میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کیا امریکا ناکام ریاست بن رہا ہے؟

کیا امریکا ناکام ریاست بن رہا ہے؟

ویب ڈیسک
منگل, ۱۰ نومبر ۲۰۲۰

شیئر کریں

مہمان کالم
۔۔۔۔۔
پاک کرگ مین

جس وقت میں یہ کالم لکھ رہا ہوں جو بائیڈن صدارتی الیکشن جیت چکے ہوں گے۔ انہوں نے واضح طور پر اپنے حریف سے لاکھوں ووٹ زیادہ لیے ہیں۔ وہ یہ کہہ سکتے ہیں اور انہیں کہنا چاہیے کہ مجھے اپنی قوم پرحکومت کرنے کا بھاری مینڈیٹ مل چکا ہے مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا وہ واقعی اس قوم پر حکومت کر سکیں گے؟ ان کے حریف ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی صدارتی انتخاب میں سات کروڑ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے جو کہ امریکی صدارتی انتخاب کی تاریخ میں دوسری سب سے بڑی تعداد ہے۔ کاسٹ شدہ ووٹوں میں سے 47 فیصد سے زیادہ ان کو ملے ہیں‘ فلوریڈا اور ٹیکساس سمیت کم از کم 24 ریاستوں میں جیت ان کے نام ہوئی ہے ،ملک کے بڑے بڑے حصوں پر ان کا بھرپور اثر رہا ہے جہاں لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں ان کے حامی ہیں۔ چار سالہ حکومت میں ان کے حامیوں نے ان کے دور ِ حکومت کو دیکھا، جانچا، پرکھا اور جب انتخاب کا وقت آیا تو کھل کر ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیے‘ سب سے بڑھ کر اس وقت سینیٹ میں ان کی پارٹی کی اکثریت ہے؛ تاہم سینیٹ‘ اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکی عوام کی نمائندہ نہیں ہے‘ یہ ایک ایسی انتہا پسند پارٹی کے ہاتھ میں رہے گی جو ہر ممکن طریقے سے جو بائیڈن کو ناکام کر نے کی کوشش کرے گی۔ اس سے پہلے کہ میں ان مسائل کی طرف جائوں جو اس محاذ آرائی کے نتیجے میں پیدا ہوں گے پہلے ہم اس موضوع پر بات کر لیتے ہیں کہ ہماری سینیٹ کس قدر غیر نمائندہ ہے۔

ہر ریاست کے دو سینیٹر ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وائی اومنگ ریاست‘ جس کی آبادی 5لاکھ 79 ہزار ہے‘ کا سیاسی وزن بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ 3کروڑ 90 لاکھ آبادی والی کیلیفورنیا کا۔ زیادہ سیاسی وزن رکھنے ولی ریاستیں مجموعی قوم کے مقابلے میں کم تمدنی ہونے کا رجحان رکھتی ہیں۔ اس وقت امریکی قوم میٹرو پولیٹن اور دیہاتی تقسیم کا شکار ہو چکی ہے جس کی وجہ سے سینیٹ میں دائیں بازو کی طر ف جھکائو نظر آ رہا ہے۔ ایک ویب سائٹ ’’فائیو تھرٹی ایٹ‘‘ کے ایک تجزیے کے مطابق سینیٹ دراصل ایک اوسط ووٹر کے مقابلے میں سات فیصد پوائنٹس تک ریپبلکنزکی زیادہ نمائندگی کرتی ہے۔ سوزن رائس‘ جنہیں ایک ڈیموکریٹک ریاست میں حمایت حاصل ہے‘ ایک استثنا ہیں مگر صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹک پارٹی کی شاندار جیت کے باوجود ریپبلکن پارٹی دائیں بازو کے سینیٹ میں اپنا کنٹرول برقرار رکھے گی۔ آپ یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ حکومت پر اس طرح کا منقسم کنٹرول ایک مسئلہ کیسے بن گیا؟ ریپبلکنز نے براک اوباما کے دو تہائی دورِ صدارت میں کانگرس کے دونوں چیمبرز پر اپنا کنٹرول قائم رکھا تھا مگر ہم پھر بھی حکومت کرتے رہے۔ کیا ایسا نہیں ہوا؟ ہاں مگر! اصل میں اوباما کے دورِ صدارت میں بھی ریپبلکنز نے رکاوٹیں کھڑی کر کے بہت نقصان پہنچایا تھا۔ ریپبلکنز نے ہارڈ بال والے ہتھکنڈے استعمال کیے، انہوں نے یہاں تک بھی دھمکیاں دیں کہ وہ قومی قرضوں کے معاملے میں ملک کو دیوالیہ قرار دلوا دیں گے۔ ان کامقصد اس مالی سپورٹ کو قبل از وقت واپس لینے پر مجبور کرنا تھا جس نے ہماری معاشی بحالی کی رفتار کو سست کر دیا تھا۔ میرے اندازے کے مطابق اگر یہ تباہ کن حربہ استعمال نہ کیا جاتا تو اس وقت 2011ء کے مقابلے میں بیزروزگاری کی شرح کم از کم دو فیصد کم ہوتی۔

2011ء کے مقابلے میں جب ایوان پر ریپبلکنز کا کنٹرول تھا‘ اس وقت مزید اخراجات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ فوری صورت حال یہ ہے کہ کورونا وائرس بڑی شد و مد سے پھیل رہا ہے‘ روزانہ ایک لاکھ نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں اور اگر حکومت لاک ڈائون نہ بھی کرے‘ اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمیں اس وقت ہیلتھ کیئر، بزنس اور بیروزگاروں پر وفاقی حکومت کی طرف سے مزید اخراجات کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک معقول تخمینے کے مطابق جب تک کورونا وائرس کی ویکسین تیار نہیں ہو جاتی‘ ہمیں ہر مہینے مزید 200ارب ڈالر خرچ کرنے کی ضرورت ہو گی۔ بے شک کورونا وائرس ختم بھی ہو جائے‘ ہمیں معاشی کمزوری کا سامنا کرنا پڑے گا جس کے لیے ہمیں مزید سرکاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہو گی مگر سینیٹ چیئرمین میک کونل نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مل کر انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری کو موثر طریقے سے بلاک کر رکھا ہے‘ تو وہ نئے صدر جو بائیڈن کے ساتھ مل کر ایساکرنے کے لیے کیسے تیار ہوں گے؟اب صرف اخراجات کی پالیسی ہی نہیں رہ گئی۔ کوئی بھی صدر اپنے ایگزیکٹو اقدامات کے ذریعے ا چھی نیت (براک اوباما) یا بری نیت (ڈونلڈ ٹرمپ) سے بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے۔ موسم گرما میں ایک ڈیمو کریٹک ٹاسک فورس نے ایسے بہت سے کاموں کی نشان دہی کی تھی جوصدر بائیڈن کانگرس کی مدد کے بغیر ہی کر سکتے ہیں۔ مگر یہاں مجھے ایک جانبدار سپریم کورٹ کے حوالے سے فکر لاحق ہے جو میک کونل کے روایا ت شکن رویے سے متاثر نظر آتی ہے جس نے الیکشن سے چند روز پہلے بڑی عجلت میں ایمی کونی بیرٹ کی تقرری کی تصدیق کی ہے۔ الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگا کر ڈونلڈ ٹرمپ نے سپریم کورٹ جانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ٹرمپ نے وسکونسن، جارجیا، پینسلوینیا اور مشی گن میں ووٹوں کی گنتی کو چیلنج کیا ہے

،
ان تینوں ریاستوں میں فتح جو بائیڈن کو کامیابی دلوانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم ریاست جارجیا کے کچھ علاقوں میں ووٹوں کی گنتی بھی رکوانا چاہتی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم کی جانب سے الزام لگایا گیا تھا کہ چیتھم کاو?نٹی میں ریپبلکن پارٹی کے ایک مبصر نے دیکھا کہ ایک اہلکار ڈاک کے ذریعے تاخیر سے آنے والے 53 بیلٹس کو ان ووٹوں میں شامل کر رہا تھا‘ جو وقت پر پہنچے تھے۔ جارجیا میں صرف ان ووٹوں کو گنتی میں شامل کیا جانا تھا جو الیکشن کے دن شام سات بجے تک پہنچ گئے تھے۔2016ء میں ٹرمپ نے وسکونسن، مشی گن، اور پینسلوینیا میں غیر معمولی فتح حاصل کی تھی۔ الیکشن کی رات ہی وائٹ ہائوس سے ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ دوبارہ انتخاب جیت گئے ہیں اور وہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں لے کر جائیں گے۔ انہوں نے اپنے ریپبلکن ڈونرز سے اس قانونی جنگ میں مدد کی درخواست بھی کی۔ریپبلکن نیشنل کمیٹی کی سربراہ راہ رونا مک ڈینئیل کا کہنا تھا کہ ’لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی، ہم لڑ رہے ہیں‘۔ سپریم کورٹ کے نو میں سے چھ ججوں کی تقرری اس جماعت نے کی ہے جس نے پچھلے آٹھ انتخابات میں صرف ایک مرتبہ زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ اور اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ یہ عدالت 1930ء والی سپریم کورٹ جیسے طرزِ عمل کا مظاہرہ کرے جس نے اس وقت تک نیو ڈیل پروگرامز کو بلاک کیے رکھا جب تک F.D.R نے سیٹیں بڑھانے کی دھمکی نہیں دے دی۔ یہ ایسا کام ہے جو ٹرمپ کے زیر اثر سینیٹ کی موجودگی میں جو بائیڈن کسی صورت نہیں کر سکتے۔

ہم اس وقت ایک بڑی مشکل میں گھرے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ کی شکست کا مطلب یہ ہے کہ ہم فی الحال مطلق العنانیت میں گرنے سے بچ گئے ہیں مگر خطرات پھر بھی ختم نہیں ہوئے۔ اس وجہ سے نہیں کہ ٹرمپ کون ہیں بلکہ اس لیے کہ جدید ریپبلکن پارٹی بھی شدت پسند اور جمہوریت مخالف ہے مگر ہمارا انتخابی نظام ایسا ہے جس کی وجہ سے ٹرمپ کی پارٹی اب بھی نئے صدر کی کورونا وبا، معاشی اور ماحولیاتی مسئلوں سے نمٹنے کی صلاحیت کو غیر موثر کر سکتی ہے۔ اس بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ سیاسی غیر فعالیت میں کوئی دوسرا ملک بھی امریکا کا مقابلہ کر سکتا ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک ناکام ریاست بننے والا ہے‘ ایسی ریاست جس کی حکومت اب اپنا کوئی موثر کنٹرول نہیں رکھتی۔ جارجیا میں ہونے والے رن ا?ف الیکشن سے شاید ڈیمو کریٹس کو سینیٹ کا کنٹرول بھی مل جائے یا پھر جو باییڈن اس قابل ہو جائیں کہ ہمیں اس خطرناک مرحلے سے واپس لے جانے کے لیے بعض ریپبلکن ارکان کو قائل کر لیں مگر جو بائیڈن کی بظاہر کامیابی کے باوجود ہمارا جمہوری ملک خطرات میں گھرا ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں