مشرقی پاکستان ، ایک قصہ مختصر
شیئر کریں
شاہد اے خان
انسانی تاریخ میں ایسے غیر معمولی ادوار آتے ہیں جب حقیقت تاریخ کے میدان میں اترتے ہوئے مصلحت کا نقاب اوڑھ لیتی ہے۔سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے ہماری تاریخ مختلف بیانیوں کے سراب میں ایسے گم ہوئی ہے کہ نئی نسل اس عظیم سانحے سے یکسر بے خبر ہوتی جا رہی ہے۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور سقوط ڈھاکہ کے بارے میں ہمیں عام طور پر دو قسم کی توجیہات ملتی ہیں۔ ایک طبقے کے نقطہ نظر کے مطابق مشرقی پاکستان میں ابھرنے والی عوامی بغاوت ایک ”بین الاقوامی سازش“ کا نتیجہ تھی اور بھارت کی پشت پناہی سے ”غدار بنگالیوں“نے علیحدگی اختیار کر لی۔ دوسری جانب بعض لبرل مورخین کے مطابق یہ تحریک مشرقی پاکستان میں قومی محرومی کے احساس اور مغربی پاکستانی اشرافیہ کے خلاف ردعمل کا نتیجہ تھی۔
بزرگ تجزیہ کار افتخار اجمل کاکہنا ہے پاکستان بننے کے فوری بعد مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے کسی مطالبے نے جنم نہیں لیا تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو حسین شہید سہروردی صاحب پاکستان کا پہلا آئین منظور ہونے کے بعد ستمبر 1956ءمیں وزیرِ اعظم نہ بنتے۔ خیال رہے کہ حسین شہید سہروردی صاحب ا±س عوامی لیگ کے صدر تھے جس میں شیخ مجیب الرحمٰن تھا۔ بنگالیوں کا دشمن دراصل بنگالی بیوروکریٹ سکندر مرزا تھا جس نے کراچی کے سیٹھوں کے زیرِ اثر مشرقی پاکستان کو اس کا مالی حق دینے کی کوشش پر حسین شہید سہروردی صاحب پر بہت دباو¿ ڈالا اور اس ڈر سے کہ ا±نہیں برخاست ہی نہ کر دیا جائے وہ اکتوبر 1957ءمیں مستعفی ہو گئے۔ یہ وہ وقت ہے جب مشرقی پاکستان میں نفرت کی بنیاد رکھی گئی۔ اس سے قبل محمد علی بوگرہ صاحب جو بنگالی تھے 1953ءمیں وزیرِ اعظم بنے تھے اور انہیں بھی سکندر مرزا نے 1955ءمیں برخواست کردیا تھا۔اس سے قبل 1953ءمیں خواجہ ناظم الدین صاحب کی کابینہ کو اور 1954ءمیں پاکستان کی پہلی منتخب اسمبلی کو غلام محمد نے برخواست کر کے پاکستان کی تباہی کی بنیاد رکھی تھی۔حقیقت یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں بنگالی بھائیوں کے د±شمن وہی تھے جو مغربی پاکستان میں پنجابیوں۔ سندھیوں۔ پٹھانوں اور بلوچوں کے دشمن رہے ہیں یعنی بیوروکریٹ۔ خواہ وہ وردی میں ہوں یاسادہ لباس میں ہوں۔
ایک بات یہ بھی کی جاتی ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا ، ان کے اس اعلان نے بنگلہ دیش کی بنیاد رکھ دی ، یہ سراسر بے بنیاد الزام ہے۔قائداعظم کی اس جلسے میں تقریر کا پس منظر اور پیش منظر منیر احمد منیر صاحب نے اپنی کتاب ”قائداعظم، اعتراضات اور حقائق“ میں بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ قائداعظم نے ڈھاکہ میں جو اعلان کیا وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا اکثریتی فیصلہ تھا۔ 25 فروری 1948ءکو کراچی میں دستور ساز اسمبلی میں مشرقی پاکستان سے کانگریس کے ہندو رکن دھرنیدر ناتھ دتہ نے بنگالی کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ قائداعظم نے اسمبلی کے اسپیکر کے طور پر اس مطالبے کو رد کرنے کی بجائے اس پر بحث کرائی۔ کانگریسی رکن اسمبلی نے کہا ”ریاست کے 6 کروڑ 80 لاکھ باشندوں میں سے 4 کروڑ 40 لاکھ باشندے بنگالی بولتے ہیں اس لئے قومی زبان بنگالی ہوگی“۔ ایک اور کانگریسی رکن پریم ہری ورما نے اس مطالبے کی حمایت کی۔ لیکن مشرقی پاکستان کے بنگالی ارکان مولوی تمیز الدین اور خواجہ ناظم الدین نے اس مطالبے کی مخالفت کی۔ لیاقت علی خان نے وضاحت کی کہ ہم انگریزی کی جگہ اردو کو لانا چاہتے ہیں اس کا مطلب بنگالی کو ختم کرنا نہیں۔ کافی بحث کے بعد یہ مطالبہ مسترد کردیا گیا اور مطالبہ مسترد کرنے والوں میں بنگالی ارکان حسین شہید سہروردی، نور الامین، اے کے فضل الحق، ڈاکٹر ایم اے مالک اور مولوی ابراہیم خان بھی شامل تھے۔ اردو کو قومی زبان بنانے کا فیصلہ قائداعظم کا نہیں دستور ساز اسمبلی کا فیصلہ تھا۔قائداعظم نے 21 مارچ 1948ءکی تقریر میں یہ بھی کہا تھا آپ اپنے صوبے کی زبان بنگالی کو بنانا چاہتے ہیں تو یہ آپ کے نمائندوں کا کام ہے۔ بعد میں صوبائی حکومت نے اردو کے ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا تو یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا لیکن تاخیر سے کیا گیا اور اس تاخیر کا پاکستان کے دشمنوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔
مشرقی پاکستان میں جونہی فوجی کارروائی شروع ہوئی بھارت کی بنائی ہوئی م±کتی باہنی اور اس کے حواریوں نے غیر بنگالیوں کی املاک کی لوٹ مار اور نہتے بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ زیاتی اور قتلِ عام شروع کر دیا۔یہ حقیقت بھی بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمٰن اور اس کے نائبین پہلے ہی فیصلہ کر چکے تھے کہ جمعہ 26 مارچ 1971ءکی صبح منظم مسلح بغاوت شروع کر دی جائے گی۔ اس تیاری کیلئے بہت پہلے سے ڈھاکہ یونیورسٹی کو مکتی باہنی کا تربیتی مرکز بنایا جا چکا تھا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کا اصلی ڈائریکٹر بھارت تھا،اب بھی بھارت پاکستان خاص طور پر بلوچستان میں مداخلت میں مصروف ہے،بھارت کو پتہ ہونا چاہیے کہ ہم تیار ہیں۔ جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں ، امن ہم سب کی ضرورت ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تاریخ کو فراموش کردیا جائے کیونکہ جو قومیں تاریخ کو بھلا دیتی ہیں ان کا جغرافیہ بھی انہیں فراموش کردیتا ہے۔
٭٭