سیاسی جماعتیں یا سیاسی مافیاز
شیئر کریں
سابق صدر آصف علی زرداری کی خود ساختہ جلا وطنی ختم ہوئی اُن کی وطن واپسی پر سوشل میڈیا کے دانشوروں کی حس مزاح پھڑکی ہوئی ہے ۔ ایسے تبصروں کا سلسلہ جاری ہے جس میں زرداری صاحب کے عمومی امیج کو اجاگر کر کے مزاح پیدا کیا گیا ہے ،مثلاً زرداری صاحب کی آمد کو مزار قائد میں حال ہی میں چائنا کی جانب سے نصب کیے گئے 22کروڑ روپے کے فانوس سے جوڑا جارہا ہے اور زرداری صاحب کی آمد پر اس فانوس کے حفاظتی اقدامات میں اضافے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، اسی طرح ایک ایسی پوسٹ بھی سوشل میڈیا پر زیر گردش ہے جس میں زرداری صاحب کی متوقع آمد پر ملک بھر میں شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عوام سے اپنی مدد آپ کے تحت اپنی املاک کی سیکیورٹی کا بندوبست کرنے کی اپیل کی گئی ہے ۔
عمومی تاثر یا امیج اکثر بلا وجہ نہیں ہوتا لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں کے سیاسی نظام میں نہ لیڈروں کا عمومی امیج خاطر خواہ اثر انداز ہوتا ہے اور نہ سیاسی جماعتوں کے بارے میں عمومی رائے ۔ الیکشن کے نتائج بتاتے ہیں کہ کامیابی اس کے حصے میں آئی جو زیادہ مال دار تھا ، جس کی چوہدراہٹ ، علاقائی اثر و رسوخ یا بد معاشی ، تھانوں اور سرکاری اداروں کے ساتھ تعلقات اچھے تھے اور وہ جس پارٹی سے تعلق رکھتا تھا وہ امریکا اور مغربی دنیا کے لیے قابل قبول تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں برسر اقتدار آنے والے ا س کی پرواہ نہیں کرتے کہ عوام ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں اپنی نیک نامی ان کے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی ان کی ساری توجہ اس امر پر ہوتی ہے کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ دولت کمائی جائے تا کہ آئندہ الیکشن لڑا جا سکے اور ایسے کونسے اقدامات کیے جائیں کہ جس کی وجہ سے مغربی دنیا کی آنکھوں کا تارا بنا جا سکے ، مندروں میں ہندووں کی مذہبی رسومات میں شرکت اور اقلیتی بل ٹائپ کے اقدامات اسی کوشش کا حصہ ہیں ۔
ملک کی صف اول کی سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کی ترجیحات نے سیاسی جماعتوں کو عوامی مسائل کے حل کے قابل نہیں چھوڑا اسی لیے عوام کے مسائل بڑھ رہے ہیں اور حالت روبہ زوال ہے ۔ عوام کی حالت سنوارنے کی دعویدار سیاسی جماعتیں عوام کو تو کیا ظلم و استحصال سے نجات دلاتیں بلکہ وہ خود استحصالی طاقت بن چکی ہیں ۔ روٹی ، کپڑا اور مکان ، معاشی ترقی ، عوام کی خوشحالی ، نفاذ اسلام یا قیام عدل وغیرہ یہ دعوے اور نعرے صرف زبانی جمع خرچ ہیں ۔ نظریات اور مقاصد صرف دکھاوے کے دانت ہیں ۔ اقتدار میں آنے کے بعد منشور اور وعدوں کو ایسے بھلا دیا جاتا ہے جیسا کہ ان کی کوئی حقیقت ہی نہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ جس طرح معاشرہ کردار سے عاری ہو رہا ہے یہی حال سیاسی جماعتوں کا ہے۔ بد کردار سیاسی جماعتیں جو سچائی ، ایفائے عہد اور عوام کی ہمدردی کے جذبات سے خالی ہو چکی ہیں۔ اقتدار اور اقتدار میں شرکت انکا مطمع نظر بن چکا ہے اور اقتدار برائے خدمت نہیں، اقتدار کو محض ذاتی یا زیادہ سے زیادہ جماعتی اور گروہی مفادات کے حصول کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے اور مکروہ انداز فکر جماعتوں میں اس طرح راسخ ہو چکا ہے کہ اقتدار میں آنے والی پارٹیاں آخری موقع سمجھ کر ملک کو لوٹتی ہیں ۔ انکے رہنمائوں سے لے کر عام ورکر تک اقتدار میں سے اپنا حصہ بقدر جثہ پاتا ہے ۔ ایک پارٹی اگر تین سال بھی مکمل اقتدار میں یا شراکت اقتدار میں گزار لیتی ہے تو ہر سطح پر اتنی کمائی کر لی جاتی ہے کہ آئندہ پانچ سالوں تک اس کے کارکن اور رہنما سیاست کر سکیں یعنی اقتدار سے صرف اپنی جماعتوں سے وابستہ افراد کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے اور افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ فائدہ میرٹ اور عوامی مفادات کو نظر انداز کر کے پہنچایا جا تا ہے۔ اس وقت حالت یہ ہوچکی ہے کہ عوام کے درد میں خود کو گھلانے کے دعوے کرنے والے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے صف اول کے رہنمائوں میں سے کوئی بھی کروڑ پتی سے کم نہیں ۔ متحدہ قومی موومنٹ جیسی جماعتیں جو 98 فیصد عوام کے مفادات کے لیے کھڑی ہونے کی دعویدار تھیں اور جاگیر داری اور سرمایہ داری کو زبانی طور پر چیلنج کرتی رہی ہیں خوداس کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ اب ان کا کوئی رہنما پلاٹوں اور جاگیروں کے بغیر نہیں رہا ۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں کی عوام سے بے وفائی کی حالت یہ ہے کہ اگر ان کے تنظیمی اور گروہی مفادات کو نقصان پہنچایا جائے تو تمام مصلحتوں سے بالا تر ہو کر عوام کو میدان میں نکال لاتے ہیں لیکن جہاں خالص عوام کے حقوق اور عوام کے مفادات کی بات آتی ہے تو سمجھوتا کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنی سیاسی ،جماعتوں اتنے سیاسی لیڈروں اور ہزاروں سیاسی کارکنوں کے ہوتے ہوئے عوام بے یار و مددگار ہیں۔ سرکاری اداروں میں ، ہسپتالوں میں تعلیمی اداروں میں عوام کی کوئی عزت اور شنوائی نہیں۔ پولیس اور سیکیورٹی اہلکاروں اور سرکاری افسروں کی سرکشی کا عوام کو تنہا سامنا کرنا پڑتا ہے،پولیس موبائل اگر بلا وجہ روک کر شہریوں کو ہراساں کرے اور جیب خالی کرائے تو شہری منہ بسورتا ہوا گھر آجاتا ہے، اسے پتا ہے کہ اللہ کے سوا اس کا کوئی پُر سان حال نہیں ۔ چیزیں مہنگی ہوجائیں، صرف دل میں کڑھتا ہے ،ناقص اشیاء ، جعلی دوائیوں اور مضر صحت چیزوں تک سے سیاسی جماعتیں عوام کو تحفظ نہیں دے سکیں ۔ ان جماعتوں کا فیض صرف ان کے حلقہ اثر تک رہتا ہے، زیادہ سے زیادہ ان کے کارکنان مستفید ہوتے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مفادات کی اسیر سیاسی و مذہبی جماعتیں اور ان کی ویژن لیس قیادتیں ملک اور عوام کو خوشحال کر سکتی ہیں؟ ظاہر ہے جواب مایوس کن ہے ۔ اس سے بڑی مایوسی کی بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے یہ طاقتور مافیاز کسی ایسی سیاسی قوت کو برداشت نہیں کر تے جو ان کے سامنے عوام کی خدمت اور وعدوں کی پاسداری کا معیار پیش کر سکے۔ سیاست کے اس جنگل میں یا تو طاقتور ہڑپ کر جائینگے، کچل ڈالنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرینگے یا اپنی شرائط پر سیاست کا موقع دینگے گویا کہ عوام کی خدمت کے جذبات نکالنے کے بعد نظریات اور مقاصد سے انحراف کی صورت میں آپ سیاست کر سکیں گے اور ظاہر ہے ایسے سیاسی اثرو رسوخ سے عوام کو کوئی فیض نہیں پہنچ سکے گا ۔
محترم زرداری صاحب کی وطن واپسی سے تشویش میں مبتلا ہونے والے عوام کے لیے کیا وطن عزیز میں پہلے سے موجود سیاسی قیادت تسلی کا باعث ہے ؟
٭٭