ادارہ ترقیات ڈی جی آصف اکرام نے عدالتی احکامات ہوا میں اڑا دیے
شیئر کریں
(رپورٹ جوہر مجید شاہ ) ادارہ ترقیات کراچی منفی شہرت کے حامل افسران کی تعیناتی نے ڈی جی کی نیک نیتی پر سوالات اٹھا دئے سابق کرپٹ نیب کے ہاتھوں گرفتار شدہ ڈی جی ناصر عباس جن پر مالی بیضابطگیوں / بدانتظامی قیمتی پلاٹوں کو اونے پونے ٹھکانے لگانے منظورِ نظر کھلاڑیوں کے زریعے قومی خزانے کو اربوں/کھربوں کا جھٹکا دینے جیسے سنگین نوعیت کے متعدد الزامات ہیں جن کا جن کا انھی سامنا ہئے انکے کے چہیتے معتمد خاص کھلاڑی فصیل بخآری اسوقت (ڈائریکٹر ریکوری) تھے یعنی لین/دین وصولیاں جتنی اہم فائلیں ہوتیں انکے دستخط کے بعد ہی ” مال کی بارش” ہوتی آج موصوف سکریٹری کے عہدے پر براجمان ہیں دوسری طرف گریڈ 18 کے او پی ایس زدہ اور جعلی بھرتی رضا قائم خانی دوہرے چارج کے حامل ڈائریکٹر لینڈ و ریکوری کی تعیناتی اعلی عدلیہ کے دوٹوک احکامات کی کھلی خلاف ورزی اور توھین عدالت بھی جسکے مرتکب یقینی طور پر ڈی جی آصف اکرام ہو رہیں ہیں ادھر ملنے والی اطلاعات کے مطابق ڈی جی آصف اکرام نے من پسند ٹیم کی سلیکشن کرتے ہوئے نہ صرف عدالتی احکامات سے انحراف کیا بلکہ ریاستی/ ادارتی قاعدے قوانین کے برخلاف اقدامات بھی اٹھائے جو قانون شکنی کے زمرے میں بھی آتا ہئے ڈی جی نے اپنے ریاستی عہدے کو یکسر غلط ناجائز استعمال کرتے ہوئے اختیارات سے بھی تجاوز کیا موصوف کے جاری اقدامات کے دوران ادارے کے تقریبا 19 گریڈ کے تمام افسران کو کھڈے لائن لگا دیا گیا ادھر انتہائی بااعتماد و باوثوق اندرونی ادارتی زرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق "تزئین و آرائش” کے نام پر لگ بھگ 50 لاکھ جمع ہوئے جس میں کئی راشیوں کو بھی مکمل آرائش کا مال و سامان میسر آیا اس ادارے کی آرائشی مہم میں پیش پیش آغا ابرار اور عابد زیدی نمایاں تھے واضح رہے ادارہ ترقیات کراچی سندھ حکومت کی جانب سے دی جانے والی گرانٹ لگ بھگ 20 کروڑ 30 لاکھ سے چلایا جاتا ہئے جس سے ریگولر /کنٹریکٹ / ملازمین کی تنخواہیں اور پینشنرز کی پینشنز بمشکل ادا ہوپاتی ہئے یاد رئے 4 ماہ قبل ادارے نے جو ریکوری کی مد میں رقم جمع کی وہ 11 کروڑ تھی جو اب اسکی آدھی ہوکر رہ گئی ادارے نے حال ہی میں 6 سو کنٹریکٹ ملازمین کو ادارے پر فاضل بوجھ کہہ کر فارغ کردیا 6 سو کنٹریکٹ ملازمین کو نکال دینے کے بعد بھی اخراجات کا رونا عقل و فہم سے باہر ہئے مختلف سیاسی سماجی مزہبی جماعتوں اور شخصیات نے سپریم کورٹ وزیر اعلیٰ سندھ گورنر سندھ وزیر بلدیات سمیت تمام تحقیقاتی اداروں سے اٹھائے گئے حلف اور اپنے فرائض منصبی کے مطابق سخت ترین قانونی و تادیبی کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