کورونا وائرس کے افغان اَمن معاہدہ پر ممکنہ اثرات
شیئر کریں
کورونا وائرس نے نہ صرف دنیا کے ہر شعبہ حیات کو متاثر کیا بلکہ عالمی سیاست کو بھی ایسے بیچ چوراہے میں لا کھڑا کیا ہے جہاں سے اَب بین الاقوامی سیاست کے برزچمہروں کو اپنی ترجیحات اور ترغیبات کا ازسرِ نو تعین کرنا پڑے گا۔ایسے تبدیل شدہ حالا ت میں ایک فطری سا سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ کورونا وائرس مستقبل میں افغان امن معاہدہ پر کس طرح سے اثرا انداز ہوگا؟کیونکہ کورونا وائرس کی دنیا میں آمد سے قبل عالمی ذرائع ابلاغ میں سب سے بڑی اور نمایاں خبر افغان اَمن معاہدہ اور اُس پر ہونے والی پیش رفت ہی ہوا کرتی تھی مگر کوروناوائرس نے امریکی انتخابات سمیت افغان اَمن معاہدہ کو بھی تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی بہرحال ’’سیاسی قالین ‘‘ کے نیچے سر چھپانے پر ضرور مجبور کردیاہے۔ گزشتہ ایک ماہ سے تو دنیا یہ بھی فراموش کر بیٹھی کہ افغان اَمن معاہدہ نامی دستاویز بھی دنیا کے اَمن کے لیے ہی کہیں لکھ کر رکھی گئی تھی، جس پر عمل درآمد بھی اُتنا ہی ضروری تھاجتنا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اگلے امریکی انتخابات جیتنا۔ کورونا وائرس کے امریکا میں نزول کے بعد عالمی سیاست میں کئی ترجیحات کی ساری ترتیب یکسر اُلٹ پلٹ گئی ہے جو یقینا امریکی پالیسی سازوں کے لیے باعثِ تشویش ہے ۔ کورونا وائرس نے امریکی نظام ہائے حکومت پر زبردست کاری ضرب لگائی ہے ،جس کی شدت کا اندازہ امریکی انتظامیہ کے ہر عہدیدار کے چہرے اور بیانات سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔
حال ہی میں امریکی ذرائع ابلاغ نے بعض سرکاری اہلکاروں کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیشِ نظر افغانستان سے امریکی فوج کا جلد ازجلد انخلا چاہتے ہیں۔ امریکی میڈیا میں افشا ہونے والی اِس خفیہ اور حساس رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ تقریباً روزانہ ہی اپنے مشیروں سے افغانستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیشِ نظر امریکی فوج کی حفاظت کے حوالے سے شدید فکر مندی کا اظہار کر رہے ہیں اور کورونا کے پھیلاؤ کو افغانستان میں موجود امریکی فوج کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔اگر بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ تشویش کچھ اتنی بے جا بھی نہیں ہے کیونکہ سب ہی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ برس ہا برس سے خانہ جنگی سے بدحال افغانستان میں طبی اداروں کی انتظامی صورت حال کس قدر مخدوش ہے ۔جبکہ کورونا وائرس ایک ایسا مہلک وبائی مرض ہے ،جس سے نمٹنے کے لیے امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک کے طبی وسائل اور استعداد کار بھی کم پڑرہی ہے۔ ایسے میں اگر افغانستان میں موجود امریکی افواج کورونا وائرس کا شکار ہوجاتی ہے تو شاید پھر ایک بھی امریکی فوجی کا صحیح سلامت واپس امریکا پہنچ جانا ناممکن ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اِس بات کابھی بہت خوب ادراک رکھتے ہیں کہ اگر افغانستان میں امریکی افواج کی کورونا وائرس کے باعث ہلاکتیں ہوتی ہیں تو اُس کا بھی براہ ِ راست الزام امریکی ذرائع ابلاغ کی جانب سے اُن کے سر ہی تھوپا جائے گا۔ یعنی ایک طرف امریکا میں کورونا وائرس کی ہلاکت خیزی تھمنے کا نا م نہیں لے رہی اور دوسری طرف امریکی انتخابات بھی سر پر آپہنچے ہیں ۔اِن حالات میں افغانستان میں موجود امریکی افواج کی کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی خبریں بھی امریکی میڈیا کی زینت بننا شروع ہوگئیں تو اگلے امریکی انتخابات کے نتائج ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ایک بھیانک خواب بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔
یہ ہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکا اور طالبان کے درمیان رواں سال فروری میں طے پانے والے امن معاہدے پر عمل درآمد میں سست روی پر اپنے مشیروں کے سامنے باربار سخت تشویش کا اظہار کر رہے ہیں،جب کہ کابل کے حالیہ سیاسی تنازع کی وجہ سے بھی صدر ٹرمپ کو شدید مایوسی ہوئی ہے۔ کیونکہ صدر ٹرمپ کو توقع تھی کہ امریکا، طالبان معاہدے سے وہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے سے متعلق 2016 کے صدارتی انتخابی وعدے کو وہ سال2019 کے اختتام سے قبل ہی پورا کردیں گے۔مگر افغانستان میں صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان گزشتہ سال ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج سے متعلق اختلافات، طالبان کی طرف سے تشدد کی کارروائیوں میں اضافے اور افغانستان کے مختلف علاقوں میں کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے افغان امن عمل میں تعطل نے امریکی افواج کے انخلا کو تاخیر سے دوچار کردیاہے۔یادر ہے کہ امریکا، طالبان معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ معاہدے کے 135 دنوں میں افغانستان میں تعینات 13 ہزار امریکی اور اتحادی فوج کی تعداد 8600 کر دی جائے گی جبکہ 14 ماہ کے دوران تمام فورسز کا انخلا مکمل ہو جائے گا۔مگر کورونا وائرس کے بعد تیزی سے بدلنے والے حالات کے باعث عین ممکن ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس مقررہ مدت سے پہلے ہی افغانستان میں موجود اپنی افواج نکالنے کا بڑا اقدام اُٹھا لیں۔کیونکہ یہ بات بین الاقومی سیاست کے ماہرین بھی مانتے ہیں کہ افغانستان میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات اور اس صورتِ حال میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ افغانستان سے امریکی فوج کے جلد انخلا کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔
لیکن دوسری جانب یہ بھی ایک بدیہی حقیقت ہے کہ بعض امریکی حکام بالکل بھی نہیں چاہتے کہ امریکا افغانستان سے اپنی افواج کورونا وائرس کے خوف کا شکار ہوکر اچانک سے نکال لے ۔اِن کی جانب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بار بار بتایا اور سمجھایا جارہا ہے کہ اگر کورونا وائرس کی بنیاد پر ہی افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا کرنا مقصود ہے تو پھر اٹلی جیسے ملک سے بھی امریکی فوج واپس بلانا پڑے گی جہاں اِس وبا نے زیادہ شدت سے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔مگر اِس بات کے واضح اشارے ہیں کہ یہ حکام ابھی تک صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی بات پر قائل نہیں کرسکیں ہیں ۔ کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان اور اٹلی سے امریکی افواج کے انخلاء کے مسئلہ کودرحقیقت کورونا وائرس کے بجائے رواں برس منعقد ہونے والے امریکی انتخابات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور چونکہ اِس بار کے امریکی انتخابات میں اِن کا بنیادی نعرہ ہی ’’افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء ‘‘ہے ۔لہٰذا صدر ڈونلڈ ٹرمپ جتنی جلد ممکن ہوسکے افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی چاہتے ہیں اور اِس پہلے کہ کورونا وائرس اِن کے بنائے گئے انتخابی ماحول کو مزید خراب کرنے کی کوشش کرے،غالب امکان یہ ہی ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر کسی بھی وقت افغانستان سے تمام امریکی افواج واپس بلالیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