میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
چیف جسٹس کو فریق کہنے پر جسٹس عمر عطا بندیال کا سرینا عیسیٰ پر اظہار برہمی

چیف جسٹس کو فریق کہنے پر جسٹس عمر عطا بندیال کا سرینا عیسیٰ پر اظہار برہمی

ویب ڈیسک
بدھ, ۹ دسمبر ۲۰۲۰

شیئر کریں

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس میں نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کی جانب سے چیف جسٹس کو فریق کہنے پر بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطاء بندیال نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ آپ حد پار کر رہی ہیں، اپنی حد سے باہر نہ جائیں جبکہ سربراہ بینچ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ نظرثانی کیس سننے والے بینچ پر اٹھائے گئے اعتراض پر مشاورت کے بعد فیصلہ دیں گے۔سپریم کورٹ میں جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمد امین پر مشتمل 6 رکنی بینچ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس عیسیٰ کی درخواست پر دئیے گئے عدالتی فیصلے کے خلاف جسٹس عیسیٰ، ان کی اہلیہ و دیگر کی نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی۔اس موقع پر عدالت عظمیٰ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک، اہلیہ جسٹس عیسیٰ سرینا عیسیٰ و دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔دوران سماعت سرینا عیسیٰ نے مؤقف اپنایا کہ سپریم کورٹ رول 26 اے کے مطابق صرف وہی بینچ نظر ثانی درخواستیں سن سکتا ہے جس نے پہلے سماعت کی ہو، مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ سپریم کورٹ اپنے رولز پر عمل کیوں نہیں کر رہی، سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے 6 رکنی بینچ تشکیل دے کر غلطی کی ہے۔انہوں نے کہا کہ 6 رکنی بینچ کیسے 7 رکنی بینچ کے فیصلے پر نظر ثانی درخواست سن سکتا ہے، انہوں نے سوال اٹھایا کہ 7 رکنی اکثریتی فیصلے کو 6 رکنی بینچ کیسے کالعدم قرار دے سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ 3 ججز کو بینچ سے نکالا گیا اور میرے حقوق متاثر کیے گئے، تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھے اختلافی نوٹ دینے والے ججز کے فیصلے سے بھی اختلاف ہیں، میری عدالت سے استدعا ہے کہ نظرثانی درخواست سننے کیلئے اختلافی نوٹ والے ججز کو بھی بینچ میں شامل کیا جائے۔ انہوں نے بینچ کے تمام ججز سے باری باری ایک ہی سوال کیا کہ کیا 6 ججز بینچ 7 رکنی بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے سکتے ہیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ میں مانتا ہوں 6 رکنی بینچ 7 رکنی بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے سکتا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 6 ججز بینچ کی تشکیل سے متعلق فیصلہ دے سکتے ہیں، آپ نے جس انداز میں سوالات اٹھائے یہ طریقہ درست نہیں ہے۔ان کے ریمارکس پر سرینا عیسیٰ نے جواب دیا کہ میرے مقدمے کی سماعت کیلئے 10 رکنی بینچ تشکیل دیا جائے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کے نکات رجسٹرڈ کر لیے ہیں، آپ حقائق کو نظر انداز کر رہی ہیں، ہم نظر ثانی اپیل نہیں سن رہے بلکہ ہم بینچ کی تشکیل کے خلاف درخواست سن رہے ہیں۔عدالت میں سماعت کے دوران سرینا عیسیٰ نے مذکورہ معاملے کی مرکزی سماعت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں اس کیس میں فریق نہیں تھی تاہم جسٹس عمر عطا بندیال نے فریق نہ ہونے کے باوجود 81 مرتبہ میرا نام لیا۔اس موقع پر سرینا عیسیٰ نے کہا کہ چیف جسٹس گلزار احمد، قاضی فائز عیسی کے بینچ کا حصہ رہ چکے ہیں، چیف جسٹس بطور چیئرمین جوڈیشل کونسل ہماری قسمت کا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں؟۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کی جانب سے کہا گیا کہ چیف جسٹس پاکستان اس کیس میں فریق ہیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ چیف جسٹس پاکستان پر الزام لگا رہی ہیں، آپ حد پار کر رہی ہیں، اپنی حد سے باہر نہ جائیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ ہماری فیملی کا حصہ ہیں، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کیس کی سماعت میں چیف جسٹس پاکستان پر الزام لگایا جائے، آپ ادارے اور اس کے سربراہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے محتاط رہیں۔انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس بینچ بنا سکتا ہے یہ ان کا آئینی اختیار ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس کے بعد سرینا عیسیٰ نے عدالت سے معافی مانگ لی۔سرینا عیسیٰ نے کہا کہ میرا مقصد کسی جج کی دل آزاری نہیں تھا، اگر کسی جج کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معذرت چاہتی ہوں۔بعد ازاں کیس کی سماعت میں جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ ہمارے لیے محترم ہیں لیکن سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے بارے میں بات کرتے ہوئے احتیاط برتیں۔ جسٹس منظور احمد ملک نے کہا کہ آپ کی تمام باتیں سن لی ہیں۔دوران سماعت سرینا عیسیٰ نے مؤقف اپنایا کہ شہزاد اکبر اور فروغ نسیم نے غیر قانونی طریقہ اپنایا، اس پر جسٹس عمر نے ریمارکس دیے کہ آپ کیس کے میرٹس پر نہ جائیں ہم نظر ثانی درخواستیں سنیں گے جس کے بعد سرینا عیسیٰ روسٹرم سے ہٹ گئیں، بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے عدالت میں دلائل دیے۔سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کا تاثر عوام میں رکھنا بار کا کام ہے، جج خود عوام میں نہیں جاسکتے۔انہوں نے کہا کہ احتساب کے بغیر عدلیہ کی آزادی ممکن نہیں، ہم نے اپنے فیصلے میں توازن رکھا، ایک طرف جج پر لگائے اعتراضات ختم کرکے عدلیہ کی آزادی کو برقرار رکھا، دوسری طرف احتساب کے عمل کو تحفظ دیا۔اس موقع پر سندھ بار کونسل کے وکیل رشید اے رضوی نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ اگر 9 جج نظرثانی کیس سنے تو اس سے نقصان کیا ہے، یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ انصاف نہیں ہوا جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ایک سینئر وکیل کے منہ سے عدالت پر عدم اعتماد قابل افسوس ہے، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پہلے 2 ججز پر اعتراض اٹھایا گیا، آج پھر اعتراضات اٹھائے گئے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مستقبل کے ممکنات پر ججوں پر اعتراض اٹھانا نامناسب تھا، ہم نے اعتراض مسترد کیا لیکن جج خود بینچ سے الگ ہوگئے۔انہوں نے کہا کہ ہم بینچ کی تشکیل کا معاملہ آئین و قانون کے مطابق طے کریں گے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ نظرثانی کیس سننے والے بینچ پر اٹھائے گئے اعتراض پر مشاورت کے بعد فیصلہ دیں گے۔بعد ازاں عدالت نے سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی گئی، عدالت نے صدر سپریم بار ایسوسی ایشن لطیف آفریدی کی طرف سے مہلت دینے کی استدعا منظور کر لی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں