16 دسمبر
شیئر کریں
مصور یاد آیا جس کی یہ تصویر ہے، وہ اپنی قبر میں آسودہ سوتا اور نور کے ایک ہالے میں رہتا ہے، مگر اُس کی یہ تصویر نوک دشنہ سے دو نیم ہوئی اور اب ”پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی“ کی مانند ایک اور طرح کی تصویر ہوگئی! ہائے!!
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناﺅ
اقبالؒ نے اس قوم کاہر ہر قرض اُتارا مگر یہ قوم اُس کا قرض کب اُتارے گی؟ وہ قوم جو دنیا کی بستی میں باسی کڑھی کا صرف ایک اُبال تھی، اُسے حرکت اور حرارت کا پیغام دیا۔ اُس کا رشتہ میوزیم میں قید مردہ تہذیب کے بجائے ایک زندہ تہذیب سے جوڑدیا، جس سے یک بیک یہ قوم نسلی، زمینی اور لسانی عصبیتوں سے اس طرح بلند ہوئی کہ آسمان رشک کرنے لگا۔ شاہین اُسی بلندی کی علامت تھا۔ وہ شاعر تھا مگر خیالات کی وادیوں میں بھٹکتا نہ تھا، اسی لیے اُس نے قوم کا ایک حقیقی قائد دریافت کیا، راست باز ہمہ وقت مصروفِ عمل اور دم خم ایسا کہ کبھی خم نہ ہوا۔ محمد علی جناح نے اس قوم کی کشتی کو ساحل مراد تک پہنچایا۔ تاریخ میں کم کم ہی کسی قوم نے علامہ اقبال اور قائد اعظم ایسے قائدین پائے ، ایسی سربلند قوم مستحق نہ تھی کہ اس کی قومی تقویم میں کبھی 16 دسمبر آتی، کاش اس تاریخ کو کوئی قومی تاریخ سے کھرچ دے۔
تاریخ کا وار کتنا کاری تھا، آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈھاکا میں رکھی گئی، لاہور میں منظور کی جانے والی 1940 ءکی قرار داد ِپاکستان کسی اور نے نہیں ایک بنگالی رہنما اے کے فضل الحق نے پیش کی۔ مینارِ پاکستان نے تب بنگال کی بلائیں اُتاریں، اُسے اپنی بانہوں میں بھرلیا اور اپنی فضاﺅں میں بسالیا تھا، پھر ڈھاکا کو کیا ہوا؟ اندرا گاندھی نے اتنا نہیں کہا تھا کہ ”ہم نے نظریہ پاکستان خلیج بنگال میں غرق کردیا۔“ وہ کچھ زیادہ ہی اِٹھلائی اور اِترائی تھی، اُس نے کہا تھا ”آج ہم نے مسلمانوں سے سومنات کی شکست اور ہزار سالہ تاریخ کا انتقام لے لیا ہے۔“ تب سولہ دسمبر کی تاریخ صرف پاکستانیوں میں نہیں، مسلمانانِ عالم کے سینوں میں خنجر کی طرح پیوست ہوئی، زمین کی نمی کو یاسیت کی تھورنے نگل لیا، اُس روز صرف ڈھاکا نہ ڈوبا تھا، اس قوم کی تاریخ کا پورا جہاز ہی گنگا میں بہہ گیا، ملک تو دولخت ہوا تھا مگر قائد کا جگر اپنی قبر میں لخت لخت ہوگیا ہوگا، اقبال اُس روز اپنی قبر میں کتنا رویا ہوگا، سقوط ڈھاکا سے صرف ایک ماہ قبل جنرل نیازی نے کہا تھا۔
”میرے سپاہی کھلے ہاتھ کی انگلیوں کی طرح سرحدوں تک پھیلے ہوئے ہیں، وہ آہستہ آہستہ سکڑ کر ایک مکے کی شکل اختیار کرلیں گے، اور پھر دشمن کا جبڑا توڑدیں گے۔“
