حکومت نے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچانے والی رضاکارنہ ٹیکس اسکیموں کا پتہ لگا لیا
شیئر کریں
حکومت نے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچانے والی رضاکارنہ ٹیکس اسکیموں کا پتہ لگا لیا ہے اور ایف بی آرکے انٹیلی جنس اور انوسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ نے کئی کیسز تحقیقات کیلئے متعلقہ محکموں کے حوالے کردیئے ہیں اور ان پر عید کی تعطیلات کے بعد تحقیقات کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)کے انٹیلی جنس اور انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ نے تاجروں کے لیے ایسی خصوصی رضاکارانہ ٹیکس تعمیل اسکیم کے غلط استعمال کا پتہ لگا لیاہے جن کی وجہ سے حکومتی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے ۔ذرائع کے مطابق سال 2016 میں اس وقت کی حکومت نے ٹی وائی 15 سے ٹی وائی 18 کے لیے ورکنگ سرمایہ پر ٹیکس کی ادائیگی کے لیے تاجروں کے لیے ایک خصوصی اسکیم متعارف کروائی تھی، اس کے علاوہ نان فائلرز اور مخصوص فائلرز کو سہولت پہنچانے کے لیے ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا گیا تھا۔اسکیم کے مطابق تاجروں کو آمدنی کے ظاہر نہیں کیے گئے ذرائع کے ساتھ ساتھ انکم ٹیکس آڈٹ اور تشخیص سے چھوٹ دی گئی، تاہم سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے حوالے سے تاجروں کے لیے کوئی استثنیٰ نہیں تھا۔دوسری جانب انٹیلی جنس اور انوسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ نے اس رضاکارانہ تعمیل اسکیم کے جائزے کے دوران اس کے غلط استعمال کو پایا، مختلف تاجر اس میں موجود تھے لیکن انہیں نے خود کو سیلز ٹیکس ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ نہیں کروایا تھا اور اپنے سیلز ٹیکس واجبات نہیں نکالے تھے ۔اس حوالے سے ایک سینئر ٹیکس عہدیدار نے بتایا کہ مذکورہ اسکیم تاجروں کو آسان طریقے سے ان کے انکم ٹیکم ریٹرن فائلنگ میں صرف سہولت دینے کے لیے تھی اور وہ اس سے فائدہ اٹھانے کے بعد سیلز ٹیکس واجبات ادا کرنے کے پابند تھے ۔انہوں نے بتایا کہ اس عمل کے دوران کراچی سے تعلق رکھنے والے ان تاجروں کی نشادہی ہوئی جنہوں نے اسکیم سے فائدہ اٹھایا لیکن خود کو سیلز ٹیکس ایکٹ کے تحت رجسٹرد نہیں کروایا۔مذکورہ عہدیدار کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے ان کے کیسز کو مزید تحقیقات کے لیے متعلقہ محکموں کو بھیج دیا ہے ۔ڈائریکٹریٹ کی جانب سے کراچی میں لارج ٹیکس پیئر یونٹس کے چیف کمشنرز، (I&II)، کورپوریٹ ریجنل ٹیکس آفس (سی آر ٹی او) اور ریجنل ٹیکس آفسز (II, III) کو معاملے کی مزید تحقیقات کی تجویز بھی دی گئی ہے جبکہ اس اسکیم کے غلط استعمال کرنے والے تاجروں کی شناخت کے لیے جائزے کو ملک کے دیگر حصوں تک بھی بڑھانا چاہیے ۔ واضحرہے کہ اسکیم کو ان تاجروں کے لیے متعارف کروایا گیا تھا 10 برسوں کے تناظر میں 31 دسمبر 2015 تک اپنی آمدنی کا کوئی ریٹرن فائل نہیں کیا تھا۔