ایک بیوی،لگاؤ ٹی بی۔۔
شیئر کریں
دوستو، ہم یہ انکشاف سن کر دنگ رہ گئے کہ کورونا وائر س جان بوجھ کر پھیلایاجارہا ہے، یہ کسی قسم کی کوئی سازش نہیں بلکہ کورونا وائرس کا پھیلاؤروکنے کے لیے’ ’ہر امیونٹی‘‘ (Herd immunity)کے طریقے پر بھی عمل کیا جا رہا ہے۔ اس طریقے میں دانستہ طور پر لوگوں کو کورونا وائرس میں مبتلا کیا جاتا ہے اور جب کسی علاقے میں ایک مخصوص تعداد اس وائرس میں مبتلا ہو کر صحت مند ہو جاتی ہے تو اس علاقے میں وائرس کا پھیلاؤ رک جاتا ہے اور باقی لوگ محفوظ ہو جاتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر 43فیصد آبادی کورونا وائرس میں مبتلا ہو کر صحت مند ہو جائے تو باقی لوگ اس موذی وباسے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ کسی علاقے یا ملک کے سماجی اعتبار سے زیادہ متحرک لوگ وائرس کے خلاف مدافعت پا لیں تو اس علاقے یا ملک کے باقی لوگوں کو وائرس کا انتقال مسدود ہو جاتا ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت برطانیہ سمیت چند ممالک ہر امیونٹی کے طریقے پر عمل کر رہے ہیں۔ پاکستان کی پالیسی اس حوالے سے اگرچہ مبہم ہے مگر بظاہر پاکستان بھی اسی طریقے پر عمل پیرا نظر آتاہے۔
ہم نے گزشتہ کالموں میں کئی بار یہ راز آپ کو بتایا تھا کہ کورونا کی وجہ سے تبدیلیاں آرہی ہیں، کئی بار منع بھی کیا تھا کہ کورونا کے ساتھ ساتھ خود کو بھی پھیلنے سے روکنا ہے۔۔اب ایک سروے میں بتایاگیا ہے کہ پچاس فیصد سے زائد خواتین نے اپنے جسم میں آنے والی ایک تبدیلی کا انکشاف کر دیا ہے۔ ایک بھارتی اخبار کے مطابق ویب ایم ڈی کے زیرانتظام کیے گئے اس تحقیقاتی سروے میں 50فیصد خواتین نے کہا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ موٹاپے کا شکار ہو گئی ہیں۔ اس کے برعکس مردوں میں یہ شرح 22فیصد رہی جنہوں نے لاک ڈاؤن کے دوران موٹے ہونے کا اعتراف کیا۔سروے میں جب مردوخواتین سے لاک ڈاؤن کے دوران موٹاپے کا شکار ہونے کی ممکنہ وجوہات پوچھی گئیں تو 60فیصد سے زائد کا کہنا تھا کہ وہ اس وبااور لاک ڈاؤن کی وجہ سے شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہے جو ان کے موٹاپے کا شکار ہونے کی ممکنہ وجہ ہے۔ 21فیصد امریکیوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے دوران وہ شراب نوشی زیادہ کرنے لگے تھے جس کی وجہ سے وہ موٹاپے کا شکار ہو گئے۔ 12فیصد نے ورزش کرنے کا موقع نہ ملنے کو اس کی وجہ قرار دیا۔
یہ تو تھیں کورونا کی باتیں۔۔اب آجائیں اصل موضوع کی طرف۔۔ہمارے پیارے دوست نے ہمیں واٹس ایپ پر ایک عجیب و غریب لیکن بہت ہی دلچسپ قسم کا میسیج کیا۔۔وہ لکھتے ہیں کہ۔۔ ابن عباد کہتے ہیں کہ جس معاشرے میں ایک بیوی عام ہو جائے وہ عورتوں کا معاشرہ ہے، مردوں کا نہیں۔۔ابن سینا کہتے ہیں کہ جس کی ایک ہی بیوی ہو، وہ جوانی میں بوڑھا ہو جاتا ہے۔ اسے ہڈیوں، کمر، گردن اور جوڑوں کے درد کی شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔۔قاضی ابو مسعود کہتے ہیں کہ جس کی ایک بیوی ہو، اس کے لیے لوگوں کے مابین فیصلے کرنا جائز نہیں یعنی اس کا قاضی بننا درست نہیں۔۔ابن خلدون کہتے ہیں کہ میں نے پچھلی قوموں کی ہلاکت پر غور وفکر کیا تو میں نے دیکھا کہ وہ ایک ہی بیوی پر قناعت کرنے والے تھے۔ابن میسار کہتے ہیں کہ اس شخص کی عبادت اچھی نہیں ہو سکتی کہ جس کی بیوی ایک ہو۔۔ عباسی خلیفہ مامون الرشید سے کہا گیا کہ بصرہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جن کی ایک ہی بیوی ہے۔ تو مامون الرشید نے کہا کہ وہ مرد نہیں ہیں۔ مرد تو وہ ہیں کہ جن کی بیویاں ہوں۔ اور یہ فطرت اور سنت دونوں کے خلاف چل رہے ہیں۔ ابن یونس سے کہا گیا کہ یہود و نصاری نے ایک سے زائد بیویاں رکھنا کیوں چھوڑ دیا۔ انہوں نے جواب دیا، اس لیے کہ اللہ عزوجل ذلت اور مسکنت کو ان کا مقدر بنانا چاہتے تھے۔۔ابو معروف کرخی سے سوال ہوا کہ آپ کی ان کے بارے کیا رائے ہیں جو اپنے آپ کو زاہد سمجھتے ہیں لیکن ایک بیوی رکھنے کے قائل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ زاہد نہیں بلکہ مجنون ہیں۔ابن فیاض سے ایسے لوگوں کے بارے سوال ہوا کہ جن کی ایک ہی بیوی ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ مردہ ہیں، بس کھاتے پیتے اور سانس لیتے ہیں۔ والی کرک ابن اسحاق نے پورے شہر میں مال تقسیم کیا لیکن ایک بیوی والوں کو کچھ نہ دیا۔ جب ان سے وجہ پوچھی گئی تو کہا کہ اللہ عزوجل نے سفہاء یعنی ذہنی نابالغوں کو مال دینے سے منع کیا ہے۔۔ابن عطاء اللہ نے ایک بیوی رکھنے والوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان کو بڑا کیسے سمجھ لیں کہ جنہوں نے اپنے بڑوں کی سنت کو چھوڑ دیا یعنی صحابہ کی سنت کو۔ حصری کہتے ہیں کہ جب اللہ نے شادی کا حکم دیا تو دو سے شروع کیا اور کہا کہ دو دو، تین تین اور چار چار سے شادیاں کرو۔ اور ایک کی اجازت ان کو دی جو خوف میں مبتلا ہوں۔۔ تقی الدین مزنی سمرقند کے فقیہ بنے تو ان کو بتلایا گیا کہ یہاں کچھ لوگ ایک بیوی کے قائل ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ کیا وہ مسلمان ہیں؟ پھر اہل شہر کو وعظ کیا تو شہر میں کوئی کنواری، مطلقہ اور بیوہ نہ رہی۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ شوہرات بیچارے کیا کریں کیوں کہ بیگمات دوسری شادی کی شدید مخالف ہیں۔۔سیانے کہتے ہیں کہ انسان ،انسان کا دشمن ہے، لیکن باباجی فرماتے ہیں، عورت، عورت کی دشمن ہے، چاہے وہ سوکنیں ہوں، سوتیلی ماں ہو، ساس و بہو، نند و بھابھی ہو۔۔جٹھانی یا دیورانی ہو۔۔ اخبار میں اشتہار چھپا۔۔مرسیڈیزکار برائے فروخت صرف ایک ہزار روپے میں۔۔ کوئی بھی اس اشتہار پر یقین نہیں کررہا تھا، ایک صاحب (جوہماری طرح ایڈونچر پسند تھے شاید) یہ اشتہار دیکھ کر لکھے ہوئے ایڈریس پر جاپہنچے، دروازے کی بیل بجائی،خاتون خانہ باہر آئیں، صاحب نے اشتہار کے متعلق پوچھا۔۔خاتون نے کہا ،جی ہاں،اشتہار ہم نے ہی دیا ہے۔۔صاحب بولے، میں کاردیکھ سکتا ہوں۔۔جی شوق سے، آئیے۔ یہ کہہ کے خاتون نے گیراج کھلوایا۔صاحب نے دھیان سے کار کو دیکھا توان کی آنکھیں پھیل گئیں، کہنے لگے۔ یہ تو ایک دم نئی ہے۔۔ جواب ملا۔۔جی یہی سمجھ لیں بس آٹھ ہزار کلومیٹر چلی ہوئی ہے۔۔صاحب نے سوال داغا ، لیکن اخبار میں تو اس کی قیمت صرف ایک ہزار روپے لکھی ہے۔۔ خاتون خانہ فرمانے لگیں۔۔ جی ایسا ہی ہے ،آپ ایک ہزار روپے دیجئے اور کارلے جائیے۔۔صاحب نے کانپتے ہاتھوں سے ایک ہزار روپے نکال کرمحترمہ کودیئے، محترمہ نے رسید بنائی اور گاڑی کی چابی اور کاغذات صاحب کو پکڑادیئے۔۔شدید بے یقینی کے عالم میں صاحب نے پوچھ ڈالا۔۔بہن جی! اب تو بتا دیجئے کہ معاملہ کیا ہے؟ میں تو حیرت سے مرا جا رہا ہوں۔۔خاتون کہنے لگیں۔۔گھبرائیے مت! کار اب یقینی طور پر آپ کی ہی ہے۔ میں تو بس اپنے مرحوم شوہر کی آخری خواہش پوری کر رہی ہوں۔ وہ اپنی وصیت میں لکھ گئے تھے کہ ان کے مرنے کے بعد یہ مرسڈیز گاڑی بیچ دی جائے، اور ملی ہوئی ساری رقم۔۔ انکی دوسری بیوی کو دے دی جائے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ڈرائی فروٹ میں اخروٹ کا مقام باپ کی طرح ہے جو اوپر سے سخت مگر اندر سے طاقت والا ہوتا ہے مگر چلغوزے کا مقام دوسری بیوی کے برابرہے جو کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے ۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