ن لیگ کا سندھ میں’’ یہ‘‘ حال کیوں ؟؟؟
شیئر کریں
معروف صحافی اور کالم نگاربرادرم رؤف طاہر نے بہت اہم سوال اٹھایا ہے سندھ ’’شہری ودیہی ‘‘میں آج مسلم لیگ کس حال میں ہے اور کیوں ہے ، مگر اس سوال کے جواب یا تجزئیے سے بوجوہ پہلو بچا کر نکل گئے تاہم جب کوئی سوال کسی محفل ، اخباری بیان، خطاب یا کالم میں اٹھایا جائے تو یہ دراصل ’’سلائے عام ہے یاران نکتہ دان کے لیے ‘‘ کا معاملہ بن جاتا ہے اور اس طرح ہرکس و ناکس کے لیے اظہار خیال کی راہیں کھل جاتی ہیں ۔ 1997ء میں مسلم لیگ نے سندھ میں قومی اسمبلی کی دو نشستوں سمیت درجن بھر نشستیں حاصل کرلی تھیں ،2007ء میں میاں نوازشریف کی جلاوطنی کے خاتمے کے بعد بھی کافی گنجائش تھی مگر اس گنجائش سے فائدہ نہ اٹھایا گیا ، جس سے اس سوال نے جنم لیاکہ آج مسلم لیگ سندھ میں کس حال میں ہے اور کیوں ؟
یہ سوال کوئی مسئلہ فیثاغورث نہیں کہ جواب تلاش کرنے میں سر کھپایا جائے بلکہ بہت سادی بات ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں سیاسی جاگیر کے طور پر سندھ اور پنجاب کی تقسیم کا فارمولا طے پاگیا تھا ،میثاق جمہوریت کے موقع پر میاں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کے مابین یہ مفاہمت ہوگئی تھی سندھ تمہارا ، پنجاب ہمارا ،کسی اور معاملے میں دیانتداری کا مظاہرہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو اس فارمولے پر بہرحال دونوں جانب سے پوری دیانتداری سے عمل ہوا اور ہو رہا ہے ۔
باخبروں کے مطابق اگرچہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے گرین سگنل نہیں ملا مگر جناب زرداری کو واپس بلالیا گیا ہے تاکہ وہ ’’پنجاب تمہارا‘‘کو یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں ،یہ کردار پنجاب میں عمران خان کی بڑھتی ہوئی سیاسی پیش رفت کے آگے بندھ باندھنا ہے ۔ تازہ ترین اطلاعات ہیں کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ذریعے آصف زرداری سے معاملات طے ہوگئے ہیں ،ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق ’’باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے سربراہ آصف زرداری اور مسلم لیگ کی اعلی قیادت کے مابین رابطہ ہوا ہے تاہم دونوں جانب سے اس رابطے کی تصدیق نہیں کی گئی ، ذرائع کے مطابق وزیراعظم نوازشریف نے آصف زرداری اور بلاول کی قومی اسمبلی میں آمد میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے جب وزیراعظم نوازشریف سے پیپلزپارٹی کی اعلی قیادت سے رابطوں کے سلسلے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے ان رابطوں کی تصدیق سے گریز کیا ، ذرائع کے مطابق چوہدری نثار علی خان ، شہباز شریف ،راجہ ظفر الحق ، احسن اقبال اور خواجہ سعد رفیق کی جانب سے پیپلز پارٹی سے ’’فاصلے ‘‘ کم کرنے کی مخالفت کی جارہی ہے ۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا موقف ہے کہ ’’ہم پیپلزپارٹی کی کرپشن کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں تاہم وزیراعظم نوازشریف سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں آصف زرداری کے آنے سے عمران خان کا قد کاٹھ کم ہوجائے گا‘‘۔یاد رہے اس میڈیا رپورٹ کا خالق ’’گھر کے بھیدی‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ن لیگ میں پیپلز پارٹی بلکہ زیادہ صحیح طور پر آصف زرداری سے قریبی تعلق رکھنے کے پرجوش حامی وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار ہیں جن کی دبئی میں رہائش گاہ آصف زرداری کی رہائش گاہ سے باآسانی پیدل کے فاصلے پر ہے ، کہا جاتا ہے کہ پاکستان واپس آنے سے پہلے بھی آصف زرداری اور اسحاق ڈار میں ملاقات اور رابطہ ہوا تھا ، بعض حلقے تو یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ڈاکٹر عاصم ، انور مجید ، منظور کاکا، اور ایان علی جیسے معاملات میں دست تعاون بڑھایا جائے تو معاہدے کے برعکس اگلی باری بھی ن لیگ کو دی جاسکتی ہے تاہم متذکرہ فارمولے پر عمل درآمد کا نتیجہ یہ ہوا کہ پنجاب سے پیپلز پارٹی اور سندھ سے ن لیگ کا بستر بوریا گول ہوگیا، اب قمر زمان کائرہ ، ندیم افضل چن اور اعتزاز احسن وغیرہ بلاول کے ذریعے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی بحالی کی جتنی مرضی خواہش کریں یہ فارمولا ان کی خواہش کی راہ میں سدِّراہ ہے اور رہے گا۔اسی طرح سندھ میں ن لیگ کے رہنما بھی ن لیگ کو زیادہ نہیں 1997ء کی پوزیشن پر لے جانے کی خواہش ہی کریں تو بات ’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے ‘‘والی ہوگی ، حالانکہ پیپلزپارٹی کے پنجاب میں امکانات کے مقابلے میں سندھ میں ن لیگ کے لیے زیادہ امکانات موجود تھے اور ہیں ۔
کراچی کے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو ابتدا میں اردو اسپیکنگ لوگوں نے مہاجر قومیت اور حقوق کے نعروں کے فریب میں آکر متحدہ مہاجر موومنٹ میں شمولیت اختیار کی جوں جوں فریب کا پردہ چاک ہوا حقائق سامنے آئے حتی کہ مہاجر قومی موومنٹ متحدہ کا لبادہ اوڑھ کر بھی ’’ایک سیاسی عفریت ‘‘کے روپ میں سامنے آئی ، کراچی آپریشن نے اس عفریت سے نجات کی صورت پیدا کی تو اس کے وابستگان کے لیے ن لیگ زیادہ قابل قبول متبادل سیاسی ٹھکانہ بن سکتی تھی کیونکہ کسی اور جماعت کے بجائے پاکستان بنانے والوں کی اولادوں کے دعوے دار پاکستان بنانے والی جماعت میں زیادہ سیاسی و ذہنی آسودگی سے سرشار ہوسکتے تھے ۔اس سلسلے میں مشاہد اللہ خان ، نہال ہاشمی ، سلیم ضیاء اور دیگر ایسا سیاسی سرمایہ ن لیگ کے دامن میں تھا جن کی نظریاتی پختگی اور سیاسی وفاداری ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے، وہ سندھ میں مسلم لیگ منظم کرنے میں بہترین کردار ادا کرسکتے تھے مگر ان کی سیاسی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں آنے دیا گیا ۔اگر پیپلز پارٹی کے ساتھ ’’سندھ تمہارا‘‘کا معاہدہ نہ ہوتا تو متحدہ کے چنگل سے نکلنے والے ایم کیوا یم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی سے کہیں زیادہ ن لیگ کی صفوں میں نظر آتے اور امکانی حد تک ان کے ارکان اسمبلی کی اکثریت بھی ،اس سے قومی سطح پر یہ فائدہ ہوتا کہ کراچی اور حیدرآباد تک محدود رہنے والے ایم کیو ایم کے وابستگان قومی سیاسی دھارے میں شامل ہوکر نظریہ پاکستان کی بنیاد پر پاکستان کے لیے زیادہ بہتر کردار ادا کرتے اور ن لیگ چاروں صوبوں بلکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت قومی یکجہتی کی علامت بنتی اور چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر کے مقابلے میں یہ مرتبہ میاں نوازشریف کو حاصل ہوتا ۔ بہرحال اب بھی وقت ہے اگر ن لیگ کی قیادت عمران خان کے خوف کے حصار سے باہر آجائے۔ سندھ میں مشاہد اللہ خان ، نہال ہاشمی ، سلیم ضیاء اور دیگر خیبر پختونخوا میں صابر شاہ ، مہتاب عباسی ، کیپٹن صفدر اور دیگر بلوچستان میں عبدالقادر بلوچ اور سردار عبدالرؤف وغیرہ کو فری ہینڈ دیا جائے تو اس سے چاروں صوبوں میں جڑیں رکھنے والی ن لیگ ملک گیر سطح پر منظم ہوگی اور نہ صرف اس سے قومی یکجہتی مستحکم ہوگی بلکہ پورے ملک کا اقتدار بھی ن لیگ کی جھولی میں آگرے گا ، لیکن اگر ’’سندھ تمہارا اور پنجاب ہمارا‘‘کے فارمولے کو ہی حزرجاں بنائے رکھا گیا تو پھر برادرم رؤف طاہر جیسے کالم نگار تاسف کے انداز میں یہ سوال اٹھاتے رہیں گے ’’سند ھ میں مسلم لیگ کس حال میں ہے اور کیوں ہے ؟‘‘