عدل و انصاف اورمنصب قاضی
شیئر کریں
کتاب الاوائل میں علامہ ابو ہلال عسکری لکھتے ہیں کہ تاریخ اسلام میں بنوامیہ کے عہد میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کے پوتے بلال بن ابی بردۃ بن ابی موسیٰ اشعری نے بطور قاضی فیصلے کے لیے رشوت وصول کرکے اپنا نام سب سے پہلے راشی قاضی کے طور پر تحریر کروایا۔ اسی بنو امیہ کے عہد میں جہاں بلال بن ابی بردۃ جیسے قاضی موجود تھے وہاں جمیع نامی قاضی کے فیصلے اور اس پر عمل درآمد نے تاریخ اسلام کے باب قضاۃ کے ماتھے پر جھومر سجا دیا۔قاضی جمیع کا بے لاگ اور بے باک فیصلہ جو صرف دو منٹ کی عدالت کے نتیجے میںصادر ہوا ،دنیامیں اپنے ایسے انمٹ نقوش چھوڑ گیا جس کی چھاپ شاید قیامت تک اپنی نظیر کی منتظر رہے گی۔
اس دو منٹ کی عدالت کا واقعہ93 ھ میں ولید بن عبدالمالک کے دور میں فتح سمر قند کے موقع پر پیش آیا جب اسلامی لشکر نے قتیبہ بن مسلم کی سربراہی میں سمر قند فتح کیا لیکن لشکر کشی کے اسلامی اصولوں کو پس پشت ڈالا دیا ۔جس پر سمرقند کے ایک پادری نے حاکم مدینہ عمر بن عبدالعزیز کے نام ایک شکایتی خط لکھا ۔شیخ علی طنطادی اپنی کتاب قصص من التاریخ میں لکھتے ہیں کہ جب قاصد وہ خط لے کر حاکم مدینہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت وہ اپنے کچے گھر کی مٹی کے گارے سے لپائی میں مصروف تھے۔ قاصد جو لشکر قتیبہ بن مسلم کا جاہ و جلال اور شان و شوکت دیکھ چکا تھا۔ عمر بن عبدالعزیز کی سادگی اور کسمپرسی کا عالم دیکھ کر تذبذب اور مایوسی میں مبتلا ہوگیا۔ عمر بن عبدالعزیز کے مخاطب ہونے پر اس نے اپنا سکوت توڑتے ہوئے خط پیش کیا جسے پڑھنے کے بعد حاکم مدینہ نے اسی کی پشت پر ایک مختصر حکم تحریرکرکے مہر لگادی۔ حکم تھا کہ قاضی کا تقرر کرو اور پادری کی شکایت دور کرو۔ حکم نامہ موصول ہونے پر قتیبہ بن مسلم نے جمیع نامی چوبدار کو قاضی مقرر کرکے خود قاضی کے سامنے پادری کے ساتھ بیٹھ گیا۔ سپہ سالار کے رویہ نے فاتح اور مفتوح کے فرق کو مٹا دیا جبکہ قاضی کے غیر جانبدارانہ رویے نے سالار اور چوبدار کے تعلق کو بالائے طاق رکھ دیا۔ قاضی نے رعب دار آواز میں سپہ سالار کو اس کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے پادری کے الزام پر جواب طلب کیا۔ قتیبہ نے انتہائی صداقت کے ساتھ الزام کو قبول کیا اور عرض کی کہ یہ بات درست ہے حملے کی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی اور نہ ہی اسلام کی دعوت اور سوچ و بچارکی مہلت دی گئی لیکن قاضی صاحب جنگ تو ہوتی ہی فریب اور دھوکے کے ساتھ۔ قاضی نے سپہ سالار کی دلیل کو رد کردیا اور غلطی کے اعتراف پر دیگر گواہوں اور دلیلوں کا انتظار کیے بغیر حکم صادر کیا کہ تمام مسلمان فوجی اور ان کے عہدہ داران بمعہ اپنے اہل و عیال، اہل سمر قند کا تمام مال و اسباب چھوڑ کر سمر قند کی حدود سے باہر چلے جائیں اور اگر دوبارہ سمر قند پر حملہ کرنا ہو تو پیشگی اطلاع اور دعوت اسلام کے بعد تین دن سوچ و بچار کی مہلت دیے بغیر شہر پر حملہ نہ کیا جائے۔ پادری اور دیگر اہلیان سمر قند اس چند لمحوں کی عدالت کا فیصلہ سن کر دم بخود رہ گئے اور کچھ چہ مگوئیاں کرنے لگے کہ یہ سب کچھ صرف لفظی ہے حقیقت میں کوئی بھی فاتح سمر قند جیسے سرسبز و شاداب اور مالا مال خطہ کو یوں چھوڑ کے جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ لیکن اگلے ہی لمحے ان کا یہ گمان بھی باطل ہوگیا جب قاضی کے واپس چوبدار بننے سے قبل ہی سپہ سالار نے عدلیہ کے فیصلے کی فوری تعمیل کا حکم صادر کیا۔ اسی دن سورج غروب ہونے سے قبل ہی عدالت کے فیصلے کی تعمیل ہوگئی اور اسلامی لشکر سمرقند کی حدود سے باہر نکل گیا۔
