ڈاکٹر عبدالقدیر کیس، حکومت کی ان کیمرا سماعت کی استدعا مسترد
شیئر کریں
سپریم کورٹ نے ملک کے معروف جوہری سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی جانب سے ان کی نقل و حرکت پر پابندی کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر حکومت کی ان کیمرا سماعت کی استدعا کو سپریم کورٹ نے مسترد کردیا جبکہ سپریم کورٹ نے سفری پابندیوں سے متعلق کیس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو عدالت آنے کی اجازت بھی دے دی۔منگل کو عدالت عظمیٰ میں سفری پابندیوں کے خلاف ڈاکٹرعبدالقدیر خان کی درخواست پر جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سماعت کی۔دوران سماعت جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ ہم نے ڈاکٹر صاحب سے ایٹم بم کا فارمولہ نہیں پوچھنا، وکلا کی ذمہ داری ہے کہ قوم کے ہیرو کا تمسخر نہ بنائیں۔جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے حقوق کو غیر مناسب فورمز پر لے جا کر کیوں اپنا حق ضائع کر رہے ہیں؟سماعت کے آغاز پر ڈاکٹرعبدالقدیرخان کے وکیل نے دلائل دیے کہ ان کے موکل کو آج عدالت نہیں آنے دیا گیا، ان کا کہنا تھا کہ عدالت آنا ان کے موکل کا بنیادی حق ہے ۔وفاقی حکومت کے وکیل احمر بلال صوفی کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے عدالت آنے سے مسائل ہوں گے ۔انہوں نے کہا کہ بہتر ہے عدالت ان کیمرا سماعت رکھ لے جس پر جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ ایسی کوئی وجہ نہیں کہ سماعت ان کیمرا کی جائے ۔جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے ریمارکس دیے کہ ڈاکٹر عبدالقدیرخان کی قوم کے لیے خدمات کو تسلیم کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے فریقین کی رضامندی سے 2009 میں فیصلہ دیا، جسے 10 سال تک کہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔انہوںنے کہاکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اب لاہور ہائی کورٹ میں نئی درخواست دائر کردی، اگر سپریم کورٹ معاملے میں براہ راست مداخلت کرے تو کیا یہ مناسب ہو گا؟انہوں نے استفسار کیا کہ عدالت کو مطمئن کیا جائے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اسلام آباد ہائیکورٹ دوبارہ کیوں نہیں گئے ؟اس پر ڈاکٹر عبدالقدیرخان کے وکیل نے کہا کہ بنیادی حقوق کے معاملے میں سپریم کورٹ براہ راست مداخلت کر سکتی ہے ۔جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ عدالت سے غیر مناسب حکم کے لیے اصرار نہ کریں، درخواست پر اپنے موکل سے مشاورت کر کے مؤقف بتا دیں۔بعد ازاں عدالت نے درخواست پر سماعت 13 مئی تک کے لیے ملتوی کردی۔خیال رہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ملک بھر میں آزادانہ نقل و حرکت سمیت ان کے بنیادی حقوق پر عمل درآمد کے لیے 23 دسمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا تھا۔