قبرستانوں میں گورکھ دھندے ،قبرفروش سرگرم
شیئر کریں
پرانی قبروں سے مُردے نکال کر نئے مُردوں کے لواحقین کو فروخت ، ملزم عدم ثبوت پر بری،ڈائیرکٹرقبرستان کو بھی بھتا جاتا ہے ،ملزم کا انکشاف
قبروں کی بے حرمتی اور مہنگے داموں فروخت کرنے والے ملزم نے گھناو¿نے کاروبار کا ذمہ دار کے ایم سی کے اعلیٰ حکام کو قرار دے دیا
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ شہر قائد میں انسانوں کے بعد اب مردے بھی محفوظ نہیں، گورکنوں کا مردے نکال کر قبریں فروخت کرنے کاگورکھ دھندا جاری ہے ۔ عزیز آباد انویسٹی گیشن ٹیم نے کراچی کے علاقے عزیزآباد میں واقع یاسین آباد قبرستان میں کارروائی کرتے ہوئے فیاض نامی گورکن کو گرفتار کیا پولیس حکام کے مطابق ملزم قبریں فروخت کرنے کے مکروہ دھندے میں ملوث ہے۔پولیس حکام کا کہنا تھاکہ ملزم کے خلاف ایک مقامی شخص نے ایف آئی درج کروائی جس کے بعد سے گورکن کی تلاش جاری تھی جیسے ہی وہ قبرستان میں داخل ہوا خفیہ اطلاع ملتے ہی کارروائی عمل میں لائی گئی جس کے نتیجے میں ملزم گرفتار ہوا۔پولیس افسران کے مطابق شہری کی جانب سے شکایت درج کروائی گئی تھی کہ ملزم تازہ قبروں میں سے مردے نکال کر انہیں 15 سے 20ہزار روپے میں فروخت کرتا تھا۔جسکے بعد گرفتار ملزم فیاض کی نشاندہی پرشہر قائد میں قبریں فروخت کرنے والے ایک اور گورکن کوگرفتار کرلیا ۔ پولیس نے گورکن نعیم عرف کلو کوحراست میں لیا جو یاسین آباد قبرستان میں قبریں فروخت کرتا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ قبروں کی خرید و فروخت کرنے میں گروہ کا سرغنہ کے ایم سی کا ملازم ہے، نعیم عرف کلو نے بتایا کہ گروہ کے سرغنہ جس قبر کو او کے کرتے تھے اس کو کھودا جاتا تھا۔ملزم نے اعتراف کیا ہے کہ ایک سال میں ہزار سے زیادہ قبریں فروخت کیں، مردوں کی ہڈیوں کی باقیات جمع کر کے ایک ایک قبر میں پانچ افراد کی باقیات چھپائی جاتی تھی۔پولیس کے مطابق ملزم دورانِ تفتیش اپنے جرم کا اعتراف کرچکا ہے۔جمعے کو گرفتار ہونے والے پہلے ملزم کی ضمانت منظور ہوگئی جس ملزم کی نشاندہی پر ملزم نعیم کالو کو گرفتار کیا گیا، ملزم کے گروہ میں چھ افراد شامل ہیں۔ملزمان 3سال سے ایک درجن سے زائد قبرستانوں میں قبریں فروخت کررہے تھے پولیس نے مردے نکال کر قبریں بیچنے کے الزام میں گورکن کو گرفتار توکرلیالیکن عدالت میں الزام کا ثبوت پیش نہ کرپائے، ملزم کو ضمانت پر رہائی کا حکم دے دیا گیا گورکن فیاض کے خلاف ایف آئی آر میں چار دیگر افراد بھی نامزد ہیں مگر پولیس اپنے ہی الزام کو ثابت نہ کرپائی ۔کورٹ کی جانب سے ضمانت منظور ی کے بعد ملزم کے تیور بھی بدل گئے۔ملزم مردے نکال کر قبریں بیچتا تھا یا نہیں ،یہ بات ابھی طے ہونا باقی ہے مگر اس واقعے سے یہ ضرور طے ہوچکا ہے کہ پولیس کی تفتیش کا نظام انتہائی ناقص ہے۔ملزم فیاض کی نشاندہی پر حراست میں لیے جانے والے ملزم نعیم عرف کلو نے قبروں کی بے حرمتی، انہیں مہنگے داموں فروخت کرنے والے گھناو¿نے کاروبار کا ذمہ دار ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر قبرستان کو قرار دے دیا۔ قبروں کی بے حرمتی کرنیوالے گروہ کے کارندے نعیم عرف کالو کے سنسنی خیز انکشافات سے کے ایم سی افسران میں کھلبلی مچ گئی ،عوام کو مہنگی قبریں کسی اور کے کہنے پر نہیں ڈائریکٹرقبرستان پرویزاقبال اورڈپٹی ڈائریکٹر فیاض اقبال کے کہنے پربیچی جاتی ہیں ۔ ہفتہ واربیس ہزارکابھتہ ڈپٹی ڈائریکٹرقبرستان کو جاتا ہے،ملزم ایک قبربیس سے پچیس ہزارروپے کے عوض فروخت کرتا تھا۔دونوں افسران نے اعجاز انور نامی شخص کو ایک سال کے کانٹریکٹ پر بھرتی کیا جو افسران کی ہدایات مزدوروں تک پہنچاتا تھا۔نعیم عرف کالوکا کہنا ہے کہ مقدمہ میں پھنسایا جا رہا ہے ، وقت آنے پر ثبوت پیش کرونگا۔ پولیس نے شرمناک دھندے میں ملوث گروہ کو گرفتار کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق عامر، جمیل اور اعجاز سمیت دیگر ملزمان پر مشتمل یہ گروہ گزشتہ تین سال سے اس گھنانے کاروبار میں ملوث ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ نصف سے زائد قبرستانوں میں گنجائش ختم ہو چکی ہے لیکن پھر بھی روزانہ کی بنیاد پر ان قبرستانوں میں مردوں کی تدفین کا عمل جاری ہے اور اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ گورکن 10سے 15ہزار روپے لے کر پرانی قبر کو ہی کھود کر نئی بنا دیتے تھے اور اس میں پہلے سے موجود مردے کی ہڈیوں کو یا تو پھینک دیتے تھے یا پھر وہیں کہیں چھپا دی جاتی تھیں۔اس معاملے پر ایک سال قبل بھی مقدمہ درج کیا گیا تھا تاہم کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکی تھی۔ گرفتار ہونے والا گروہ ایک درجن سے زائد قبرستانوں میں اس شرمناک کاروبار میں ملوث ہے۔عزیز آباد پولیس کے تفتیشی افسر غلام علی سیال کا کہنا ہے کہ جو چوری کرتا ہے وہ کب تسلیم کرتا ہے کہ اس نے چوری کی ہے اگر ملزمان نے کے ایم سی کے ڈائریکٹر کا نام لیا ہے تو وہ یقینی طور پر ملوث ہوں گے۔ پولیس قانون کے مطابق کارروائی کرے گی۔ آئی او کا کہنا تھا کہ کے ایم سی افسران کا نام ملزمان نے عدالت میں بھی لیا ہے ،پولیس کسی قسم کا دباو¿ قبول کئے بغیر اپنا کام کرے گی ۔ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں ملوث دیگر ملزمان بھی جلد ہی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ شہر کراچی میں واقع 118مسلم قبرستانوں میں سے کے ایم سی کے کنٹرول میں 46قبرستان ہیں اور ان میں سے بھی 7قبرستانوں میں تدفین پر بھی پابندی ہے,کے ایم سی کے ڈائریکٹر قبرستان کا کہنا ہے کہ یاسین آباد قبرستان کے گورکن اعجاز نے 3اکتوبر کو درخواست دی تھی کہ فیاض، نعیم، ناصر عرف 302سمیت دیگر افراد کا یاسین آباد قبرستان میں ڈیرا ہے اور انہیں بھتہ دیئے بغیر کسی میت کی تدفین نہیں ہو سکتی، جس پر ڈائریکٹر قبرستان اقبال پرویز کا کہنا ہے کہ ایس ایچ او سمیت تمام متعلقہ حکام کو اس حوالے سے آگاہ کر دیا گیا تھا، تاہم پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ کے ایم سی افسران اب قانونی کارروائی سے بچنے کے لئے خطوط کا ڈرامہ رچا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال شہر میں شدید گرمی اور حبس کے نتیجے میں 1200سے زائد ہلاکتوں کے بعد لوگ اپنے پیاروں کی تدفین کیلیے مارے مارے پھرتے رہے ، قبرستان قبروں سے مکمل طور پر بھر گئے تھے، اور نئی قبروں کیلئے جگہ دستیاب نہیں تھی، اس دوران قبرستانوں میں بھی سفارشی کلچر عام رہا، اور صرف رشوت دے کر قبروں کیلئے جگہ فراہم کی جاتی رہی ۔ شہر کے قبرستانوں سخی حسن قبرستان، پاپوش نگر قبرستان، عیسی نگری قبرستان، میوہ شاہ قبرستان، ماڈل کالونی قبرستان، ریڑھی گوٹھ قبرستان، ابراہیم حیدری قبرستان، کورنگی قبرستان، نیو کراچی، شاہ فیصل کالونی و دیگر قبرستانوں میں لوگوں کا رش دیکھنے میں آیا تھا۔ لوگ اپنے پیاروں کی تدفین کیلئے قبرستان آتے، لیکن ان کو بتایا جاتا کہ قبرستان قبروں سے بھر چکے ہیں اور تدفین کیلئے جگہ دستیاب نہیں ہے، جس کے بعد لوگ اپنے پیاروں کی میتوں کو لیکر دوسرے قبرستانوں کی طرف روانہ ہوجاتے، لیکن ان قبرستانوں میں جن لوگوں نے بھاری رشوت دینے کی پیشکش کی، گورکنوں نے رشوت لیکر ان کو قبروں کی جگہ فراہم کر دی۔ لوگوں کو شکایت تھی کہ عیسی نگری قبرستان میں فی قبر 50ہزار روپے تک رشوت وصول کی گئی۔
قبل ازیں مُردوں کے ساتھ زیادتی کا ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ دنوں بھی سامنے آیا تھا جب پاپوش نگر پولیس نے مردہ خواتین کی بے حرمتی کرنے والے ملزم ریاض کو گرفتار کیا تھا، ملزم نے 48خواتین کی لاشوں کی بے حرمتی کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ڈی ایس پی عبدالرشید نے نیوز کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھاکہ ملزم محمد ریاض آٹھ سال سے پاپوش نگر قبرستان میں پانی ڈالنے کا کام کرتا تھا۔ قبرستان کے گورکن اور علاقہ مکینوں نے قبرستان میں خواتین کی قبریں کھلی ہونے کی شکایت کی جس پر پولیس نے قبرستان کی نگرانی شروع کر دی تھی۔ ملزم ریاض نے ایک خاتون کی قبر کھود کر بے حرمتی کی کوشش کی۔ اس دوران گورگن کے شور مچانے پر ملزم نے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن اہل علاقہ نے اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیاتھا۔