سفر یاد (قسط27)
شیئر کریں
شاہد اے خان
اگلے روز خان صاحب نے کالج سے واپسی پرسیدھے کچن کا رخ کیا، کڑک چائے بنائی ہمیں بھی پلائی اور اس بنگالی بھائی کو بھی پلائی جس سے برتن اور چینی پتی ادھار لیے تھے، دودھ ہم بقالے سےلے آئے تھے۔ بنگالی بھائی تو خان صاحب کی چائے کا گرویدہ ہوگیا۔ اس نے چائے کی خوب تعریف کی، خان صاحب نے کہا "مڑا کبھی ہمارے گائوں آکر چائے پیو ایسا چائے پلائے گا کہ ساری زندگی یاد رکھے گا۔”عصر کے بعد خان صاحب نے ہم سے بقالے جانے اور کچن اور کھانا پکانے کے مسالے لانے کی فرمائش کی۔ ہم خان صاحب کی مطلوبہ اشیا ءلے آئے ،جس کے بعد خان صاحب نے ہمیں لے کر کچن کا رخ کیا۔کسی سے بڑی پتیلی پکڑی کسی سے گھی مانگا اور چکن کڑھائی کی تیار ی میں لگ گئے۔خان صاحب کسی ماہر شیف کی طرح اپنے کام میں لگے ہوئے تھے، ہم انہیں چکن کڑھائی بناتا ہوا دیکھ کر سیکھنے کی کوشش کررہے تھے۔ کچن میں موجود دیگر لوگ بھی خان صاحب کی مہارت سے مرعوب نظر آرہے تھے۔چائے والا بنگالی بھائی بھی وہاں موجود تھا اور اپنے لوگوں میں خان صاحب کی چائے کی تعریفیں پھیلا رہا تھا۔ چکن کڑھائی تیار ہوئی تو پورے کچن میں اس کی خوشبوپھیل گئی۔خان صاحب نے چکن کڑھائی ہمارے کیبن میں لے جا کر رکھی اور ہم سے روٹیاں لانے کیلئے کہا ، ہم نے کہا خان صاحب مغرب کی نماز کے لئے جنادریہ جائیں گے تو روٹیاں لے آئیں گے ، واپسی پر کھا لیں گے۔ خان صاحب ناراض ہو گئے ان کا کہنا تھا اتنی دیر میں سالن ٹھنڈا ہو جائے گا۔ہم نے کہا دوبارہ گرم کرلیں گے۔ خان صاحب بولے "مڑا دوبارہ گرم کریں گے تو سالن کا سارا مزہ خراب ہو جائے گا”، پھر بولے” مڑا تم ابی روٹی لے آ¶ مغرب سے پہلے کھا لیتے ہیں "۔ ہم بھاگم بھاگ جنادریہ بازار پہنچے بقالے سے روٹیاں لیں اور دوڑے دوڑے واپس آئے۔ بقالے سے ہم روٹیوں کے ساتھ کولڈ ڈرنک بھی لے آئے تھے۔ اپنے کیبن میں پہنچے تو وہاں رونق لگی ہوئی تھی ، کچن میں موجود تین بنگالی بھائی بھی وہاں موجود تھے۔ ان میں سے ایک چائے والا تھا دوسرا وہ تھا جس سے پتیلی لیکرچکن کڑھائی بنائی گئی تھی۔ تیسرا ان دونوں کے ساتھ لگ کر آگیا تھا۔ ہم تو اپنے حساب سے پانچ روٹیاں لائے تھے ،تین خان صاحب کیلئے اور دو اپنے لیے،کھانے والےمزید تین بندے دیکھے تو ہم پریشان ہو گئے۔خان صاحب کی دریا دلی اپنی جگہ لیکن اگر ہم کو بتا دیتے کہ تین لوگ اور کھانے میں شریک ہوں گے تو ہم روٹیاں زیادہ لے آتے۔اب صورتحال یہ تھی کہ سب لوگ کھانے کے لئے بیٹھ چکے تھے ، ہم نے بھی روٹیاں درمیان میں رکھیں اور خود بھی بیٹھ گئے۔خان صاحب کی مہمان داری کی وجہ سے بے عزتی ہونا یقینی ہو گئی تھی ، خان صاحب نے تو بلا ہاتھ روکے تین روٹیاں کھا لینی تھیں اور باقی دو ہم چار لوگوں کے حصے میں آنی تھیں۔ابھی ہم اسی ادھیڑ بن میں لگے تھے کہ ایک بنگالی بھائی نے اپنے قریب رکھی دیگچی کا ڈھکن ہٹا دیا ، اس میں ابلے ہوئے چاول بھرے ہوئے تھے۔ ہماری جان میں جان آئی ، بنگالی بھائیوں نے جو چاول ابالے تھے وہ ساتھ ہی لے آئے تھے، تینوں بنگالی بھائیوں نے چکن کڑھائی چاولوں پر ڈال کر کھائی۔۔
ہم نے روٹی کے ساتھ چاولوں پر بھی ہاتھ صاف کیا جبکہ خان صاحب نے صرف روٹیاں کھانے میں دلچسپی رکھی۔ مغرب سے پہلے ہم سب شکم سیر ہو کر کھانا کھا چکے تھے۔ خان صاحب نے واقعی بے حد لذید کڑھائی بنائی تھی، مزہ آگیا تھا۔۔ کھانے کے بعد ہم اور خان صاحب نماز کے لئے جنادریہ کی جامع مسجد پہنچے۔نماز پڑھ کر نکلے تو ہم نے حسب سابق گلزار کی دکان کی راہ لی۔ راستے میں یاد آیا ہم نے تو کھانا کھا لیا ہے ، اب گلزار کو کیا کہیں گے ، خان صاحب ساتھ ہی تھے ان سے کہا ہم کو گلزار کیلئے کڑاہی لانی چاہیئے تھی عام طور پر ہم گلزار کے ساتھ ہی رات کا کھانا کھاتے ہیں آج اس کے بغیر کھا لیا ہے وہ کیا سوچے گا۔ خان صاحب نے کہا "مڑا غم نہ کروجاو ابھی تھوڑا سالن بچا ہوا ہے وہ گلزار کیلئے لے آ¶۔”ہم نے خان صاحب سے اتفاق کیا لیکن پہلے گلزار کے پاس پہنچنا ضروری تھا تاکہ وہ کھانا پکانے کی تیاری شروع نہ کردے۔ گلزار کے پاس پہنچے تو خان صاحب کو دیکھ کر اس کا منہ کچھ ا±تر گیا۔گزشتہ روز خان صاحب نے اس کے کھانے کو بدمزہ قرار دے دیا تھا جس کا غالباًاس کو دکھ پہنچا تھا۔ہم نے گلزار سے کہا آج تم سالن نہیں بنا¶ گے ، آج کھانا ہماری طرف سے ہوگا۔ گلزار کا منہ رونے والا ہو گیا۔ کہنے لگا بھائی جان اب میں اتنا برا بھی نہیں پکاتا آپ تو کئی دنوں سے میرے ساتھ ہی کھانا کھا رہے ہو،بہت اچھا بھلے ہی نہ ہوتا ہو اتنا برا بھی نہیں ہوتا ورنہ آپ نے پہلے ہی کہہ دینا تھا۔ ہم نے گلزار کو تسلی دیتے ہوئے کہا بھائی تم بہت اچھا کھانا پکاتے ہو خان صاحب کی طرف سے ہم معافی مانگتے ہیں لیکن آج جو چکن کڑھائی تم کھا¶ گے وہ واقعی لذیز ہوگی تم کو بہت مزہ آئے گا۔ بس تم تھوڑی دیر خان صاحب کو کمپنی دو ہم کیمپ سے ہو کر آتے ہیں۔ہم بھاگم بھاگ کیمپ پہنچے اپنے کیبن داخل ہوئے تو کڑاہی اور چاول دونوں ہی موجود تھے ہم نے پہلے تو سوچا کہ دونوں پتیلیاں اٹھا کر لے جائیں لیکن اتناوزن اٹھا کر لے جانا عذاب محسوس ہوا اس لئے پلاسٹک کی دو تھیلیوں میں کڑاہی اور چاول نکالے اور گلزار کی دکان کی راہ لی۔راستے میں بقالے سے دوروٹیاں اور کولڈ ڈرنک بھی لے لی۔ گلزار نے کڑاہی گرم کی۔ اس کے بعد روٹی اور چاول دونوں کے ساتھ انصاف کیا۔ خوش ذائقہ کھانا کھا کر گلزار کا موڈ بھی خوش گوار ہو چکا تھا ، اس نے خان صاحب کی کڑھائی کی دل بھر کے تعریف کی۔ ہماری فرمائش پر خان صاحب نے اسپیشل چائے بناکر پلائی۔ جنادیہ میں ایک اور دن گزار چکا تھا۔۔ (جاری ہے)
٭٭