سقوط ڈھاکا کے اسباب
شیئر کریں
اشتیاق احمد خان
اس گروہ کی قیادت ڈھاکا یونیورسٹی کے طالب علم شیخ مجیب الرحمن کر رہا تھا ۔شیخ مجیب الرحمن مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن ڈھاکا کا ذمہ دار تھا طلبہ کے اس گروہ نے فیصلہ کیا کہ وسائل کی کمی کے باعث پارٹی گاڑیوں کا خرچہ نہ اُٹھا سکے گی اور ہر گاو¿ں ہر محلہ پہنچنا ضروری ہے لہذا بوریا بسترا باندھا اور سائیکلوں کو سواری بناتے ہوئے انتخابی مہم پر نکل جایا جائے۔ طلبہ کے اس گروہ نے اپنے سفر کا آغاز ڈھاکا کے گلی محلوں سے کیا اور پورے مشرقی بنگال مغربی بنگال آسام ،بہار، تری پورہ ہوتے ہوئے دہلی پہنچ کر قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات کی اور واپسی کے سفر پر چل پڑے۔ قائد اعظم نے بنگال کے ان نوجوانوں کے اس جذبے کو بے انتہا سراہا اور اُمید ظاہر کی کہ ان کی یہ محنت رنگ لائے گی جب یہ قافلہ واپس روانہ ہوا تو اس نے ان علاقوں کا رخ کیا جن علاقوں میں آتے وقت اُسے اپنی مہم کا حصہ نہ بنا سکے تھے۔ ان علاقوں میں گھر گھر جا کر مسلم لیگ کا پیغام پہنچایا اور واپس ڈھاکا پہنچ کر مشرقی بنگال میں مسلم لیگی امیدواروں کی کامیابی کے لیے سر ڈھر کی بازی لگا دی انتخابی نتائج ان طلبہ کی انتھک محنت کا اعتراف تھے۔ پورے مشرقی بنگال سے کانگریس کا ایک بھی امیدوار کامیاب نہ ہو سکاتھا بلکہ اکثر حلقوں میں کانگریسی امیدواروں کی ضمانتیں بھی ضبط ہو گئیں تھیں ۔یہی حال مغربی حصہ کا تھا یوں مسلم لیگ کو اپنے موقف کی تائید مل گئی تھی کہ وہی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے ۔
23 مارچ1940 کو جو قرار داد منظور ہوئی تھی اس میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن اس قرار داد میں اس ضمن میں کوئی واضح لائحہ عمل نہیں تھا کہ یہ وطن کس طرح حاصل کیا جائے۔ اس قرارداد کے ذریعے مسلمانوں کی ایک منزل کا تعین کر لیا گیا تھا کہ ان کی منزل ایک علیحدہ وطن ہے لیکن یہ منزل کتنی دور ہے اور اس تک پہنچنے کا راستا اور طریقہ کیا ہو گا یہ واضح نہیں تھا اس قرار داد کے نتیجہ میں برصغیر کے مسلمانوںمیں ایک ولولہ پیدا ہو گیا تھا اور وہ اپنے لیے علیحدہ وطن کا خواب دیکھنے لگے تھے۔
1940 سے پہلے سیاسی سطح پر مسلم لیگ کا گراف اس قدر بلند نہیں تھا جتنا اس جلسے کے بعد ہو گیا اس وقت تک سیاسی قائدین کا مسلم لیگ میں شمولیت کا سلسلہ بہت کم تھا اور چند نامور افراد ہی مسلم لیگ کا حصہ بنے تھے ۔ عوامی سطح پر اثرو رسوخ رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد غیر جانبدار تھی ۔اس جلسے کے بعد بھی مسلم لیگ میں شمولیت کی رفتار میں وہ اضافہ نہیں ہوا تھا جس کی توقع کی جا رہی تھی لیکن رجوع بہرحال بڑا تھا کہ سیاسی پرندوں کو نظر آنے لگا تھا کہ اب روزی روٹی کا سلسلہ مسلم لیگ میں شامل ہو کر ہی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اس عرصہ میں جو لوگ مسلم لیگ میں شامل ہوئے ان کی اکثریت کا نظریہ یہ تھا کہ اقتدار واختیار کی طرف جانے والا راستا ہی ان کا راستا ہے۔ انگریزوں کے نوازے ہوئے سر ، نواب ،چودھری ، خان بہادر اور ایسے ہی القاب سے نوازے ہوئے افراد مسلم لیگ میں شامل ہوتے رہے ۔
