آہ! احفاظ الرحمان: تمہاری جنگ جاری رہے گی
شیئر کریں
گزشتہ روز ممتاز صحافی احفاظ الرحمان جو کہ ایک عرصہ سے علیل تھے انکے انتقال کی بنا پر پاکستان کی صحافتی تاریخ کا ایک روشن ستارہ بجھ گیا۔ ان کی موت پر نہ صرف صحافی بلکہ ملک کے ادیب،شاعر،دانشور، ماہرین تعلیم اور سیاسی شخصیات بھی افسردہ ہیں۔ وہ ایک سچا اور کھرا انسان دوست مصنف،محقق،شاعر،دانشور اور صحافی ہی نہیں تھا بلکہ وہ اس ملک کے مزدوروں،کسانوں،طلبہ اوردیگر محروم طبقات پر ہونے والے ظلم وستم،ان کے بنیادی حقوق کی پامالی اور سماجی انصاف یوں کے خلاف ایک موثر آواز تھا اور ان کے حقوق کے حصول کے لیے شروع کی جانے والی جہدجہد میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ اس نے ہمیشہ اخباری صنعت سے وابستہ صحافیوں،عامل کارکنوں اور ایڈیٹرز کی جبری برطرفیوں اور حکومتی کی غلط پالیسیوں پر تنقید کی وجہ سے ہونے والی گرفتاریوں کے خلاف اپنی آواز اٹھائی، سول حکومتیں ہوں یا آمرانہ دور حکومت، وہ ظلم اور ناانصافیوں کے خلاف چلائی جانے والی تمام تحریکوں میں پیش پیش رہتا تھا اور گرفتار ی پیش کرنے سے قطعی نہیں گھبراتا تھا۔احفاظ الرحمان صحافتی تنظیموں کی جانب سے شروع کیے جانے والے احتجاجی مظاہروں میں سب سے آگے ہوتے تھے اور پولیس کے تشدد کا سامنا کرنے اور گرفتاری دینے میں بھی پہل کرتے تھے۔وہ نہ صرف پاکستان کے صحافیوں اور ملک کے دیگر مظلوم طبقوں کی آواز تھے بلکہ عالمی سامرج،نوآبادیاتی نظام اور ایشیائی،افریقی اور لاطینی امریکہ کے غریب اور پسماندہ ممالک کے خلاف ہونے والی زیادتیوں اور ان پر آمرانہ حکومتیں مسلط کرنے کی پالیسیوں کے خلاف بھی خاموش نہیں رہتے تھے۔انکی تحریر اور شاعری انسان کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجوڑ دینے کے لیے کافی ہوتی تھیں اور لوگوں کو اپنی جدوجہد آگے بڑھانے فلسفہ بھی دیتے تھے۔انہوں نے سینکڑوں کی تعداد میں مضامین لکھے،دنیا کے عظیم سیاستدانوں پر لکھی جانے کتابوں کے ترجمے کیے،بے شمار نظمیں کہی اور اپنی کتابیں لکھیں اور اپنے کروڑوں قارئین کو متاثر کیا اور ان کو ہمیشہ ظلم و ناانصافیوں کے خلاف ڈٹ جانے کا پیغام دیا۔
احفاظ الرحمان سے میرا تعلق 1974 میں قائم ہوا جب وہ گلشن اقبال میں اپنا گھر تعمیر کررہے تھے،بجلی کے محکمہ میں افسر تعلقات عامہ ہونے کی بنا پر انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ بجلی کا کنکشن چاہیے لیکن ایک ٹکا بھی رشوت نہیں دونگا،میں نے کبھی بھی کسی محکمہ کو اپنے کام کے لیے ہر گز رشوت نہیں دی ہے چاہے اس کے لیے مجھے کتنی ہی پریشانی کیوں نہ اٹھانی پڑے میں کرپٹ افراد کے سامنے ہرگز سرنڈر نہیں کرتا ہوں۔اس کے بعد کراچی پریس کلب کا ممبر ہونے کے بنا پر لنچ کے وقت ان سے اکثر ملاقات رہتی تھی،ان دنوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کا پرجوش حامی ہوا کرتا تھا،احفاط کی ایک خوبی یہ تھی کہ اسے جوبات بری لگتی تھی اس کا وہ برملا اظہار کردیتا تھا اور اس سلسلے میں وہ دوستی اور تعلقات کا بھی کوئی خیال نہیں کرتا تھا۔چنا نچہ جب کبھی میں حکو مت کے کسی اقدام کی تعریف کرتا تو وہ اس وقت کے وزیروں اور مشیروں کی کرپشن،بدعنوانیوں اور ان کی عوام دشمن پالیسیوں کو اس طرح بے نقاب کرتا تھاکہ کہ میرے ہوش ٹھکانے پر آجاتے تھے اور مجھے بعد میں احساس ہوتا تھا کہ اس کی باتیں بالکل درست تھی۔