سفر یاد....قسط33
شیئر کریں
شاہد اے خان
دو روز گزر گئے، ہیڈ آفس سے لیٹر نہ آیا ہم روز صبح صبح مصری منیجر کے پاس پہنچ کر پوچھتے کیا جواب آیا اور وہ کہتا ابھی کوئی جواب نہیں آیا ۔ہم کہتے ہیڈ آفس فون کرکے پوچھیں، وہ کہتا معلوم کیا ہے ایک دو روز میں جواب آ جائے گا۔تیسرے روز بھی یہی ہوا جس کے بعد ہم چپ چاپ اپنے دفتر میں جا کر کام میں لگ گئے۔ دوپہر کو ایک بجے کے قریب مصری منیجر نے ہمیں بلوایا ، ہم دھڑکتے دل کے ساتھ اس کے دفتر میں پہنچے ہمیں اندازہ تھا کہ ہیڈ آفس سے جواب آ گیا ہے اس لیے ہمیں بلوایا گیا ہے لیکن جواب کیا ہوگا یہ سوچ ہمیں پریشان کر رہی تھی۔ اگر ہماری درخواست مسترد ہو گئی تو کیا ہوگا۔ ہمارے لیے کیمپ میں رہناسوہان روح بنا ہوا تھا۔ ایسے میں ہیڈ آفس کی منظوری امید کی آخری کرن تھی ،یہ کرن بھی نظر نہ آتی تو آس کا سورج ہی ڈوب جاتا۔ ہم مصری منیجر کے سامنے رکھی کرسی پربیٹھ گئے، ہماری نظریں اس کے چہرے پرسوالیہ نشان کی طرح گڑی تھیں۔ مصری منیجر کے چہرے پر سنجیدگی پھیلی ہوئی تھی ،ہم نے اس کے چہرے کے تاثرات سے ہیڈ آفس سے آنے والے جواب کا اندازہ لگانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ ہمارا دل عجیب انداز میں دھڑک رہا تھا، ایک نامعلوم دھڑکا لگا ہوا تھا۔ مصری منیجر کچھ دیر ہماری کیفیت کا جائزہ لیتا رہا پھر اس نے سکوت توڑ دیا۔ تمہاری درخواست کا جواب آگیا ہے ہیڈ آفس نے تمہاری رہائش تبدیل کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ ہمیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ ہم نے پوچھا کیا سچ میں ہیڈ آفس نے ہماری درخواست منظور کرلی ہے ۔مصری منیجر نے کہا ہاں ایسا ہی ہے پھر اس نے دراز سے ہیڈ آفس کا لیٹر نکال کر ہمیں دکھایا۔ ہماری خوشی کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں تھا، ہم کرسی سے کھڑے ہو گئے اور مصری منیجرکا شکریہ ادا کرنے لگے۔ منیجر نے ہمارا کاندھا تھپ تھپایا اور کہا جا کر کیمپ سے اپنا سامان لے آو¿ اور آج ہی نسیم شرقی شفٹ ہو جاو¿، میں نے وہاں فون کردیا ہے، تمہاری رہائش کا انتظام ہوگیا ہوگا۔ ہم یہ خوش خبری دینے سیدھا جلال صاحب کے پاس پہنچے، انہیں بتایا کہ ہماری درخواست منظور ہو گئی ہے اور ہم آج ہی نسیم کے ولا میں شفٹ ہو رہے ہیں۔ جلال صاحب بہت خوش ہوئے ،بولے میاں اب تو تم ہمارے ساتھ ہی جایا کرو گے راستے میں بھی گپ شپ رہے گی۔ ہم ڈرائیور کے ساتھ کیمپ پہنچے، سامان کیا تھا ایک سوٹ کیس ہی تھا، وہ اٹھاکر گاڑی میں رکھ لیا۔ ہم نے سوچا گلزار سے بغیر ملے جانا بہت بری بات ہوگی ویسے بھی اس کے خلوص کا تقاضہ تھا کہ ہم اس سے مل کر اور اس کی میزبانی کا شکریہ ادا کرکے جاتے۔ ہم نے ڈرائیور سے جنادریہ بازار چلنے کا کہا، گلزار کی دکان پر پہنچے لیکن گلزار موجود نہیں تھا، دکان کھلی ہوئی تھی اس کا مطلب تھا کہ وہ کہیں قریب ہی گیا ہے اور جلدی واپس آجائے گا۔
ہم نے ڈرائیور سے تھوڑا انتظار کرنے کیلیے کہا لیکن اس نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ابھی واپسی کی شفٹ بھی اٹھانی ہے اس لیے نہیں رک سکتا۔ گلزار کے نہ ملنے کا افسوس تھا، اس کو خدا حافظ کہے بغیر جانے کا دل نہیں چاہ رہا تھا لیکن مجبوری تھی۔ گاڑی کالج کی جانب دوڑنے لگی۔
کالج سے گاڑی میں نسیم ولا کے لوگ اور شہر کی جانب جانے والے سوار ہوگئے، جلال صاحب ہمارے برابر میں بیٹھ گئے۔ ہم چپ چاپ بیٹھے تھے، جلال صاحب بولے میاں اب کیا ہوا اب تو تم نسیم ولا میں رہنے جا رہے ہو، اب کس بات پر چپ لگی ہے۔ ہم نے گلزار سے بغیر ملے آنے کا بتایا، جلال صاحب بولے ارے بھائی نسیم ولا کون سا دور ہے اور تم نے روز کالج آنا ہی ہے کسی بھی دن جا کر گلزار سے مل لینا، اتنی سی بات پر کیوں موڈ خراب کر کے بیٹھے ہو۔ یہ تو ہم نے سوچا ہی نہیں تھا کہ گلزار کون سا بھاگا جا رہاہے اور ہم کونسا کسی دوسرے شہر جا رہے ہیں، گلزار جنادریہ میں ہے اور کالج بھی جنادریہ میں ہے ،ہم کل جا کر اس سے مل لیں گے، رہائش کی تبدیلی کا بھی بتا دیں گے اور اس کی میزبانی اور خلوص کا تہہ دل سے شکریہ بھی ادا کر دیں گے۔ ہم مطمئن ہو گئے تھے ،اس لیے جلال صاحب سے گپ شپ میں لگ گئے۔ پندرہ بیس منٹ میں گاڑی نسم ولا پہنچ گئی۔ ہم نے جلال صاحب کو خدا حافظ کہا، سوٹ کیس اٹھایا اور ولا میں داخل ہو گئے۔ یہاں ہمیں عبدالقدوس سے ملنا تھا جو یہاں کا انچارج تھا۔ ہم اس کا کمرہ تلاش کرتے ہوئے وہاں تک پہنچ گئے۔ عبدالقدوس چھوٹے قد،سانولی رنگت کے بے زار سے نظر آنے والے شخص تھے ان کا تعلق بنگلا دیش سے تھا۔ ہم نے بتایا کہ ہمیں یہاں شفٹ کر دیا گیا ہے، اس لیے انہیں ہماری رہائش کا انتظام کرنا ہے ،بولے ہاں فون آگیا تھا تم کو پاکستانی لوگوں کے ساتھ شفٹ کر رہا ہوں۔ ہم سمجھے جن سے ہم پہلے مل چکے ہیں ان ہی کے ساتھ رہنے کا انتظام کیا گیا ہوگا۔ عبدالقدوس نے ہمیں سامان اٹھا کر اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ ہم اس کے پیچھے چل پڑے، وہ دوسرے ولا میں پہلی منزل پر ایک کمرے کے دروازے پر جا کر رک گیا اور ہم سے کہا یہ کمرہ ہے ،تم ادھر رہے گا۔ یہ وہ کمرہ نہیں تھا جہاں ہمیں وہ تین پاکستانی ملے تھے ان کے کمرے تو پہلے ولا کی چھت پر تھے۔ ہم نے دروازے پر دستک دی کوئی جواب نہیں ملا ،دوسری بار ہم نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔۔۔ جاری ہے
٭٭