مارچ1940 کے جلسے میں طے پایا تھا کہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کے لیے جدوجہد کی جائے اور اس وقت بظاہر حالات تو ایسے نہیں تھے کہ جلد ہی اس ملک کے قیام کے امکانات موجود ہوں ایک امکان پیدا ہوا تھا دوسری جانب کانگریس اور دیگر پارٹیوں پر ہندوو¿ں اور انگریزوں کے نوازے ہوئے افراد کا غلبہ تھا جہاں ایسے موسمی سیاسی لوگوںکو دال گلتی نظر نہیں آ رہی تھی اور ان کے لیے اب بہتر انتخاب مسلم لیگ ہی تھی ایک طرف یہ صورتحا ل تھی تو دوسری طرف مسلمانوں کے لیے ایک وطن کے قیام کی تحریک کے ساتھ ہی اس وطن کو اصل معنوں میں ریاست مدینہ کا نمونہ بنانا ایک ایسا کام تھا جس کے لیے تعلیم وتربیت کی اشد ضرورت تھی۔ مسلم لیگ میں نہ صرف یہ نظام موجود نہیں تھا بلکہ اس نظام کے قیام کے امکانات بھی نا ہونے کے برابر تھے کہ مسلم لیگ میں غلبہ ان لوگوں کا تھا جو نام کے تو مسلمان تھے لیکن پورے طور پر انگریزی اور کانگریسی رنگ میں رنگے ہوئے تھے جو موقع دیکھ کر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تھے ۔
اس وقت مسلمانوں کا درد رکھنے والے موجود تھے ۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے لیے قائم ہونے والا ملک ایسے عناصر کے رحم وکرم پر ہو ان حالات میں ایک تنظیم کی بنیاد رکھی گئی اور اس تنظیم نے اپنا مقصد قیام یہ قرار دیا کہ علمی اور تربیتی میدان میں موجود خلا کو پورا کرنا ہے اور مسلمانوں کے لیے وطن کے قیام سے قبل ایسا سازگار ماحول ترتیب دینا ہے جس کے نتیجہ میں آزاد ملک کے قیام کے ساتھ ہی بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے سامنے آ کر اس وطن کے قیام کے مقاصد کو پامال نہ کر دیں۔ میں تنظیم کا نام نہیں لونگا آپ ان دنوں کے حالات کا جائزہ لیں گردونواح پر نظر ڈالیں آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اس وقت مسلم لیگ پر جن لوگوں کا غلبہ تھا وہ اپنے پانچ ساڑھے پانچ فٹ کے وجود پر بھی اسلام کو عملاً نافذ کرنے پر آمادہ نہیں تھے تو ان لوگوں سے کیونکر یہ امید رکھی جا سکتی تھی کہ وہ مسلمانوں کے نام پر حاصل ہونے والی وطن کو عملاً ریاست مدینہ کا مثل بنا سکیں گے۔ اس تنظیم نے علمی میدان کے کام کا آغاز کر دیا اور اس تنظیم کے سربراہ نے قیام پاکستان سے قبل قائد اعظم محمد علی جناح سے کہا تھا ” مسٹر جناح جن افراد کے ساتھ آپ مسلمانوں کے لیے وطن قائم کرنا چاہتے ہیں یہ منزل کو کھوٹا کر دینگے ” اور وقت نے ثابت کیا کہ اس مرد درویش کی نگاہ کتنی بلند تھی ۔ (جاری ہے)
٭٭