یہ وہ دور تھا جب احفاظ الرحمان پاکستان فیڈریشن آف یونین آف جرنلسٹ(پی ایف یوجے) کے سرگرم رکن ہوتے تھے اور اس کے مرکزی قائیدین مرحوم منہاج برنا اور نثار عشمانی کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیے جاتے تھے اور پی ایف یو جے کو درپیش ہر مسلہ پر ان کی رائے ضروری لی جاتی یھی۔جس دن احفاظ کو پریس کلب لنچ پر آنا ہوتا تھا اس دن پی ایف یو جے کے صدر منہاج برنااس وقت تک کھانا شروع نہ کرتے تھے جب تک احفاظ نہ آجائیں۔بعد ازاں وہ خود بھی پی ایف یوجے کے صدر بھی منتخب ہوئے لیکن جب منہاج برنا کا انتقال ہوگیا اور ان کی تنظیم مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تو انہوں نے کنارہ کشی اختیار کرلی اور خاموش تماشائی بننے پر مجبور ہوگئے تھے۔
ٓٓ احفاظ الرحمان بائیں بازو کے ترقی پسند سوچ کے رہنما تھے زمانہ طالب علمی میں انہوں نے نیشنل اسٹوڈینٹس فیڈریشن کے کا کیا لیکن عملی زندگی میں داخل ہونے کے بعد انہوں نے کسی سیاسی جماعت کی رکنیت نہیں لی، بائیں بازو سے تعلق کے باوجود دائیں بازہ کی سیاسی جماعتوں میں ان کی بڑی عزت و تکریم تھی اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ سچ کا ساتھ دیتے ہیں،منافقت سے انھیں شدید نفرت تھی اور ظلم چاہے کسی کے بھی ساتھ ہو وہ اس کا ساتھ دیتے تھے اور انتقامی کاروائی سے ہمیشہ گریز کرتے تھے۔صحافت کے پیشہ سے وابستگی کے بعد آزادی صحافت کی جدوجہد کو اپنی سرگرمیوں کو اپنی زندگی کا محور بنا لیا تھا اور حکومت کی جانب سے پریس کو کچلنے کے لیے بنائے جانے والے سیاہ قوانین پر کھل کر تنقید کرتے تھے اور کسی سرکار سے خوفزدہ نہیں ہوتے تھے، اخبارات کی بندش اور صحافیوں کی جبری برطرفیوں پر وہ چیخ اٹھتے تھے اور ہرگز خاموش نہیں رہتے تھے، انہوں نے اخبارات میں کراچی یونین آف جرنلسٹس کے یونٹ قایم کرنے کے لیے بہت کام کیا اور کسی اخباری مالکان کی ناراضی کی کبھی پرواہ نہیں کی اور صحافیوں کے مسائل کے حل کے لیے منعقد ہونے والی میٹنگز میں اخباری مالکان کی زیادتیوں پر کھل کربات کی اور کبھی اس خوف کا شکار نہ ہوئے کہ ان کی ملازمت خطرہ میں پڑجائے گی۔
احفاظ نے اخبارات و میگزین میں ہر حیثیت میں کام کیا اور اپنی سلگتی ہوئی تحریروں سے لوگوں کے عزم و حوصلوں کو بلند کیا اور آنے آگے بڑھنے کی راہ دکھائی،ان کے اخباری کالموں پر مشتمل کتاب سیاہ و سفید کے نام سے شائیع ہوئی جسے بے حد پسند کیا گیا، پاکستان کے صحافیوں کی تاریخی جدوجہد سے متعلق ان کی دوسری کتاب جنگ جاری ہے جو نہ صرف اپنی جگہ ایک مستند تاریخ ہے بلکہ اس میں ملک میں آزادی صحافت اور حکومتی سیاہ پریس قوانین کے خلاف جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے صحافیوں کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔ان کے شاعرانہ کلام پر مبنی کتاب زندہ ہے زندگی شائیع ہوئی جسے زبردست پذیرائی ملی۔ انہوں نے عظیم چینی رہنماچو این لائی کی بائیو گرافی پر شائیع ہونے والی کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا جو بے حد پسند کیا گیا،وہ خود بھی پانچ سال تک چین میں رہے اور وہاں کے ادب کا گہرا مطالعہ کیا۔ترقی پسند ادیبوں میں وہ کرشن چندر اور ساحر لدھیانوی سے بڑے متاثرتھے۔صحافیوں کے حقوق کے لیے ایک طویل جدوجہد کرنے والی ایک بڑی شخصیت اب ہم میں نہیں ہے لیکن ان کی تحریک ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اور ایک نئے جذبہ کے ساتھ جاری و ساری رہے گی۔
احفاظ کی صحافیوں کے حقوق کے لیے شروع کی جانے جنگ جاری تھی،جاری ہے اور جاری رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