات سے مطمئن نہیں تھے ۔ آخری ملاقات میں مجھے اور تاثیر مصطفی سے کہا کہ پریس کلب کے انتخابات کے بعد اجلاس بلاو¿ جس میں سعید آسی اور خواجہ فرخ سعید کو بھی بلانا۔ بڑے دکھ کی بات ہے ان کے کہنے کے مطابق اجلاس نہیں بلایا جاسکے گا مگر ان کے لیے تعزیتی اجلاس ضرور بلایا جارہا ہے ،دعا ہے اللہ سبحان تعالی انہیں غریق رحمت کرے ،محترمہ بھابھی صاحبہ اور بچوں کو صبر جمیل عطا فرمائے ،یقینا ان کا دکھ ہم سب سے کروڑ گناہ زیادہ ہے۔
جناب انور قدوائی وسیع رابطے رکھنے والے صحافی تھے اور معلومات کا وسیع ذخیرہ رکھتے تھے۔ ماضی کے حوالے سے کوئی معاملہ درپیش ہوتا تو سب سے پہلے ان کا نام ذہن میں آتا اور پھر وہ معلومات کے دریا بہادیتے ،وہ نوائے وقت میں میرے کالم پڑھتے اور مثبت انداز سے تبصرہ سے پتہ چلتا کہ واقعی پڑھتے تھے اور ہمیشہ تعریف کرتے۔ اگرچہ یہ حوصلہ افزائی کا ایک انداز تھا مگر میرے لیے یہ بڑی بات تھی کہ یہ ان کے لیے ”قابل پڑھ ہے “۔ بہت سے معاملات میں ان سے اختلاف رائے بھی ہوتا، بات باقاعدہ بحث و مباحثے تک پہنچ جاتی لیکن گفتگو ہمیشہ عزت و احترام کے دائرے میں رہتی ،میرے ذاتی علم میں ہے، ہمارے جو ساتھی مالی مشکلات کا شکار ہوتے، قدوائی صاحب بڑی خاموشی سے اور مسلسل ان کی مدد کرتے رہتے مگر زندگی کے آخری لمحے تک کہیں یہ بات نوک زبان پر نہیں لائے ،یہ ان کے بڑے ظرف کا ثبوت ہے ،یہ ان کا ساتھیوں کے لیے خلوص ہی تھا کہ دفتر سے آخری بار روانہ ہوتے وقت بھی انہوں نے شفیق مرزا مرحوم کے واجبات کے بارے میں استفسار کیا ۔
2016ءکا سال جاتے جاتے صحافیوں کے لیے جاتے جاتے صدمات دے گیا ۔ جمعہ ہی کے روز محترمہ رفعت قادر حسن اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔ یہ محترم عبدالقادر حسن، ان کے صاحبزادے عطر حسن اور صاحبزادی اسماءحسن کے لیے بلاشبہ ایسا صدمہ ہے جسے کبھی بھلایا نہ جا سکے گا۔ محترمہ رفعت صاحبہ سے میرا پہلا تعارف روزنامہ نوائے وقت میں ان کے کالم ”گوشہ خواتین “سے ہوا۔ وہ نوائے وقت کی پہلی لیڈی رپورٹر اور خاتون کالم نگار تھیں ، محترمہ رفعت نے ”آنگن “ کے نام سے خواتین کا رسالہ نکالا جو خواتین ہی نہیں حضرات میں بھی مقبول ہوا اس رسالے میں ایسی تحریریں یعنی افسانے ،استوار نامے ، نظمیں ، غزلیں اور مختلف نوعیت کے مضامین شائع ہوتے جو علمی و ادبی شائستگی کا آئینہ دار ہوتے۔ مجھے اس کے بہت سے شمارے پڑھنے کا اتفاق یوں ہوا کہ روزنامہ جاوداں راولپنڈی میں میری کولیگ سلطانہ رضیہ ثمن بہت اچھی افسانہ نگار ہیں، ان کے افسانے آنگن میں شائع ہوتے اور وہ مجھے آنگن پڑھنے کے لیے دیا کرتیں ، جناب عبدالقادر حسن بھی نوائے وقت میں سیاسی کالم کی بنیاد رکھنے والے ہیں۔” غیر سیاسی باتیں“ نامی کالم میں وہ لمحہ موجود کے سیاسی حالات کا تجزیاتی انداز سے نقشہ کھینچتے، اس کی سطریں طنزومزح کے پہلو بھی رکھتیں ۔ محترمہ رفعت کے صاحبزادے اطہر حسن ایک بہت شائستہ اور مہذب نوجوان ہیں جو بلا شبہ محترمہ رفعت کی بہترین تربیت کا نتیجہ ہے ،مجھے جب بھی پی آئی اے میں ٹکٹ یا سیٹ کا مسئلہ درپیش ہوا ،مسز یاسمین ہارون جو میرے بہت محترم اور قائد اعظم کے سیکرٹری جناب کے ایچ خورشید کی صاحبزادی ہیں اور اطہر حسن نے نہایت اپنائیت سے یہ مسئلہ حل کیا ۔
تاہم غم اور صدمہ اپنی جگہ، یہ دنیا عارضی ٹھکانہ ہے جو اس دنیا میں آیا ہے اسے واپس جانا ہے ،غالب کی زبان میں
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
اللہ سبحانہ تعالی ان سب کو جوار رحمت میں جگہ دے آمین، ثم آمین ۔
٭٭