سندھ کابینہ گندم کی امدادی قیمت دو ہزار روپے فی من مقرر
شیئر کریں
(رپورٹ: علی کیریو) سندھ کابینہ نے مہنگی درآمدی گندم کی خریداری پر زرمبادلہ خرچ کرنے سے بچنے کیلئے ایک عملی فیصلہ کیا ہے تاکہ مقامی کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے گندم فی من کم سے کم خریداری کیلئے 2000 روپے کی قیمت مقرر کی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ گندم کی کاشت کریں۔ کابینہ نے 202 روپے فی 40 کلو گنے کی امدادی قیمت کی بھی منظوری دے دی اور کرشنگ سیزن نومبر سے شروع ہوگا۔جمعرات کو وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت اجلاس وزیر اعلی ہاؤس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں تمام صوبائی وزراء ، متعلقہ مشیران ، چیف سیکرٹری ممتاز شاہ ، متعلقہ صوبائی سکریٹریز اور دیگر افسران نے شرکت کی۔اس اجلاس کا پہلا اور اہم ایجنڈا گندم اور گنے کی امدادی قیمت کا تعین تھا۔ کابینہ ارکان کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ گندم کی امدادی قیمت مقرر کی جائے تاکہ کاشتکار زیادہ سے زیادہ رقبہ پر گندم کی کاشت کرسکیں۔ کابینہ اراکین نے بتایا کہ حال ہی میں یوکرائن سے گندم درآمد کی گئی ہے جسکی سندھ میں 40 کلوگرام کی قیمت تقریباً 5000 روپے بنتی ہے حالانکہ یہ اتنے بہترین معیار کی نہیں جس طرح یہاں کاشت کی جارہی ہے۔اجلاس کو بتایا گیا کہ گندم کی درآمد پر ملک بھاری زرمبادلہ خرچ کررہا ہے لیکن ہم اپنے کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں کہ وہ مقامی طلب اور برآمد کیلئے زیادہ گندم کاشت کریں۔ محکمہ زراعت نے کابینہ کو بتایا کہ پنجاب اور بلوچستان نے فی 40 کلوگرام گندم خریداری کی سپورٹ پرائس 1700 روپے مقرر کرنے کی تجویز پیش کی ہے جبکہ خیبر پختونخوا نے 40 کلوگرام کیلئے1880روپے کی تجویز پیش کی ہے۔کابینہ اراکین نے متفقہ طور پر گندم کی خریداری کی کم سے کم سپورٹ قیمت فی من (40 کلوگرام) 2000 روپے طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ فیصلہ اس وقت لیا جارہا ہے جب 21 نومبر سے 15 دسمبر تک گندم کی کاشت کا موسم قریب آرہا ہے لہذا کاشتکار اپنی بہترین قیمت کی وجہ سے زیادہ گندم کاشت کرنے کو ترجیح دیں گے۔زرعی ملک ہونے کے ناطے ہمیں ایسی پالیسیاں ترتیب دینی ہونگی، جس کے تحت ہم نہ صرف اپنی غذائی تحفظ کو یقینی بنائیں بلکہ غیر ملکی زر مبادلہ کمانے کیلئے اناج برآمد کریں۔ سندھ کابینہ نے ایک اور اہم فیصلہ لیتے ہوئے گنے کی کم سے کم قیمت 202 روپے فی 40 کلو گرام کے حساب سے اور 0.50 (پچاس پیسہ) کوالٹی پریمیم مقرر کی۔کابینہ نے محکمہ زراعت کو ہدایت کی کہ وہ 30 نومبر سے کرشنگ سیزن کے آغاز کو یقینی بنائے۔کابینہ کو بتایا گیا کہ وزیر زراعت نے 20 اکتوبر 2020 کو شوگرکین کنٹرول بورڈ کا اجلاس منعقد کیا تھا جس میں شوگر مل کے تمام نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ اجلاس میں کاشتکاروں نے گنے کی خرید قیمت میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ ان پٹس قیمتوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے گنے کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ 20-2019کے دوران سندھ حکومت نے گنے کی قیمت 192 روپے فی 40 کلو مقرر کی تھی۔ اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ حکومت پنجاب نے فی 40 کلوگرام گنے کی کم سے کم قیمت میں 200 روپے مقرر کی ہے۔ کابینہ نے گنے کی پیداواری لاگت کا احساس کرتے ہوئے گنے کی خریداری کی کم سے کم قیمت 202 روپے فی 40 کلو گرام طے کرنے کا فیصلہ کیا اور ساتھ ہی معیاری پریمیم کی شرح کو فی 40 کلوو گرام کیلئے 0.50(پچاس پیسے) کی منظوری بھی دی۔ کابینہ کو بتایا گیا کہ سر کاؤجی جہانگیر (سی جے) انسٹیٹیوٹ آف سائکیاٹری ، حیدرآباد میں 40-1939 میں دیھ گدو ، تعلقہ حیدرآباد میں 27.22 ایکڑ رقبے پر قائم کیا گیا تھا۔ کابینہ نے مکمل بحث کے بعد سندھ کلچر ہیریٹیچ(تحفظ) ایکٹ 1994 کے تحت اس عمارت کو بطور محفوظ ثقافتی ورثہ قرار دینے کی منظوری دے دی۔ محکمہ ثقافت نے ایک اور آئٹم پیش کیا جس کے تحت ہیریٹیج کمیٹی نے کراچی کے عبد اللہ ہارون روڈ ، ہوشنگ روڈ پر واقع ہومئی کتراک چیمبر کے احاطے کے اندر ایک عمارت کی تعمیر کی منظوری دی تھی۔ اجلاس میں کابینہ کو ہومئی کتراک چیمبر کے پرانے کمپاؤنڈ کی دیواروں کے اندر تعمیر ہونے والی مجوزہ اونچی عمارت کی تصاویر دکھائی گئیں۔ کابینہ اراکین نے مشاہدہ کیا کہ چیمبر کی پرانی کمپاؤنڈ دیواروں کے اندر نئی اونچی عمارت کی تعمیر پرانے ورثے کو زیادہ نمایاں کرے گی۔ لہذا کابینہ اراکین نے اس تجویز کی منظوری / منصوبے پر دوبارہ غور کرنے کیلئے ہیریٹیج کمیٹی کو واپس بھیج دیا۔ بعد ازاں کابینہ نے سندھ کلچر ہیریٹیچ(تحفظ) ایکٹ 1994 کے تحت وضع کردہ قواعد کی منظوری دی۔ وزیر برائے محکمہ ایکسائز ، ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول نے کابینہ کو بتایا