جنرل نیازی کے یہ الفاظ 3 دسمبر کو ایک بہت بڑا امتحان بن کر خود اُسی کے سامنے کھڑے ہوگئے جب بھارت نے ملک پر حملہ کردیا، تب لفظوں کا خراچ عمل کا قلاش ثابت ہوا۔ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کرنے کا اعلان ایک اعلان ہی رہا اور 3 دسمبر کا فوجی فرمانِ امروز بھی ڈھاکا میں پڑا کِرم خوردہ ہوگیا، جس میں تاکید کی گئی تھی کہ جنرل نیازی کے زیر کمان افسروں اور جوانوں پر دو باتیں واضح ہونی چاہئیں، ایک یہ کہ دشمن جہاں بھی ملے، جدھر بھی ملے سرحدوں کا خیال کیے بغیر اُسے تہس نہس کردیں اور دوسری بات یہ کہ آخری دم تک دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کریں کیونکہ فرار یا جان بچاکر بھاگنے کی تمام راہیں مسدود ہیں“ ۔ صدیق سالک لکھتے ہیں کہ ”میں یہ فرمانِ امروز لے کر چلنے لگا تو جنرل نیازی نے ”فرار یا جان بچاکر بھاگنے کی تمام راہیں بند ہیں“ والا جملہ ہی نکلوادیا۔ شاید جنرل کے ذہن میں پہلے ہی سے یہی راستا رہا ہو، کیونکہ 16 دسمبر سے چار روز قبل 12 دسمبر کو ہی مشرقی پاکستان کی کمان کے تمام اہم جنگی رہنما اس امر پر بحث کررہے تھے کہ جنگ بندی کا سگنل راولپنڈی کون بھیجے؟ میجر جنرل رحیم چاندپور سے آتے ہوئے نرائن گنج کے پاس زخمی ہوگئے تھے، جنرل فرمان اُن کی خبر گیری کے لئے پہنچے تو انہوں نے ”بیمار کا حال اچھا ہے“ کے بجائے کہا کہ ”اب جنگ بندی کے بغیر چارہ نہیں۔“ اس دوران میں جنرل نیازی اور جنرل جمشید بھی ”زخمی جرنیل کی عیادت کے لیے پہنچ گئے۔“ جس کا جسم ہی نہیں روح بھی گھائل ہوچکی تھی۔
اب جرنیلوں کے درمیان بحث یہ نہیں تھی کہ بھارت کا مقابلہ کیسے کیا جائے بلکہ یہ کہ جنگ بندی میں تاخیر کیوں ہورہی ہے اور یہ کہ جنگ بندی والی تجویز صدر پاکستان کو کہاں سے بھیجی جائے، گورنر ہاﺅس سے یا ایسٹرن کمانڈ ہیڈ کوارٹر سے؟ جنرل نیازی نے یہ کہہ کر معاملہ ختم کردیا کہ ”اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ سگنل یہاں سے جائے یا وہاں سے، میں دراصل ایک ضروری کام کے لیے جارہا ہوں، سگنل تم یہیں سے بھجوادینا۔“ جنرل نیازی کا ضروری کام مشرقی پاکستان کے دفاع سے زیادہ ضروری نکلا اور اس دوران میں مشرقی پاکستان ہاتھ سے ہی نکل گیا۔ نیازی کے مکے سے دشمن کا نہیں پاکستان کا جبڑا ٹوٹا، تمام جرنیل یہ باتیں ایک ایسے وقت میں کررہے تھے جب جنرل نیازی کے پاس 26 ہزار فوجی تھے اور حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کے مطابق وہ دو ہفتے تک مزید لڑسکتے تھے، مگر کیسے لڑتے؟ جنرل یحییٰ شراب کے نشے میں دُھت تھا، جنرل نیازی کو ایک زیادہ ضروری کام آپڑا تھا، جنرل رحیم کا جسم ہی نہیں روح بھی زخمی ہوگئی تھی، بریگیڈیئر ہدایت اللہ اپنے بنکر میں خواتین کے ساتھ خوش فعلیاں فرمارہے تھے، اور سیاست دان اپنے نرم بستر پر اقتدار کی حرص میں کروٹیں لے رہے تھے، کسی اور نے نہیں یہ اقبال نے ہی کہا تھا:
”زمانہ کبھی کسی کا انتظار نہیں کرتا جو اپنا وقت بے عملی میں کھودیتے ہیں وہ ذلت و رسوائی کے ساتھ اپنی ہر بات بھی کھودیتے ہیں۔“
ہم نے 16 دسمبر کو ذلت و رسوائی کے ساتھ ڈھاکا ہی نہیں اپنے ماضی اور حال کی ہر بات کھودی تھی۔
٭٭