وزیر اعظم کی ڈاکٹر عبدالسلام پر اچانک نوازش ،سوالیہ نشان ؟
شیئر کریں
اسرار بخاری
کیا تغیرات ہے زمانے کے، وہ ہود بھائی جس نے اسلام آباد میں ڈاکٹر قدیر کی قبر بنا کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا وہ خود اپنے بقول اس پروگرام کی بنیاد رکھنے والے ڈاکٹر عبدالسلام کی حمایت میں رطب اللسان ہے۔ انگریزی اخبار پاکستان آبزرور کے چیف ایڈیٹر زاہد ملک مرحوم نے اپنی کتاب میں سابق وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان کے حوالے سے یہ انکشاف کیا تھا کہ امریکی وزارت خارجہ میں اس وقت کے امریکی حکام نے ان سے شدید رد عمل کا مظاہرہ اس بات پر کیا کہ پاکستان ایٹم بم بنا رہا ہے جسے اسلامی ایٹم بم کا نام دیا گیا ۔ (یہ اسلام سے پرخاش کا برہنہ مظاہرہ ہے ۔ورنہ امریکی ایٹم بم کو عیسائی ایٹم بم ، بھارتی ایٹم بم کو ہندو ایٹم بم اور اسرائیلی ایٹم بم کو یہودی ایٹم بم کا نام نہیں دیا جاتا )۔بہرحال صاحبزادہ یعقوب خان نے جب اس سے انکار کیا تو ایک یہودی آفیسر انہیں ایک کمرے میں لے گیا ، جہاں ایک ایٹم بم کا ماڈل رکھا تھا اور اس کی طرف اشارہ کرکے ان سے کہا یہ ثبوت ہے کہ پاکستان یہ بم بنارہا ہے، صاحبزادہ یعقوب کے بقول جب وہ اس کمرے سے واپس آرہے تھے تو ڈاکٹر عبدالسلام اس کمرے میں داخل ہورہے تھے ۔ اسی طرح کی ایک بات سابق سیکرٹری خارجہ نیاز اے نائیک سے بھی منسوب ہے، صاحبزادہ یعقوب خان کے حوالے سے بیان کو ڈاکٹر نیّر اور ہود بھائی نے جھوٹ قرار دیا اور دعوی کیا کہ ایک محفل جس میں ہود بھائی ،ڈاکٹر مبشر حسن ، ڈاکٹر ریاض الدین اور وہ خود موجود تھے ،صاحبزادہ یعقوب خان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس بات کو غلط قرار دیا ۔ صاحبزادہ یعقوب خان سے بالمشافہ استفسار کا مطلب ہے کہ ان سے منسوب بات ان کی زندگی میں طشت از بام ہوچکی تھی مگر کیا اس پر تعجب نہ ہونا چاہیے کہ خود سے منسوب اتنی بڑی بات کی تردید انہوں نے ایک خاص محفل میں چند افراد کے سامنے کی مگر انہوں نے نہ زاہد ملک کو اس حوالے سے کوئی تردید ی بیان بھیجا نہ ہی ڈاکٹر قدیر خان سے رابطہ کرکے ان سے استفسار کیا کہ حضور میرے حوالے سے یہ بات آپ کو کس نے بتائی ہے ۔ اگر ان کے انتقال کے بعد یہ بات منظر عام پرآتی تو مشکوک یا متنازع ٹھہرائی جاسکتی تھی ۔ویسے اگر ہود بھائی کی اس بات کو تسلیم کرلیا جائے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جن سائنسدانوں سے ایٹم بم بنانے کی خواہش کا اظہار کیا ان میں ڈاکٹر عبدالسلام بھی شامل تھے بلکہ اس سلسلے میں ان ہی کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جس نے ایٹم بن بنانے کی ابتدا ئی تیاریوں میں حصہ لیا تو پھر واضح ہوجاتا ہے کہ امریکیوں کو اس سلسلے میں مخبر ی کون کرسکتا ہے؟
یہ سوال بہت توجہ طلب ہے کہ ایسے لمحات میں جب پاناما لیکس اور ڈان لیکس کے حوالے سے وزیر اعظم اور ان کے بچے الزامات کے کٹہرے میں ہیں، ان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے پوری قوم بے یقینی کا شکارہے اور ربیع الاول کے مہینے میں ختم نبوت کے منکرین کے حوالے سے قوم ایک خاص جذباتی کیفیت میں ہے ،وزیراعظم نوازشریف کو کیا سوجھی کہ ایک متنازع شخص کو نوازنے پر تل گئے اور اس کی حمایت میں میڈیا میں باقاعدہ ایک مہم چلائی جارہی ہے۔ ممکنہ طور پر اس کے پس پشت یہ مقاصد ہوسکتے ہیں کہ پاناما کیس کے حوالے سے وزیراعظم کے لیے ناسازگارفضا عوامی سطح پر بن چکی ہے جسے ایک متنازع شخص کے حوالے سے ردعمل اور جوابی ردعمل کی گرد اڑا کر نگاہوں سے اوجھل کردیا جائے ، دوسرا مقصد یہ ہوسکتا ہے کہ جس طرح امریکیوں کے لیے بالخصوص حکمران یا اشرافیہ کے لیے یہودی سب سے زیادہ پسند یدہ لوگ ہیں یہودیوں کے لیے غیر عیسائیوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ قادیانی ہیں۔ امریکا اور برطانیا پر ان دونوں کا اثرورسوخ ظاہرو باہر ہے اور یہ دونوں اقوام خوش ہوکر پاناما لیکس کیس میں مدد گا ر ثابت ہوں ۔ یہ بہرحال بعض حلقوں کی جانب سے اٹھائے گئے سوال پر مبنی قیاس آرائی ہے ، جو اعتبار اور نا اعتباری کے درمیان معلق ہوتی ہے ، لیکن یہ سوال بدستور جواب طلب ہے کہ آخر وزیراعظم کو ایک متنازع شخص کی عزت افزائی کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
یہ دعوی کیا گیا کہ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دئیے جانے پر دلبرداشتہ ضرور ہوئے مگر وہ محب وطن پاکستانی ہیں اور پاکستان کے لیے خیرخواہی کے جذبات رکھتے ہیں۔ پاکستانی عیسائی ، ہندو، سکھ ،اور پارس کی طرح ایک قادیانی بھی پاکستان کا خیرخواہ ہوسکتا ہے ، خیرخواہی ناپنے کا کوئی آلہ تاحال ایجاد نہیں ہوا کسی انسان کے اعمال و افکارسے ہی اس سلسلے میں کوئی رائے قائم کی جاسکتی ہے جہاں تک ڈاکٹر عبدالسلام کا تعلق ہے ان کا طرز عمل ان کی حب الوطنی کی توثیق کرتا نظر نہیں آرہا مثلا ڈاکٹر عبدالسلام نے اپنی ایک تحریر میں پاکستان کو” لعنتی ملک “قرار دیا اور اعلان کیا کہ جب تک قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دئیے جانے والی آئینی ترمیم واپس نہیں لی جائے گی وہ پاکستان میں قدم نہیں رکھیں گے ۔ کہا جاتا ہے کہ اس تحریر سے نا خوش ہوکر بطور وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے ان سے ملنے سے انکار کردیا تھا ۔ سابق وزیر مملکت برائے اطلاعات جاوید جبار نے اسے غلط قرار دیا جبکہ ڈان میں ہود بھائی کے حوالے سے یہ ا سٹوری شائع ہوئی کہ ڈاکٹر عبدالسلام دو دن تک میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں منتظر رہے مگر بے نظیر بھٹو نے ملاقات کا وقت نہیں دیا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جاوید جبار نے اس واقعہ کو غلط قرار دیا جبکہ یہ واقعہ جس ہود بھائی سے منسوب کیا گیا ہے وہ اسے درست قرار دے رہے ہیں ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں عیسائی ، ہندو، سکھ یا دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد ایک لمحے کے لیے بھی جان اور مال کے خوف کی زندگی بسر نہیںکررہے ہیں ۔ خود قادیانیوں پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے ،بیوروکریسی میں پولیس میں اور دیگر شعبوں میں بڑی تعداد میں قادیانی ہیں جنہوں نے اپنی قادیانی شناخت کو پوشیدہ نہیں رکھا ہواہے ، شعبہ صحافت بھی ان سے خالی نہیں ہے، اخبار نویس ساتھی بابر تو کھل کرکہتے ہیں، میں تو پیدا ہی قادیان میں ہوا ہوں ،معروف مصنف اور صحافی قمراجنالوی روزنامہ مغربی پاکستان میں اداریہ نویس تھے۔ انگریزی اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ سے بھی وابستہ رہے اور دیگر کئی نام لیے جاسکتے ہیں ان سب کے لیے پاکستان میں رہنا کبھی بھی جانے انجانے خوف و خطر کا باعث نہیں رہا ، ڈاکٹر عبدالسلام نے خود ہی اس” لعنتی ملک “سے ناطہ توڑا ہے۔ وہ پاکستان کے آئین سے وفاداری کا عملی ثبوت دیکر جب چاہیں پاکستان میں آکر آباد ہوسکتے ہیں دوسرے قادیانیوں کی طرح انہیں معاندانہ یا غیر دوستانہ صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
٭٭