میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وسطی ایشیاء میں عالمی طاقتوں کے ممکنہ اہداف ؟

وسطی ایشیاء میں عالمی طاقتوں کے ممکنہ اہداف ؟

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۱ اکتوبر ۲۰۲۰

شیئر کریں

۔
ابھی آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ کے شعلے بجھنے بھی نہ پائے تھے کہ وسطی ایشیا کا ایک اہم ترین ملک کرغزستان بھی داخلی طور پر شدید سیاسی بحران سے دوچار ہوگیا ہے اور کرغزستان میں انتحابات میں دھاندلی کے خلاف بھرپور مظاہروں اور سرکاری عمارتوں پر مظاہرین کے قبضے کے بعد الیکشن کالعدم قراردیدیے گئے ہیں ۔ نیز دوروز سے حکومت کے خلاف ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں مظاہرین اور سکیورٹی فوسز کے درمیان جھڑپوں میں سینکڑوں افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں، جن میں بڑی تعداد سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں ۔جبکہ دارالحکومت بشکیک میں ہزاروں لوگوں نے صدر سورن بے جین بیکوف کے خلاف مارچ میں مشتعل ہونے کے بعد پارلیمنٹ سمیت دیگر سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر لیا۔اس کے علاوہ مظاہرین کی جانب سے ملک کی سب سے بڑی جیل کو توڑ کر وہاں قید اپوزیشن رہنماؤں کو بھی آزاد کروالیا گیا ہے۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ کر غزستان کی فوج بھی اس کشیدہ صورت حال پر قابو پانے میں تاحال ناکام نظر آرہی ہے ۔وسط ایشیا میں یکے بعد دیگرے جنگ ، انارکی اور عدم استحکام کے پیدا ہوجانے کو ایک ایسی اتفاقی صورت حال ہر گز قرار نہیں دیا جاسکتا کہ جسے خاموشی کے ساتھ نظر انداز کردیا جائے۔عالمی اُمور پر گہری نگاہ رکھنے والے بعض تجزیہ کاروں کو یقین ہے کہ وسط ایشیا میں اچانک سے رونما ہونے والی سیاسی و جنگی کشمکش کے پس پردہ عالمی قوتیں بھرپور انداز میں ملوث ہیں ۔لیکن عالمی طاقتیں وسط ایشیا میں اپنے کن اہداف کے تعاقب میں ہیں؟اس سوال کا درست جواب حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے وسط ایشیا کی تزویراتی اہمیت کو سمجھا جائے۔
یاد رہے کہ سویت یونین کے خاتمہ کے بعد آزاد ہونے والے پانچ ممالک ازبکستان، تاجکستان ،ترکمانستان ،قازقستان اور کرغزستان پر مشتمل وسیع و عریض علاقہ کو عرفِ عام میں’’ وسطی ایشیا ‘‘ بھی کہا جاتاہے ۔بظاہر وسطی ایشیا ئی ممالک روس کے بطن سے معرضِ وجود میں آئے ہیں لیکن نہ صرف روس اِن ممالک کو روزِ اول سے ہی تسلیم کرتا آیا ہے بلکہ اِن میں سے ہر ایک ملک کے ساتھ روس نے بڑے گہرے اور مضبوط سفارتی مراسم بھی قائم کیے ہوئے ہیں ۔ ابتداء میں وسطی ایشیائی ممالک کو غیر اہم ممالک کی فہرست میں شمار کیا جاتاتھا کیونکہ یہ تمام خطہ مکمل طور پر’’ لینڈ لاک‘‘ ہے۔ یا درہے کہ بین الاقوامی سیاسیات میں لینڈ لاک اُن ممالک کو کہا جاتاہے ،جن کے ساتھ سمندر متصل نہیں ہوتا۔چونکہ لینڈ لاک ممالک تجارتی بندرگاہوں سے یکسر محروم ہوتے ہیں ۔ لہٰذا انہیں عالمی تجارت سے منسلک ہونے کے لیے دیگر ممالک پر انحصار کرنا ہوتاہے۔ روس نے بھی جن دو وجوہات کی بناء پر وسط ایشیائی ممالک کے آزادی حاصل کرنے پر اعتراض نہیں کیا تھا ۔اُن میں پہلی وجہ ان ممالک کا لینڈ لاک ہونا ہی تھا جبکہ دوسری وجہ کے مطابق چونکہ یہ خطہ روسی دارالحکومت کریملن سے انتہائی فاصلے پر واقع تھا اورروسی حکومت کو ان ممالک پر اپنا ا انتظامی ختیار قائم رکھنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔لہٰذا روس نے خوشی خوشی ان ممالک کی آزادی کو قبول کرلیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ عالمی سپر پاور امریکا نے بھی کبھی وسطی ایشیائی ممالک کو خاص اہمیت نہیں دی اور ان ممالک کے ساتھ امریکا کے سفارتی و دفاعی تعلقات ہمیشہ سے ہی سرد مہری کا شکار رہے ہیں ۔ لیکن وسطی ایشیا کی سفارتی تنہائی اُس وقت اچانک سے ختم ہونا شروع ہوگئی جب چین نے ون بیلٹ ،ون روڈ منصوبہ کا اعلان کیا ۔ کیونکہ چین کا یہ عظیم الشان تجارتی منصوبہ وسطی ایشیائی ممالک سے ہوکر گزرنا تھا۔اس لیے چین نے وسطی ایشیائی ممالک سے اپنے سفارتی و تجارتی روابط استوار کرنے میں خصوصی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔
خاص طور پر جب چین نے شنگھائی تعاون تنظیم بنائی تو اس میں ترکمانستان کے علاوہ وسطی ایشیا کے تمام ممالک فوری طور پر شامل ہوگئے ۔نیز یہی چاروں ممالک چین کی سرکردگی میں قائم ہونے والے ایشیائی انفرااسٹرکچر انوسٹمنٹ بینک کے بھی بانی اراکین بن گئے۔اس خطہ میں چین کی غیر معمولی دلچسپی نے عالمی طاقتوں کو وسط ایشیائی ممالک کی جانب متوجہ کیا اور انہیں پہلی بار اندازا ہوا کہ ماضی میں وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ اپنے دفاعی و سفارتی روابط نہ بڑھا کر وہ کتنی بڑی غلطی کرچکے ہیں ۔ صرف یہ ہی نہیں وسط ایشیائی ممالک جو ماضی میں صرف روس پر انحصار کرتے تھے ،اَب انہوں نے بھی روس سے زیادہ چین پر انحصارکرنا شروع کردیاہے ۔ مگر وسطی ایشیاء کے ہر ملک میں روس ابھی بھی اپنا بھرپور اثرورسوخ رکھتاہے ۔مثال کے طور پر قازقستان دنیا میں سب سے زیادہ یورینیم پیدا کرتا ہے، جس پر روس کی مکمل اجارہ داری ہے۔نیزقازقستان کے جنوب مغرب میں روس کا ایک بہت بڑا میزائل لانچنگ اڈہ بھی ہے۔ کرغزستان میں دارالحکومت بشکیک کے نزدیک کانٹ میں روس کا ایک فضائی اڈہ ہے۔اس کے علاوہ تاجکستان میں 7000 اہلکاروں پر مشتمل روس کا بیرون ملک سب سے بڑا عسکری اڈہ موجود ہے۔جبکہ آذربائیجان ،ترکمانستان اور ازبکستان میں بھی روس کی دفاعی تنصیبات قائم ہیں ۔ یعنی وسطی ایشیاء کے تمام ممالک روس اور چین پر پوری طرح سے بھروسا کرتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب ایک بہت بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ وسطی ایشیا ء کے ممالک ایک ہی تاریخ رکھنے اور ایک دوسرے کے ہمسایہ ہونے کے باوجود بھی ایک دوسرے پر بالکل بھی بھروسا نہیں کرتے اور ان کے راستے ایک دوسرے سے جداگانہ بلکہ اکثر متصادم ہی رہتے ہیں ۔ مثلاً تاجکستان کو ازبکستان سے شکوہ ہے کہ وہ اس کے شہروں سمرقند اور بخارا پر کیوں حکومت کررہا ہے، جبکہ اس کے چاروں ہمسائے تاجکستان سے ناراض رہتے ہیں۔جبکہ کرغزستان اور تاجکستان کے درمیان بھی اکثر وبیشتر سرحدوں پر جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں ۔
شاید وسطی ایشیائی ممالک کے انہیں اختلافات سے فائدہ اُٹھا کر بعض عالمی قوتیں اس خطے میں روس اور چین کے لیے مشکل حالات پیدا کرکے ون بیلٹ ،ون روڈ کے عظیم الشان تجارتی منصوبہ کو سبوتاژ کرنے کا مذموم ارادہ رکھتی ہیں ۔ آرمینیا کا آذربائیجان کے خلاف اچانک جارحیت کرنا اس منصوبہ کی اولین کڑی قرار دی جاسکتی ہے۔ تاہم روس اور چین اپنے حریفوں کے مذموم ارادے بروقت بھانپنے میں کامیاب ہوگئے ۔یہی وجہ ہے کہ روس نے آرمینیا کے ساتھ اپنا دفاعی معاہدہ ہونے کے باوجود اپناسارا وزن یہ کہہ کر آذربائیجان کے پلڑے میں ڈال دیا ہے کہ ’’ہمارا آرمینیا کے ساتھ دفاعی معاہدہ ضرور موجود ہے لیکن اس میں نگورنو کاراباخ کا علاقہ نہیں آتا کیونکہ یہ آذربائیجان کا حصہ ہے‘‘۔