آباد ،کنٹونمنٹ بورڈ کے درمیان معاہدہ کراچی کے لیے خطرناک
شیئر کریں
(رپورٹ :اسلم شاہ)سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود کراچی کے چھ کنٹوٹمنٹ بورڈ زمیں غیر قانونی تعمیرات جاری ہے ،اس ضمن میں ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز ( آباد) اور کنٹوٹمنٹ بورڈ ز کے مابین تعمیرات اورہائی رائز عمارتوں کی تعمیرات کا ایک معاہدہ کیا گیا ہے ۔ا س سلسلے میں دلچسپ امر یہ ہے کہ کنٹوٹمنٹ بورڈ زکے پاس تاحال زمین موجود نہیں تو تعمیرات کہاں ہوگی اور موجود عمارتوں میں پورشن ہائی رائز کی تعمیرات کی اگر منظوری بھی دی جائے تو یہ غیر قانونی عمل ہوگا، کلفٹن، فیصل، کراچی، کورنگی اور ملیرکنٹوٹمنٹ بورڈز میں شہری علاقوں میں غیر قانونی فلور اور پورشنکے علاوہ بغیر نقشہ کی تعمیرات عروج پر ہے۔ کچی آبادی میں دس دس منزلہ عمارتیں بن چکی ہیں ، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے دسمبر 2018ء اور2019 میں دو حکمنامے جاری کیے تھے، کلفٹن کنٹوٹمنٹ بورڈ کی حدود میں شامل پنجاب کالونی، دہلی کالونی پی این ٹی کالونی،اپر گزری،لوئر گزری،ٹکری کالونی،میس کالونی،ریلوے کالونی،قیوم آبادسمیت دیگر پلان آبادی میں سنگل فلور سے اوپر تعمیرات کو گرانے کا حکم دیا تھا،اس حوالے سے تعمیرات پر پابندی کے باوجود غیر قانونی فلور اور پورشن سمیت دیگر تجارتی حیثیت کی تبدیلی کا نوٹس لیتے ہوئے غیرقانونی تعمیرات فوری گرانے کا حکمنامہ جاری کیا تھا لیکن کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ انتظامیہ نے غیر قانونی تعمیرات کے خلاف آپریشن کے بجائے مزید غیر قانونی تعمیرات کے لیے آباد کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے اس دوران میں تعمیرات پر پابندی تو الٹی تعمیراتی سرگرمیاں کورنا وائرس کے لاک ڈاؤن کے باوجود جاری رکھی گئی ہے۔ کلفٹن کے بلاک 6,7,8,9کی رہائشی اسکیم پر بھی قبضہ برقرار ہے ،عدالتی ریکارڈ کے مطابق کلفٹن کنٹونمنٹ میں آپریشنل ایریا صرف 58؍ایکٹر پر مشتمل ہے اور شہری آبادی 9552ایکٹر اراضی جبکہ مجموعی طور پر 9611ایکٹر اراضی پر کنٹرول کررہی ہے ، کراچی کنٹونمنٹ بورڈ میں مجموعی طور پر 1899 ایکٹر اراضی میں 1427ایکٹر شہری علاقوں پر مشتمل ہیں اور آپریشنل ایریا صرف 471ایکٹر اراضی پر مشتمل ہے ، فیصل کنٹونمنٹ بورڈ نے بلاک 11/12/13/14/15/16/17/18/19/20کی اراضی پر اپنا قبضہ کررکھا ہے ، غیر قانونی تعمیرات کے علاوہ ہائی رائز کی تعمیرات بھی جاری ہے ، جہاں چمک کے ذریعہ کسی بھی عمارت کا نقشہ منظور کرلیا جاتا ہے۔ اسی طر ح فیصل کنٹونمنٹ بورڈ مجموعی طور پر کنٹرول اراضی 10207ایکٹر پر مشتمل ہیں 3321ایکٹر شہری آباد ی اور آپریشنل ایریا 5985ایکٹر اراضی پر مشتمل ہے، کورنگی کریک بھی کچی آبادی میں موجود ہے جہاں غیر قانوی تعمیرات عروج پر ہے ۔یہاںکسی غیر قانونی تعمیرات کے خلاف ایکشن نہیں لیا جاتاہے۔ کراچی کنٹوٹمنٹ بورڈ صدر کے تجارتی علاقے میں واقع ہے جہاں صرف پرانی عمارتوں کو توڑ کر نئی بلند و بالاعمارتیں تعمیرکی جاری ہیں سب سے زیادہ ہائی رائز عمارتیں بھی اسی علاقے میں موجود ہے ،واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار احمد چودھری، جسٹس سردار ایم رضا، جسٹس ایم نواز عباسی اور جسٹس میاں شاکر اللہ جان پر مشتمل فل بینچ نے ڈاکٹر عاصم حسین نامی شہری کی درخواست پر 10؍اکتوبر2007 ء میں آڈر جاری کیا ہے جس میں تمام کنٹونمنٹ بورڈ ز کو آپریشنل ایریا کے علاوہ تمام علاقے شہری حکومت کے حوالے کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔ قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ کلفٹن کے اسکیم 5کے تمام بلاک کو شہری اداروں کے حوالے کیا جائے اسی طرح گلشن اقبال اور گلستان جوہر کے بلاکوں کا کنٹرول بھی شہری اداروں کو دیا جائے ۔دلچسپ امر یہ ہے کہ کراچی دنیا کا واحد یا اکلوتا شہر ہے جہاں 21میونسپل ادارے 17لینڈکنٹرول ادارے بیک وقت کام کررہے ہیں۔ کلفٹن، فیصل،کراچی، کورنگی اور ملیر شہری علاقے بن چکے ہیں جن کا کنٹرول براہ راست حاضر سروس کئی افسران کررہے ہیں۔ شہری ماہرین کا کہنا تھا کہ کراچی کے مسائل کا حل اسی صورت میں ہوگا کہ اسے ایک باڈی یا ایک ادارہ کے مکمل کنٹرول میں دیا جائے یا کم از کم میونسپل فنکشن کے لیے کراچی میں ایک ادارہ منصوبہ بندی کرنے پر قادر ہو۔ اور اس پر عمل درآمد بھی ایک ادارہ ہی کرسکتا ہو،ماسٹرپلان،بلڈنگ پلان، پانی،سیوریج، برساتی نالے ، سولڈ ویسٹ لینڈمینجمنٹ، ٹرانسپورٹ، ٹریفک مینجمنٹ ماس ٹرانزٹ، انفرااسٹرکچرڈیولپمنٹ،کنزونسی، گاربجز، سیور، اسٹام واٹر، سولڈ ویسٹ،لیکویٹ ویسٹجز، پبلک ٹوائلٹ، ایکسپریس وے بریجز، فلائی اوور، پبلک روڈز، فٹ پاتھ، اسٹریٹ لائٹ، ٹریفک سنگل، لائٹنگ، پارکس، کھیل کے میدان، گارڈن، انٹرسٹی نیٹ ورک روڈ، لینڈ اسکیپ، بل بورڈز، ہولڈنگ، فائر فائٹنگ،سمیت دیگر شعبہ جات سنگل ہینڈ کمانڈ کے تحت کام کریں۔ کلفٹن بلاک 9کے رہائشی ندیم خان کا کہنا تھا کہ بلاک 7/8/9میں سنگل بنگلہ یا مکانات میں کثیر المنزلہ عمارتیں کھڑی کردی گئی ہیں۔کے ڈی اے قوانین کے تحت گراونڈ پلس ون کی تعمیرات کی اجازت ہے لیکن کنٹونمنٹ بورڈ نے یہاں پر کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیر کردی ہیں جس سے یہاں دیگر شہری مسائل نے جنم لے لیا ہے۔