میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سفر یاد....قسط29

سفر یاد....قسط29

منتظم
پیر, ۱۹ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

shahid-a-khan

شاہد اے خان
جلال صاحب کے ساتھ چائے پینے اور کچھ دیر سستانے کے بعد ہم نے منفوحہ دیکھنے کی فرمائش کی، جلال صاحب ہمیں لے کر نکلے اور ہم منفوحہ کے گلی محلوں میں گھومنے لگے۔ منفوحہ ریاض کے قدیم علاقوں میں سے ایک ہے، یہاں ہمیں مٹی گارے سے بنے چند مکانات بھی نظر آئے جنہیں شائد زمانہ قدیم کی نشانی سمجھ کر باقی رکھا گیا ہے، ان مکانات میں کسی کی رہائش نہیں تھی، مٹی گارے سے بنے اس قسم کے چھوٹے مکانات ہمارے گاو¿ں دیہات میں عام نظر آتے ہیں۔ منفوحہ ہی میں کھجوروں کے چند قدیم باغات بھی نظر آئے۔ جلال صاحب نے بتایا کہ وہ ساٹھ کی دہائی کے شروع میں سعودی عرب آئے تھے ان کے والد نوکری کے لئے یہاں پہنچے تھے جنہوں نے بعد میں اپنے بچوں کو بھی بلوا لیا، جلال صاحب نے ریاض میں مدرسے میں تعلیم بھی حاصل کی تھی، اس لئے ان کی عربی بہت اچھی تھی۔ بعد میں والد کی پاکستان واپسی پر جلال صاحب بھی پاکستان چلے گئے تھے۔ جلال صاحب دوبارہ سی کی دہائی میں ملازمت کے لیے ریاض پہنچے تھے اور اس وقت سے منفوحہ میں مقیم تھے۔ جلال صاحب نے بتایا کہ ریاض کی تیز رفتار ترقی سے پہلے منفوحہ کی بستی ریاض شہر سے باہر ہوا کرتی تھی،یہاں چند کنویں تھے جن کی مدد سے تھوڑی بہت کھیتی باڑی ہوجاتی تھی اور کھجوروں کے کچھ باغات ہوا کرتے تھے۔ تیل کی دریافت کے بعد سعودی عرب خاص طور پر دارالحکومت ریاض نے تیز رفتاری سے ترقی کی، پاکستان اور آس پڑوس کے ممالک سے ہزاروں لوگ کام کی تلاش میں ریاض پہنچے اور ان کی بڑی تعداد نے ریاض سے قریب اس بستی منفوحہ میں رہائش اختیار کی۔ مقامی افراد دولت کی فراوانی کے ساتھ ہی خوشحال بستیوں میں آباد ہوتے گئے اور اپنے پرانے مکانوں کو اجنبیوں یا غیر ملکیوں کو کرائے پر دے دیا،کچھ لوگوں نے مکانات میں کمروں کا اضافہ کرتے ہوئے مزید کرایہ داروں کی گنجائش پیدا کرلی۔اس طرح غیر ملکی تارکین کی خاصی بڑی تعداد منفوحہ میں آباد ہوگئی۔ یوں غریبوں کی یہ بستی غریب الوطنوں کی بستی بن گئی۔ منفوحہ میں رہائش پذیر غیر ملکیوں میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی تھی جو ویزا کی میعاد ختم ہونے کے بعد غیر قانونی طور پر سعودی عرب میں مقیم تھے۔ اگست2014میں سعودی حکومت نے ان غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف بہت بڑا آپریشن کیا۔
گورنر ریاض شہزادہ ترکی بن عبداللہ بن عبدالعزیز کی زیر قیادت منفوحہ سمیت دارالحکومت کے کئی محلوں میں سیکوریٹی آپریشن کیا گیا،574غیر قانونی تارکین گرفتار کرلئے گئے ان میں105عورتیں بھی شامل تھیں۔ گرفتارشدگان کا تعلق مختلف ممالک سے تھا تاہم زیادہ تر ایتھوپیا کے باشندے تھے۔ سیکوریٹی آپریشن کا آغاز صبح سویرے کیا گیا۔ سیکوریٹی فورس کی بھاری نفری آپریشن میں شریک تھی۔ مختلف ممالک کے غیر قانونی تارکین جن میں مرد و خواتین دونوں شامل تھے۔ گرفتار کرلیا گیا۔ سیکوریٹی اہلکاروں نے آپریشن شروع کرنے سے پہلے میدان میں فجر کی نماز ادا کی اور اس موقع پر گورنر ریاض منفوحہ محلے میں پیدل گھومتے رہے۔ انہوں نے منفوحہ کے مختلف حصوں کا معائنہ کیا اور غیر قانونی تارکین کی گرفتاری کی کارروائی اپنی نگرانی میں کروائی۔ اس موقع پر شہزادہ ترکی بن عبداللہ نے واضح کیا کہ مملکت میں فتنہ پھیلانے والوں اور اتحاد و اتفاق کا شیرازہ منتشر کرنے والوں کی مخالفت علمائ، قائدین اور عہدیدار مل جل کرکریں گے۔ جلال صاحب کے ساتھ منفوحہ کی گلیوں میں پھرتے ہوئے ہماری نظر ایک چھوٹے سے پاکستانی ہوٹل پر پڑی جہاں پکوڑے رکھے نظر آرہے تھے۔ ہم نے پکوڑے دیکھے تو دل مچل گیا، جلال صاحب سے کہا ہوٹل پر بیٹھ کر پکوڑے کھاتے ہیں، جلال صاحب مان گئے ہم نے چائے اور پکوڑوں کا آرڈر دیا، حالانکہ ہم اور جلال صاحب گھر پر چائے پی چکے تھے لیکن پکوڑوں کے ساتھ چائے نے بہت مزہ دیا۔ ہم اور جلال صاحب واپس گھر پہنچے تو آنٹی نے کھانا تیار کر رکھا تھا، آلوقیمہ، سلاد رائتہ ،گھر کی گرما گرم روٹیوں کے ساتھ کھا کر مزہ ہی آگیا۔ ساڑھے سات بجے ہم کھانا کھا کر فارغ ہو چکے تھے جس کے بعد ہم نے جلال صاحب اور آنٹی سے واپسی کی اجازت طلب کی اس کے ساتھ یہ بھی پوچھا کہ ہماری کیمپ واپسی کی کیا صورت ہوگی۔ جلال صاحب نے کہا واپسی کا کوئی مسئلہ نہیں لیموزین سے چلے جانا، لیموزین تو بہت مہنگی گاڑی ہے وہ ہمیں کہاں سے ملے گی۔ جلال صاحب نے کہا جہاں اس پاکستانی ہوٹل سے پکوڑے کھائے تھے، وہیں سڑک سے لیمویزین مل جائے گی۔ جلال صاحب ہم کو وہاں تک چھوڑنے کے لئے ساتھ آنا چاہتے تھے لیکن اس خیال سے کہ انہیں آرام کرنا چاہیے،ہم نے انہیں منع کردیا اور خود لیموزین کی تلاش میں نکل پڑے۔۔۔۔۔۔ (جاری ہے)
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں