دعا یاد ہے؟
شیئر کریں
دوستو،بچپن میں ہمیں قاری صاحب مار مار کر دعائیں یاد کراتے تھے۔۔ آج کل اسلامی طرز کے جدید اسکولوں میں بھی جہاں بچوں کو حفاظ بنایاجاتا ہے وہیں انہیں کھانے،پینے، سونے،گھرسے نکلنے، واش روم میں جانے، شیشہ دیکھنے،روزمرہ زندگی میں جگہ جگہ کام آنے والی دعائیں سکھائی جاتی ہیں۔۔یہ ایک اچھی بات ہے۔۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ دعا ”ناممکن“ کو بھی ”ممکن“ بناسکتی ہے۔۔ دعاؤں میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ لوگ اس کے لیے مزارات کا رخ کرتے ہیں، بابوں،بزرگوں کے پاس جاتے ہیں۔کچھ تودعاؤں کی قبولیت کے لیے ”منت“ بھی مان لیتے ہیں۔۔ یہ ایک بڑا دلچسپ الگ موضوع ہے، جس پر اور کسی دن اوٹ پٹانگ باتیں کریں گے۔۔ فی الحال تو دعا کریں، ہمارے ملک سے کورونا وائر س کی وبا کا خاتمہ ہو تاکہ رمضان المبارک سے قبل مساجد آباد ہوسکیں۔۔
سفر کی بھی دعا ہوتی ہے،اسی لیے سفر شروع کرتے وقت بیوی نے شوہر سے پوچھا۔۔سنیئے، کیا آپ کو دْعا یاد ہے؟شوہر جو شاید کسی گہری سوچ میں گم تھاجلدی سے بولا۔۔ ہاں،ہاں۔۔وہی پتلی سی، کالی آنکھوں والی، لمبے بالوں والی، خوبصورت سی، 41 نمبر فلیٹ میں رہتی ہے۔ وہی ناں؟۔۔بس پھر شوہر کے ساتھ پھر جوہوا،اس بیچارے نے بیوی کے قہر و غضب سے بچنے کے لیے جتنی دعائیں یاد تھیں،سب زیرلب دہرا دیں لیکن پھر بھی تین دن بیڈ کا محتاج رہا۔۔ویسے یہ بات اپنی جگہ وزن رکھتی ہے کہ۔۔اسلام میں فرقوں کا آپسی اختلاف اپنی جگہ مگر70 حوروں والی بات پر سبھی متفق ہیں۔۔یہ بات بھی سوفیصد حقیقت پر مبنی ہے کہ،کسی بھی عورت کے نزدیک دنیا کی سب سے ”ہائی جینک“ چیز اس کا دوپٹہ ہوتا ہے، وہ دھلی ہوئی پلیٹ میں بھی احتیاطاً دوپٹہ پھیر لیتی ہے،جبکہ چمچ کو تو اپنے انگوٹھے سے بھی پاک کر لیتی ہے، اصل میں صفائی کا رجحان اللہ پاک نے عورت کی مٹی میں گوندھ رکھا ہے۔۔اور یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ۔۔آپ چاہے صرف آدھا کلو دودھ ابالنے کے لیے ایک گھنٹہ چولہے کے پاس مظلوموں کی طرح کھڑے رہیں،مجال ہے کہ دودھ کبھی ابلنے کا نام لے گا،مگر جیسے ہی آپ صرف چند سیکنڈ کے لیے کچن سے باہر دفع ہوں گے، دودھ کی ندیاں بہہ جائیں گی اور عزت کی سلامی الگ۔۔باباجی فرماتے ہیں۔۔ تاریخ گواہ ہے، پاکستانی عورتیں مہمانوں کے لیے ہمیشہ وہی گلاس خریدتی ہیں جس میں پیپسی کم آتی ہو۔۔ دکاندار عورت کو کپڑے دکھا دکھا کر تھک گیا اور تھک کر بولا۔۔مجھے افسوس ہے آپ کو کوئی کپڑا پسند نہیں آیا۔۔عورت بڑی معصومیت سے کہنے لگی۔۔ کوئی بات نہیں میں ویسے بھی سبزی لینے آئی تھی۔۔
کیا ایسا ممکن ہے کسی کی دعا کسی کے لیے بددعا بن جائے؟ ہمارے اس سوال کو سوچئے گا ضرور۔۔ اس دوران ایک قصہ سن لیں۔۔ ایک دفعہ کا ذکر تین دوست اکٹھے ایک کارمیں بیٹھے کہیں جارہے تھے کہ اچانک ایک حادثہ ہوا اور کار تباہ ہوگئی،تینوں دوست موقع پر ہی چل بسے۔۔انہیں جنت سے پہلے ایک عارضی مقام میں الگ تھلک (شاید وہاں کا قرنطینہ ہوگا) رکھاگیا۔وہ بہت چیخے چلائے کہ ہم نے تو دنیا میں کچھ نہیں دیکھا،ہماری تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی تھی کہ موت آگئی،اس پوائنٹ پر زور دیتے ہوئے انہوں نے ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کرڈالا کہ چونکہ دنیا میں ہماری شادی نہیں ہوسکی تھی اس لیے ہمیں تمام تر سہولیات کے ساتھ ساتھ حوریں بھی دی جائیں۔۔ کہاگیا۔۔ٹھیک ہے،لیکن آپ کو ایک آزمائش سے گذرنا پڑے گا۔ پھر آپ کی شادی حوروں سے کردی جائے گی۔۔انہیں ایک تاریک کمرے میں اکٹھا رکھا گیا۔ جہاں مکمل اندھیرا تھا۔ اور بتایا گیا کہ یہاں ایک ماہ تک رہنا ہے۔ یہیں سب کچھ کھانا پینا، سونا جاگنا ہوگا۔ اور کمرے میں جگہ جگہ پاپڑ رکھے گئے ہیں ان سے بچنا ہے کہ پاؤں کے نیچے نہ آجائے۔ جس کا پاؤں پا پڑ پر آگیا۔ اسکی شادی بدروح سے کردی جائے گی۔اب تو جناب،تمام دوست اس آزمائش سے صحیح سلامت گذرنے کے لیے مکمل احتیاط سے رہنے لگے۔نودن تو خیریت سے گزرگئے،دسویں دن ایک دوست کا پیر پاپڑ پر آگیا، فرشتے فوری سے کمرے سے نکال کر لے گئے اور اس کی شادی بدروح سے کردی۔۔اب دو دوست خوش ہوئے کہ جگہ کھلی ہو گئی ہے۔ بیسویں دن ایک اور دوست کا پاوں پاپڑ پر آگیا،فرشتے اسے بھی روتا دھوتا لے گئے۔۔اب تیسرا اکیلا رہ گیا۔ اس نے باقی دن خیریت سے گذار لیے۔۔آزمائش پوری ہونے پر اسکی شادی ایک حور سے کردی گئی اور وہ خوشی خوشی رہنے لگا۔۔ایک دن اس نے اپنی حور بیوی سے پوچھا۔۔تمہیں پتہ ہے میں نے تمہیں حاصل کرنے کے لیے کتنی تکلیف دہ آزمائش سے گزارا ہے خود کو۔۔اس کے ”بیگم پاک“ کو مکمل تفصیل سمجھائی۔۔ساری تفصیل سمجھانے کے بعد بیگم پاک سے سوال کیا، اچھا تم بتاؤ،تم نے مجھے حاصل کرنے کے لیے کیا کیا؟؟۔۔بیگم پاک نے ٹھنڈی سانس لی اور بڑی معصومیت سے بولی۔۔ہم بھی تین سہلیاں ایک کمرے میں بند تھیں،پھر ایک دن میرا پیر پاپڑپرآگیا۔۔
دنیا میں یا اپنے آس پاس کسی بھی کنوارے لڑکے سے سوال پوچھیں کہ آپ کو کیسی بیوی چاہیئے؟ جواب ملے گا، پرفیکٹ بیوی۔۔ باباجی فرماندے نے۔۔ پرفیکٹ بیوی کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ نہ تو جھوٹ بولتی ہے، نہ تنگ کرتی ہے، نہ شک کرتی ہے، نہ بے جا فرمائش کرتی ہے۔۔اور نہ ہی اس دنیا میں پائی جاتی ہے۔۔ہماری روزانہ رات کی بیٹھک باباجی کا ڈرائنگ روم ہے۔۔ عشاکی نماز کے بعد رات کے ایک دو بجے تک ہم وہاں بیٹھے ہوتے ہیں، کبھی کوئی فلم دیکھ لی، کوئی ڈرامہ دیکھ لیا۔دن بھر کا حال احوال ایک دوسرے کو سنایا، کچھ ہنسنے ہنسانے والی باتیں کیں۔۔ یہ سلسلہ ویسے تو برسوں سے جاری ہے،پہلے ہفتے میں ایک آدھ بار بیٹھک لگتی تھی،اب چونکہ قرنطینہ ہے اس لیے روز ہی مل بیٹھتے ہیں، برسوں کے اس تعلقات میں ہم نے کبھی باباجی اوران کی زوجہ ماجدہ میں کبھی جھگڑا ہوتے دیکھا نہ کبھی سنا۔۔ ایک روز ہم نے ٹھان ہی لیا کہ اس سے متعلق باباجی سے ضرور سوال کریں گے۔۔پھر جب موقع ملا اور ہم نے سوال داغا تو باباجی نے جیب سے سگریٹ نکال کر سلگائی پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگے۔۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہماری نئی نئی شادی ہوئی تھی، زوجہ ماجدہ پہلی بار کھا نا بنانے کے لیے باورچی خانہ میں گئی ہوئیں تھیں۔۔اچانک مجھے خیال آیا، روٹی بیلنے والا چکلا بالکل بھی آواز نہیں کر رہا ہے، مگر یہ کیسے ممکن ہے؟اِس کی تینوں ٹانگیں سلیب پر ٹکتی ہی نہیں تھیں، اس کی ایک ٹانگ چھوٹی ہونے کی وجہ سے کھٹ پٹ ہوتی رہتی تھی، اور جیسے ہی میں کچن میں گیا تو دیکھا۔۔میری بیوی بڑے آرام سے روٹی بیل رہی تھی اور چکلے کی تینوں ٹانگیں الگ پڑی ہوئی تھیں، میں نے پوچھا یہ تم نے کیا کر دیا۔۔زوجہ ماجدہ نے میری جانب مڑے بغیر روٹی بیلتے ہوئے کہا۔۔ کچھ نہیں، یہ کچھ زیادہ ہی کھٹ پٹ کر رہا تھا تو میں نے اسکی تینوں ہی ٹانگیں توڑ دیں ” میرا یہی اسٹائل ہے۔۔ زوجہ ماجدہ کا یہ اسٹائل دیکھ کر مجھے بھی، کبھی کھٹ پٹ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔۔
اور اب وقت ہوا ہے چلتے چلتے آخری بات کا۔۔ لیکن آج ہم آخری بات نہیں کریں گے بلکہ مشورہ دیں گے۔۔اگر شوہر بیوی میں جھگڑا ہوجائے اور بیوی چلائے تو شوہر کو چاہیے کہ جوتا اٹھائے اور۔۔۔ عزت کے ساتھ گھر سے نکل جائے۔۔جو آپ سمجھے تھے اس کے لیے بہت ہمت چاہیے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