میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سقوط ڈھاکا کے اسباب....قسط 4

سقوط ڈھاکا کے اسباب....قسط 4

منتظم
منگل, ۲۰ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

ishtiaq-ahmed-khan

اشتیاق احمد خان
اب تک اقساط میں ہم نے 1906 سے 1947 تک کے حالات کا اجمالی جائزہ لیا ہے اور ہم ذرا اب ماضی میںچلتے ہیں۔ہندوستان پر محمود غزنوی کے 17 تاریخی حملے اور آخری حملے میں ہندوستان کا سب سے بڑا فوجی اڈہ اور مندر کا فتح ہونا ایک ایسا عجوبہ تھا کہ جس نے ہندوستان کے ہندوو¿ں کو لرزا کر رکھ دیا۔یہ سومنات کا شہر اور اس کا تاریخی منظر تھا۔اسی طرح خاندان غلامان کی حکومت رہی ،تغلق دور رہا لیکن جس دور میں ہندوستان کو سینکڑوں ریاستوں اور رجواڑوں سے ایک ملک میں تبدیل کیا وہ مغل دور ہے۔ مغلوں کے دور کا آغاز ظہیر الدین بابر سے ہوتا ہے۔ ظہیرالدین بابرغزنی سے دہلی پر حملہ آور ہوا اور فتوحات کا سلسلہ بڑھتے بڑھتے بنگال تک پہنچ گیا۔جلال الدین اکبر ،نورالدین جہانگیر، اورنگزیب عالم گیر سے ہوتا ہوا بہادر شاہ ظفر تک پہنچتا ہے اور پھر غیروں سے زیادہ اپنوں کا شرمناک کردار ۔۔۔۔یہ تاریخ کے وہ تلخ حالات ہیں جن کا جائزہ لیے بغیر ہم سقوط ڈھاکا کے اسباب تک نہیں پہنچ سکتے ۔اس سانحہ کے 45 سال کے بعد بھی ذمہ داروں کے عدم تعین اور ”ادھر تم ادھر ہم“ کا نعرہ لگانے والوں کو ملک کے ہیرو کا درجہ دے دیا گیا۔
ظہیر الدین بابر کی آمد سے قبل ہندوستان سینکڑوں ریاستوں اور رجواڑوں پر مشتمل تھا ۔ہر دو چار مربع میل کے رقبہ پر کسی نہ کسی راجہ کی حکومت قائم تھی، جو بڑے رقبہ کا مالک ہوتا وہ مہاراجہ کہلاتا۔ ہندوستان کی یہ تقسیم 5 ہزار سال کے دوران ہوئی تھی جب ہر راجہ کی اولادوں اور ان کی اولادوں نے اپنے رجواڑے قائم کیے تھے۔ یوں ہندوستان پر یلغار غیرملکیوں کے لیے کوئی مسئلہ نہ تھا کہ ہر راجہ اپنے رجواڑے میں اضافہ اور مہاراجہ بننے کے شوق میں ان حملہ آوروں کا مدد گار بننا چاہتا تھا۔ہندوستان ایک ملک تھا لیکن ہندو مذہب کی ذات پات کی تقسیم نے اسے بکھیر کر رکھ دیا تھا یوں اس کا دفاع ممکن نہیں تھا ۔
تقریباً ایک ہزار سال قبل مغل بطور فاتح ہندوستان میں داخل ہوئے تو انہوں نے رجواڑوں کو تو برقرار رکھا لیکن ہندوستان کو ایک وحدت کی شکل دی، اس وقت تک کاغذی کرنسی کا آغاز نہیں ہوا تھا اور دھاتی سکے تھے، جس سے کاروبار چلتا تھا۔ مغلوں کی آمد سے قبل ہندوستان کے راجہ مہاراجوں کو عوام کی سہولت کا کوئی خیال نہیں تھا ،ان کا مقصد ایک ہی ہوتا تھا کہ ان کا خزانہ بھرتا رہے ،عوام کو دینے کے بجائے نذرانہ وصول کیے جاتے تھے۔ مغلوں کے ہندوستان پر غالب آنے کے بعد بھی یہ سلسلہ تو چلتا رہا لیکن عوام کی سہولت کا بھی اہتمام کیا جانے لگا ۔یوں ہندوستان خوشحالی کی جانب گامزن ہوگیا۔ اگرچہ مغلوں کی آمد سے قبل ہندوستان کے جغرافیہ کا واضح نقشہ تو نہیں ملتا کہ کون کون سے علاقہ اس میں شامل تھے لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ درہ خیبر سے لیکر راج کماری تک بنگال اورآسام ہی نہیں نیپال ،بھوٹان اور تھائی لینڈ بھی ہندوستان کا حصہ تھے۔ نیپال بھوٹان اگرچہ اب بظاہر آزاد ملک ہے لیکن ان کی حیثیت عملاً ہندوستان کی ایک کالونی سے زیادہ نہیں ۔بھارت کی موجودہ انتہا پسند حکومت ہندو توا کے نام پر اسی ہندوستان کی بحالی چاہتی ہے جو 5 ہزار سال قبل موجود تھا اور چانکیہ سیاست کے پیروکار منافقت بھری اس سیاسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔
