کراچی میں ٹرانسپورٹ کا برا حال، شہری کھٹارا بسوں میںسفر کرنے پر مجبور
شیئر کریں
کراچی میں 3 دہائیوں قبل سرکلر ریلوے اور ٹرام جیسی زبردست سہولیات کے خاتمے کے بعد سے شہری آج کے جدید دور میں بھی پرانی اور کھٹارا بسوں کی چھتوں پر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا میٹروپولیٹن شہر کراچی جہاں ماضی میں سرکلر ریلوے اور ٹرام جیسی سہولیات مہیا تھیں، تین دہائیاں گزرگئیں سی این جی گرین بسیں اور پیپلز بس سروس کی لگ بھگ سو بسوں کا ہی ٹرانسپورٹ سسٹم میں اضافہ کیا جا سکا۔سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے دور میں چلائی جانے والی سی این جی بسیں آج سرجانی ٹائون میں ٹوٹی پھوٹی حالت میں اپنے ٹرمینل پر کھڑی ہیں، کسی کے ٹائر نہیں، شیشہ ٹوٹا ہوا تو کہیں سیٹ غائب ہیں۔آل کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے صدر ارشاد بخاری کے مطابق کم از کم چالیس ہزار بسوں کی ضرورت والے شہر میں اس وقت محض چھ ہزار بسیں، کوچز اور منی بسیں رواں دواں ہیں۔ شہری چنگچی اور ٹوٹی پھوٹی اور کھٹارا بسوں میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔کراچی میں کسی ماس ٹرانزٹ سسٹم کی عدم جودگی کی وجہ سے شہر میں پرائیوٹ گاڑیوں کی تعداد پچاس لاکھ سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ شہر میں ٹرانسپورٹ کے بدترین نظام کی سب سے زیادہ صوبائی حکومت پھر وفاقی اور شہری حکومتیں باالترتیب ذمہ دار ہیں۔شہر میں اس وقت وفاقی حکومت کا گرین لائن، صوبائی حکومت کا ایدھی لائن منصوبے سست روی سے زیر تعمیر ہیں لیکن ماہرین کے مطابق جب تک تیز رفتاری سے ماس ٹرانزٹ سسٹم کے دیگرریڈ لائن، یلولائن اور بلولائن سمیت دیگر منصوبے شروع نہیں کیے جاتے شہریوں کے لیے ٹرانسپورٹ کی پریشانی مکمل ختم ہونا ناممکن ہے۔