سمر قند کے شہریوں کو اب تک یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ عظیم لشکر جس نے ایران، خراسان، ہندوستان، وسطی ایشیا اور چین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھاوہ سمر قند کو یوں ایک قاضی کے فیصلے پر چھوڑ کے جاچکا ہے۔ سمر قندیوں کاسکوت اس وقت ٹوٹا جب پادریوں نے بے اختیار کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے لشکر کے پیچھے دوڑ لگادی پھر اہلیان سمرقند کا ایک سیلاب اسلام کی حقانیت کی گواہی دیتا ہوا لشکر کو واپس شہر میں لے آیا۔ جس کے بعد ایک عرصہ تک سمرقند اسلامی تعلیمات کا گہوارہ رہا۔ قاضی جمیع کے ایک فیصلے نے وہ کردکھایا جو شاید قتیبہ بن مسلم کا لشکر کبھی نہ کرپاتا۔یہاں قاضی کا انتخاب اور قاضی کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اسلاف میں سوائے حضرت علیؓ کے ایک خط کے جو انہوں نے حاکم مصر مالک بن حارث الاشتر کے نام تحریر کیا، کوئی تحریری دستاویز نہیں ہے جو قاضی مقرر کرنے کے طریقہ کار اور اوصاف کی وضاحت کرے۔
درشہر علم ؓ کے درج بالا خط کے مندرجہ ذیل متعلقہ حصے کے متن کو پاکستان کی عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ آف پاکستان) نے اپنے تاریخ ساز فیصلہ PLD1999sc504 لیاقت حسین بنام وفاق پاکستان میں بطور رہنما اصول کے درج کیا۔
’’پھرلوگوں میں فیصلے کرنے کے لیے اس شخص کا انتخاب کرو جو تمہارے دل سے، ساری رعیت سے افضل ہو، جو مسائل (کی کثرت) سے تنگ نہ آجائے جھگڑے کے فریقین (کی باتوں) سے برافروختہ نہ ہوجائے۔ اپنی لغزشوں پر اصرار نہ کرے اور جب حق اس کی سمجھ میں آجائے تو حق کی طرف رجوع کرنے میں تنگی محسوس نہ کرے جس کا دل (بلندی سے) طمع کی طرف جھک جھک کر نہ جھانکے اور معاملہ کی انتہا کو پہنچنے سے پہلے معمولی غورو فکر پر اکتفا نہ کرے۔ جو (فیصلہ کرتے وقت) شبہات کے موقعوں پر سب سے زیادہ ٹھہر جانے والا ہو (کہ مزید غور و فکر کرے) اور دلائل پر سب سے زیادہ اعتماد کرنے والا ہو۔ فریقین دوبارہ بحث کرنا چاہیں تو ملال اور اکتاہٹ کا اظہار بہت ہی کم کرے۔ حقائق میں دیر نہ کرے۔ اپنی حد سے زیادہ تعریف سن کر مغرور نہ ہوجائے اور خوشامد کی باتوں میں آکر کسی ایک جانب مائل نہ ہوجائے اور ایسے لوگ بہت ہی کم (ملتے) ہیں۔ پھر اس کے کیے ہوئے فیصلوں کی اکثر جانچ پڑتال کرتے رہو اور اسے اتنا کھلا معاوضہ دو جو اس کی معاشی نگر نہ ہونا پڑے اور اپنے یہاں اسے وہ منزلت عطا کرو کہ تمہارے کسی اور مقرب خاص کو وہاں پہنچنے کا حوصلہ نہ ہو تاکہ اس طرح وہ تمہارے مصاحبوں کی ضرر رساں ریشہ دوانیوں سے محفوظ رہے لہٰذا اس طرز عمل میں بالغ نظری سے کام لو ۔کیونکہ یہ دین اشرار کے ہاتھوں میں اس طرح اسیر رہ چکا ہے کہ اس پر خواہشات نفسانی کی فرماں روائی تھی اور دین کے نام پر دنیا کمائی جارہی تھی‘‘۔
حضرت علیؓ نے جس انداز میں قاضی یا جج کے عہدے پر تعینات ہونے والے افراد کی اہلیت بیان کی ہے وہ قابل ستائش ہونے کے ساتھ ساتھ ہر دور میں قاضی کے منصب کے لیے موزوں ترین فرد کی کسوٹی ہے۔ ہر مدعی برحق کی خواہش ہوگی کہ وہ اس خط میں درج صفات کے حامل قاضی سے ہی اپنے مقدمہ کا فیصلہ کروائے۔ خط مذکورہ میں قاضی یا جج کے لیے درج ذیل چودہ (14 ) صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔
-1 حاکم وقت کی نظر میں قاضی بننے کا اہل ہو۔
-2 تمام رعایا میں افضل ہو۔
-3 مسائل میں اُلجھنے والا نہ ہو۔
-4 فریقین کے جھگڑوں پر غصہ نہ کرے یعنی بہت دھیمے لہجے اور ٹھنڈے دماغ کا حامل ہو۔
-5 اپنی غلطی کو تسلیم کرنے والا ہو اور غلطی کا احساس ہونے پر فوراً اس سے رجوع کرے نہ کہ غلطی پر ڈٹ جانے والا نہ ہو۔
-6 لالچی نہ ہو۔
-7 معاملات کی تحقیقات میں سستی یا کاہلی کا شکار نہ ہو۔
-8 شبہات کے موقع پر جلد بازی سے کام لینے والا نہ ہو۔
-9 دلائل حق کو قبول کرنے والا ہو۔
-10 فریقین کے بحث و مباحثہ سے اُکتانے والا نہ ہو۔
-11 تحقیقات میں صبر و تحمل کا مالک ہو۔
-12 بات واضح ہونے پر قطعی فیصلہ کرنے میں تکلف نہ کرتا ہو۔
-13 خوشامد پسند اور تعریف پر مغرور ہونے والا نہ ہو۔
-14 جانبداری اختیار کرنے والا نہ ہو۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے قضاۃ کے معاملہ میں جہاں قاضی کی اہلیت کا ذکر کیا وہاں حاکم وقت کی ذمہ داریوں کا بھی تعین کیا۔
(جاری ہے)