مغل حکمرانوں نے ہندوستان پر تقریباً 8 سو سال حکومت کی جس کے ابتدائی دور میں ایک مختصر وفقہ آیا تھا، جب شیر شاہ سوری نے مغل بادشاہ کو شکست سے دو چار کرتے ہوئے ایران فرار ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ لیکن چند سال ہی میں ایرانی حکومت کے تعاون سے مغل بادشاہ نے سوری کو شکست دے کر ہندوستان پر مغل بادشاہت بحال کر دی اور پھر تقریباً8 سو سال تک حکمران رہے۔ مغل بادشاہوں نے وہ طرز اختیار نہیں کیا جو عموماً فاتح اختیار کرتے ہیں اور جس کاثبوت انگریزوں کے دور میں اینگلو انڈین نسل کا وجود میں آنا ہے اور بڑی تعداد میں ہندوستان کے پس ماندہ طبقہ کو بہتر زندگی کے لالچ میں عیسائی بنانا ہے۔ آج کے دور میں پاکستان ،ہندوستان اور بنگلا دیش میں جو مسیح پائے جاتے ہیں یہ وہ عیسائی ہیں جو انگریزوں کے دور میں شودر اور ہندوو¿ں کی کم تر ذاتوں سے عیسائی بنے یا بنائے گئے۔ اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے بس ذرا انداز بدل گیا ہے، اب یہ کام انسانی حقوق کے نام پر ہو رہا ہے جس کا تفصیلی جائزہ ان شاءاللہ اس سلسلہ کے خاتمہ پر لیا جائے گا۔مغل حکمرانوں کا دور ہندوستان کا سنہری دور تھا۔ اس دور میں انسانیت کا جس قدر احترام تھا اس کا آج کے ہندوستان میں تصور بھی محال ہے۔ کسی کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا، کسی کو اس کے مذہب کی بنیاد پر بے روزگار نہیں کیا گیا، ہر شخص کو اس کی حیثیت اور قابلیت کے مطابق مراتب سے نوازا گیا۔ جلال الدین اکبر نے تو انتہا کر دی کہ اس کی ملکہ ایک ہندو عورت جودھا بائی تھی جو آخری دم تک اپنے دھرم پر قائم رہی اور اس کی آخری رسومات بھی ہندوانہ انداز ہی میں ادا کی گئی۔ جودھا بائی کے بطن سے پیدا ہونے والی اولاد نے باپ کامذہب اختیار کیا، جلال الدین اکبر نے ہندوستان میں تمام مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے دینِ الہی کی بنیاد رکھی، موجودہ سیکولر ازم اس دین الہی کا ہی چربہ ہے ۔اس 8 سو سالہ دور میں جبری تبدیلی مذہب کا ایک بھی واقعہ تاریخ میں نہیں ملتا۔ اگر اس دور میں جیسا کہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ہندوستان کے مقامی لوگوں کو زبردستی مسلمان بنایا گیا درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر آج ہندوستان میں ہندوو¿ں کی تعداد اتنی بھی نہیں ہوتی جتنی تعداد میں وہاں آج بدھ مت کو ماننے والے موجود ہیں۔ ہاں یہ درست ہے کہ مغل حکمرانوں کی اکثریت دور اندیش نہیں مصلحت کوش تھی اور ان مشاغل میں مشغول ہوگئے تھے جو کارِ حکومت چلانے کے لیے زہر قاتل کا درجہ رکھتے ہیں ۔
18 ویں صدی کے اوئل میں جب انگریزوں نے ہندوستان میں قدم رکھے تو اس وقت تک دہلی کی سرکار موجود تو تھی لیکن ملک پر اس کی گرفت کمزور ہو چکی تھی ۔جن راجوں مہاراجوں کو مغلوں نے نوازا تھا جن کی جاگیریں ضبط نہیں کی تھیں انہوں نے پر پرزے نکالیں شروع کر دیے تھے اور انگریزوں کے مدد گار بننا شروع ہو گئے تھے۔ مغل بادشاہوں نے ان راجہ مہاراجوں کو اس شرط پر اپنے راجواڑوں میں اپنی حکومت برقرار رکھنے کا اختیار دیا تھا کہ وہ حکومت دہلی سے مخلص اور وفادار رہینگے لیکن انہوں نے ڈھکے چھپے اپنے عہد سے منحرف ہونا شروع کر دیا تھا۔ جن راجہ مہاراجوں کے پاس بڑے رجواڑے تھے اور مناسب تعداد میں فوجی موجود تھے انہوں نے کھلم کھلا بغاوت کا آغاز کر دیا تھا ،شورش بڑھتی رہی راجہ مہاراجہ خود سر ہوتے چلے گئے اور دہلی سرکار کی معاملات پر گرفت کمزور سے کمزور ہوتی چلی گئی تھی۔ (جاری ہے)
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں