مودی نے بھگوان بدل لیا اب بھارت میں بائیڈن مندربنیں گے
شیئر کریں
امریکی صدر ٹرمپ انتخابات میں شکست پر آگ بگولہ ہیں تو دوسری جانب ان کے ’’گہرے دوست‘‘بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے نومنتخب صدر جو بائیڈن کو’’بھگوان‘‘بنالیا ہے اورانہیں ٹیلی فون کر کے ا ن کی کامیابی کو امریکی جمہوری کی طاقت کا مظاہرہ قرار دیتے ہوئے اسٹریٹیجک تعلقات کو مزید گہرا کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ٹیلیفون کال کے دوران مودی نے امریکی نائب صدر منتخب ہونے والی ہندوستانی تارکین وطن کی اولاد کمالہ ہیرس سے بھی نیک خواہشات کا اظہار کیا وزارت خارجہ نے بتایا کہ دونوں رہنمائوں نے کورونا وائرس، سستی ویکسین تک رسائی کے فروغ اور ماحولیاتی تبدیلی سمیت اپنی ترجیحات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کے دورہ بھارت کے دوران نہ صرف بھارتیہ جنتاپارٹی کے کارکنوں بلکہ آرایس ایس کے کئی مرکزی رہنمائوں نے انہیں’’ بھگوان‘‘قراردیتے ہوئے راتوں رات ان کے نام کے کئی مندر بنا ڈالے تھے جہاں صدر ٹرمپ کی مورتیاں رکھ کر ان کی پوجا کی ویڈیوز اورتصاویر کو خصوصی طور پر بھارتی ذرائع ابلاغ میں جگہ دلوائی گئی تھی. امریکی ٹیلی ویڑن چینلز کی جانب سے 3 نومبر کے انتخابات میں بائیڈن کی فتح کی پیش گوئی کے فوری بعد ہی مودی نے ایک سوشل میڈیا پیغام میں بائیڈن کو مبارکباد پیش کی تھی حالانکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شکست تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔مودی نے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ انہوں نے بائیڈن کو مبارکباد کے لیے فون پر بات کی اور دونوں بڑی جمہوریتوں کے مابین اسٹریٹجک شراکت داری کے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہندوستانی وزارت خارجہ نے کہا وزیر اعظم مودی نے امریکی صدر منتخب بائیڈن کو ان کے انتخاب پر گرم جوشی سے مبارکباد پیش کی اور اسے امریکی جمہوری روایات کی مضبوطی اور لچک کا ثبوت قرار دیا۔مودی نے ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے تھے، دونوں رہنمائوں نے گزشتہ سال امریکی شہر ہیوسٹن میں اور ایک بار پھر مودی کے آبائی ریاست گجرات میں ٹرمپ کے ہندوستان دورے کے دوران مشترکہ ریلی نکالی تھی مودی کے ناقدین نے کہا کہ وزیر اعظم مودی ٹرمپ کی امیدواریت کی توثیق کرنے کے خطرناک حد تک قریب آ گئے تھے اور ڈیموکریٹک انتظامیہ کے تحت اس کی وجہ سے ہندوستان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ٹرمپ کے دور صدارت کے دوران ہندوستان اور امریکا قریب آئے کیونکہ دونوں ممالک کا مقصد خطے میں چین کے پھیلتے ہوئے فوجی اور معاشی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا تھا۔