کریملن کی جانب سے جاری ہونے والے اس بیان نے آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ کا گویا حتمی فیصلہ کردیا ہے اور اس جنگ میں جیت آذربائیجان کی جھولی میں ڈال دی گئی ہے۔اَب آپ دیکھیں گے کہ بہت جلد آذربائیجان نگورنو کاراباخ کے علاقہ میں اپنی عملداری قائم کرکے اپنی فتح کا اعلان کردے گا جبکہ آرمینیا انتہائی خاموشی کے اپنی ملکی حدود تک سمٹ جائے گا۔یاد رہے کہ حالیہ جنگ میں آذربائیجان کی ممکنہ جیت اُن مغربی ممالک کے لیئے سخت شرمندگی اور ہزیمت کا باعث ہوگی جو آرمینیا کی پشت پناہی کرکے روس ،ترکی اور چین کے تعلقات میں دراڑ پیدا کرنا چاہتے تھے۔ حالانکہ کسی کو توقع نہیں تھی کہ روس آرمینیا کے مقابلے میں آذربائیجان کے موقف کی حمایت کرے گا لیکن چین اور ترکی کے ساتھ اپنے دفاعی اتحاد کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے یہ مشکل ترین فیصلہ بھی بہت آسانی سے لے لیا ۔
واضح رہے کہ کرغزستان میں پیدا ہونے والا داخلی بحران کے حل کے لیے بھی روس اور چین پوری طرح سے متحرک ہوچکے ہیں ۔ ویسے بھی روسی صدر ولادیمیر پوٹن پرتشدد مظاہروں کی سائنس کو اچھی طرح سے جانتے ہیں اور انہیںبخوبی ادراک ہے کہ انارکی پھیلانے والوں کے اصل مقاصد اور اہداف کس حد تک خطرناک ہوسکتے ہیں ؟ لہٰذا روسی حکومت کسی بھی صورت کرغزستان میں امن و امان کی صورت حال کو اُس آخری سطح تک پہنچنے نہیں دے گی کہ جہاں عالمی طاقتیں کرغزستان کی بحرانی کیفیت کو روس اور چین کے خلاف استعمال کرسکیں ۔ویسے بھی اپوزیشن کے جن رہنماؤں نے کرغزستان کے صدارتی دفتر کا انتظام سنبھال لیا ،اُن کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ سب کے سب روسی صدر ولایمیر پوٹن کے احکامات پر عمل پیرا ہونا ایک اعزاز کی بات سمجھتے ہیں ۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ کرغزستان میں ہونے والی حالیہ بغاوت بظاہر روس اور چین کے مفادات سے براہ راست متصادم دکھائی دیتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بغاوت کے نتیجے میں کرغزستان میں قائم ہونے والی نئی حکومت کے معرض وجود میں آنے کے بعد وسطی ایشیائی ممالک پر روس اور چین کی گرفت کچھ اور بھی مضبوط ہوجائے گی۔
مگراس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دو،چار شکستوں سے گھبرا کر عالمی طاقتیں وسطی ایشیاء میں اپنی مداخلت کا کھیل کھیلنا بند کردیں گی۔ کیونکہ چین کو چاروں طرف سے گھیر کر اُس کے عظیم ترین تجارتی منصوبے ون بیلٹ،ون روڈ کو سبوتاژ کرنے کے لیے از حد ضروری ہے کہ صرف جنوبی ایشیاء ہی نہیں بلکہ وسطی ایشیاء میں بھی جنگ کے شعلے بڑھا کر پورے ایشیا کو شدید ترین عدم استحکام کا شکار کیا جائے۔ اس لیے ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں وسطی ایشیاء میں سیاسی چپقلس،پراکسی وار، انارکی اور بغاوت کا کھیل آنے والے ایام میں نہ صرف بدستور جاری رہے گا بلکہ اس میں مزید شدت بھی آسکتی ہے ۔ چونکہ سی پیک بھی ون بیلٹ ،ون روڈ منصوبہ کے ایک اہم ترین حصہ ہے ۔لہٰذا وسطی ایشیاء میں رونما ہونے والے معمولی اور غیر معمولی واقعات براہ راست پاکستان کے مستقبل پر بھی اثرانداز ہوں گے۔ یہاں پاکستانی قیادت کی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے وہ اپنے ماضی کے سفارتی و دفاعی تعلقات کا سہارا لے کر وسطی ایشیائی ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اپنا بھرپور کردار ادار کریں ۔ یادرکھیں ! مضبوط ،پرامن اور مستحکم وسطی ایشیا ء پاکستان کے تابناک مستقبل کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں