میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سندھ حکومت کا نالوں پر تجاوزات کیخلاف امتیازی آپریشن

سندھ حکومت کا نالوں پر تجاوزات کیخلاف امتیازی آپریشن

ویب ڈیسک
جمعرات, ۳ ستمبر ۲۰۲۰

شیئر کریں

(رپورٹ۔اسلم شاہ)کراچی میں نالوں پر قائم تجاوزات کے خلاف سندھ حکومت کے آپریشن پر سوالا ت اُٹھنے لگے ہیں۔ بعض حلقوں کی جانب سے اس آپریشن کو کراچی میں امتیازی کارروائی بھی قرار دیا جارہا ہے۔ جبکہ سندھ حکومت نالوں پر قائم تمام تجاوزات کے خاتمے کے بجائے بارشوں سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کو چند غریب بستیوں کے خاتمے کے لیے استعمال کرنا چاہ رہی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سندھ ہاؤسنگ اینڈٹاؤن پلاننگ اور محکمہ بلدیات کے چارمنزلہ دفاتر کراچی میں ایک نالے پر قائم ناجائز تجاوزات میں شامل ہیں۔ حال ہی میں ورلڈبینک سے اربوں روپے امدادملنے والے منصوبے کے تمام مرکزی دفاتر بھی اسی نالے پر قائم ہیں۔ ورلڈ بینک کاخصوصی یونٹ ناجائز تجاوزات پر کام کررہا ہے ، یہ خصوصی سیل( کلک اور سوئپ ) پروجیکٹ ڈائریکٹر بیس گریڈ کے افسر زبیر چنا کے زیر نگران ہے۔ حالیہ بارشوں کے دوران تین مرتبہ سندھ سیکریٹریٹ اور تغلق ہاوس میں واقع امن وامان کو کنٹرول کرنے والے ہوم ڈیپارٹمنٹ کے دفاتر گندے پانی کا جوہڑ بن گئے تھے، دفاتر کے کمروں اور راہداری و لفٹ سمیت دیگر اطراف سے گندے پانی داخل ہونے پرقیمتی اوراہم ریکارڈ فائلیں برباد ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔ نالے پر قائم یہ واحدعمارت نہیں، سندھ اسمبلی، صوبائی محتسب اعلیٰ کا مرکزی دفتر، سپریم کورٹ کی پارکنگ،پاکستان ائیر فورس کی نگرانی میں چلنے والے شاہین کمپلیکس کی پارکنگ،آرٹس کونسل کراچی، تاج کمپلیکس،کتابوں کی مرکزی مارکیٹ اردو بازار،خواتین کالج، انگریزی اخبار کا مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ پارکنگ ایریا،لاہور کے ایک اردو اخبار، پورٹ ٹرسٹ، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، ریلو ے سٹی اسٹیشن، بوٹ بیسن، سول ایوی ایشن، سمیت دیگر تجارتی بنیادوں پر چلنے والی دکانیں اور رہائش گاہیں بھی نالے پر تاحال قائم ہیں ،سپریم کورٹ اس حوالے سے متعدد بار کارروائی کی ہدایت کرچکی ہے ۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ نالے پر قائم تجاوزات مکمل طور پر گرادیں گے ۔ چاہے اس میں سرکاری عمارتیں شامل ہو یا کمرشل عمارتیں،لیکن سندھ میں نالے پر تجاوزات کے خلاف کارروائی میں بھی تفریق پیدا کردی گئی ہے۔سندھ حکومت نے آپریشن کا آغاز پوش علاقہ کے بجائے غریب آباد ی نارتھ کراچی کے زیرو پوائنٹ سے شروع کیا ۔ کلفٹن کی قیمتی اراضی نہر خیام کے نالے پر بااثر شخصیات کے گھر گرانے کا تاحال فیصلے نہ ہوسکا۔ فائیواسٹار ہوٹل کے مالک ہاشوانی کا گھر بھی نالے پر قائم ہے۔ اسی طرح کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے باتھ آئی لینڈ کے 74بنگلوں کے الاٹیز کو نالے الاٹ کردیے تھے، ان کے الاٹمنٹ بھی منسوخ کرنے کا کوئی حکم نامہ جاری نہیں ہوسکا ،کئی صنعتی یونٹس نالے پر قائم ہیں ، لیاری اور ملیر ندی پر حکومت سندھ کے بورڈ آف ریونیو، گوٹھ آباد، سند ھ کچی آبادی نے الاٹمنٹ اور لیز جاری کررکھی ہے۔ کئی بلڈر کے نالوں کی زمین پر قائم کمرشل پلازوں کی غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی کب شروع ہوگی،لیاری ندی میں ایس تھری منصوبہ پر ناجائز قابضین کا تاحال قبضہ ہے ۔سرکاری رپورٹ کے مطابق نہر خیام کلفٹن ، فیرئیر تا باتھ آئی لینڈنالے کی سب قیمتی اراضی پر سرکاری اور نجی اداروں کو الاٹ اور لیز دے کر ناجائز تجاوزات قائم کی گئی ہے۔ سندھ حکومت کے دفاتر پر بھی کارروائی کا حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ جبکہ زیری ہاؤس نالے ،گارڈن نالے ،شیرشاہ نالہ،پہلوان گوٹھ نالہ، عظیم پورہ نالہ، گارڈن ٹاؤن نالہ،ہارون آباد،حضرت کالونی نالہ، اورنگی نالے سے پاک کالونی گلبہار تک، مہران سٹی نالا، چاکور نالا ،سونگل نالا، سٹی نالا، کورنگی نالا، نارتھ کراچی، نارتھ ناظم آباد نالے پر بھی تجاوزات کی بھرمار ہے۔ ان نالوں پر کچی آبادی اور گوٹھ آبادی کی سنداور لیز یں دے رکھی ہیں۔ واضح رہے کہ کراچی کے 38برساتی نالوں کی صفائی اور کچرے کو تلف کرنے پر سنگین بے ضابطگیاں ہوئی ہیں ۔ نالے صاف کرنے کے بجائے تمام نالوں کے صرف 87چوکنگ پوائنٹ کی صفائی کی گئی جبکہ محکمہ بلدیات کے مطابق نالوں پر صفائی اور کچراتلف کرنے پر مجموعی طور پر ساڑھے چار ارب روپے خرچ کیے گئے۔ حالیہ بارشوں میں شہر کراچی ڈیفنس سے سرجانی، اورنگی ٹاون سے کورنگی،کیماڑی سے گڈاپ ٹاؤن تک ڈوب گیا۔ دلچسپ امریہ ہے کہ سندھ حکومت کے کراچی میں رویہ اور سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ منتخب بلدیاتی اداروں کے چار سالوں میں پہلی بار 436ملین(2016-17ئ) برساتی نالوں کی صفائی کی مد میں ادائیگی کی جبکہ واٹر کمیشن کی ہدایت پردوسری مرتبہ 500ملین روپے ( (2018-19ئ) میں نالے کی صفائی پر جاری کیے گئے۔کراچی کے شہریوں میں اس وقت اضطراب کی ایک لہر دوڑ گئی ہے کہ ندی نالوں پرتجاوزات کیخلاف بڑے آپریشن کے فیصلے میں بھی سندھ حکومت نے تفریق پیدا کردی ہے۔ سندھ حکومت نے امیر اور بااثر علاقوں کے بجائے تمام تر طاقت کا مظاہرہ غریب آبادی تک محدود کردیاہے ،جس کے لیے متعلقہ تمام اداروں کو تیاررہنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ آپریشن میں پاک فوج اور رینجرز کی ٹیمیں بھی شامل کی جارہی ہے، جس سے کراچی کے عوام میں دانستہ ان اداروں کے خلاف جذبات کو بھڑکایا جائے گا۔نئے آپریشن میں کراچی کے 12مقامات پر قائم غریب آبادیوں کچی آبادیوں اور ندی نالوںپر آبادکچے پکے مکانات کو گرایا جائے گا۔اینٹی انکروچمنٹ کی کارروائیوں کے لیے سندھ بھر سے پولیس کی اضافی نفری کراچی پہنچ گئی ہے ۔ تجاوزات کے خلاف آپریشن بدھ کی صبح آٹھ بجے بیک وقت تین مقامات پر شروع کیا گیا ہے۔ سابق منیجنگ ڈائریکٹر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ غلام عارف نے نالوں اور دیگر سرکاری و نجی اراضی پر قبضہ اورحالیہ بارشوں کے دوران شہر ڈبونے کے ذمہ داروں کے خلاف فوری جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ان کا کہنا تھا 12سالوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے کراچی شہرکو جدید اورترقی یافتہ بنانے کے بجائے کراچی کو کچی آبادی، گوٹھ آباد، کچرا کنڈی اور گندے نالے میں تبدیل کردیا ہے۔ زمین پر قبضہ،نالے پر قبضہ، سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر قبضہ،پارکوں، کھیل کے میدانوں پر قبضہ کی تحقیقات نہیں ہوئی اورنہ ہی کراچی میں قبضہ مافیا میں ملوث شخصیات بے نقاب ہوسکیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے اوربرسوں سے اس شہر کو لوٹنے والوں اور قبضہ مافیا کو کیفرکردار تک پہنچ کر انہیں قرار واقعی سز ا دی جائے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں