مس ڈائریکشن اور جادو
شیئر کریں
تھوڑی دیر اپنے موضوع کے ساتھ ٹہرتے ہیں۔ ہمہ پہلو موضوع کے پہلو دار حصوں میں شاخ درشاخ جھانکتے ہوئے رُکنا پڑتا ہے۔ ابتدائی آثار میں ہی بات چھپی ہوتی ہے، مگر ابتدا میں ہی اِسے دھند آلود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ کھیل ہے۔ جوں جوں آگے بڑھتا ہے، ابتدا سے دھیان ہٹتا ہے اور تب ابتدا سے ہی گتھی سلجھنا شروع ہوتی ہے۔ بل گیٹس کی نیٹ فلکس سیریز اور ایونٹ 201 کی آزمائشی مشق نے یہی کام کیا۔ کسی کو اِدھر اُدھر دیکھنے کا موقع ہی نہ دیا۔ اسے کہتے ہیں ”مس ڈائریکشن“۔۔ ہالی ووڈ کی 2001 کی ایک فلم ”سورڈ فش“ (Swordfish)نے مس ڈائریکشن کے مفہوم کو نہایت اچھی طرح سے فلمایا تھا۔ مس ڈائریکشن کے حوالے سے ایک فقرہ اس فلم کے ہیرو سے منسوب ہے، لطف لیجیے:
”Misdirection. What the eyes see and the ears hear, the mind believes.“
(مس ڈائریکشن۔ آنکھیں جو کچھ دیکھتی ہیں اور کان جو کچھ سنتے ہیں، دماغ اُس پر یقین بھی کرنے لگتے ہیں)
ہم وہی دیکھتے اورسنتے آئے جو بل گیٹس نے ہمیں دکھایا اور سنایا۔ بس پھر کیا تھا، بہت سے ابتدائی دعوے یقین میں ڈھل گئے۔ دنیا نے سب کچھ جوں کا توں مان لیا۔ اب دنیا وہی ہے جو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے ذریعے سوچی گئی۔ کھیل کھیلنے والوں کو داد دیجیے!اور پرانی باتوں میں سے نکلنے والے نئے پہلوؤں پر دھیان دیجیے!ابتدا میں ہمیں بتایا گیا کہ کورونا وائرس کی چین سے ابتدا ہوئی اور اس کا محرک دراصل چمگاڈر کا سوپ تھا۔ کسی نے ٹہر کر ایک سادہ سوال بھی نہیں کیا کہ چمگاڈر کا سوپ چینی صدیوں سے پیتے آئے ہیں۔ پھر یہ وائرس کیوں پیدا نہیں ہوا؟ کسی نے یہ سوال بھی نہیں کیا کہ کورونا کے خاندان کے تین وائرس اپنی اصل میں کہاں سے آئے؟ سارس چین میں آزمایا گیا، مگر تاحال اس کی پیدائش کے متعلق تمام آراء حتمی باور نہیں کی جاتیں۔میرس مشرق وسطیٰ میں آزمایا گیا تو اس کی پیدا ئش کے اسباب بھی کم کم سامنے آئے۔ اب کووڈ۔ 19 کا نیا وائرس اسی خاندان سے آیا ہے تو یہ چمگاڈروں سے کیوں منسوب کیا جانے لگا؟ اس کے متعلق حتمی رائے قائم کرنے کے لیے مستند تو کجا کوئی غیر مستند تحقیق بھی تب تک میسر نہ تھی، اور آج تک میڈیکل سائنس کے تمام مشاق یہاں تک کہ ماہرین ِوبائیات کے پاس بھی کہنے کو کچھ قطعی نہیں، صرف اندازے ہیں۔پھر اس قدر قطعی طور پر کووڈ۔19 کے جد ِ امجد کو چمگاڈر کے اندر سے کیسے ڈھونڈ لیا گیا۔ آئیے کہانی سمجھتے ہیں۔
کووڈ۔ 19 کے پہلے مریض کب اور کہاں سامنے آئے؟ یورپ میں اس حوالے سے اب تک پھیلائے گئے تمام تصورات پر شکوک ظاہر کیے جارہے ہیں۔ مثلاً خود اٹلی کے ہی ایک طبی ماہر جیو سیپی ریمزی نے دعویٰ کیا ہے کہ اٹلی کے معالجین نے”نمونیا“ میں مبتلا کچھ عجیب وغریب اور قدرے مختلف مریض نومبر میں ہی دیکھے تھے۔ واضح رہے کہ جیو سیپی ریمزی ماریو نیگری انسٹیٹیوٹ برائے فارماکولوجیکل ریسرچ کے ڈائریکٹرہیں۔ اُنہوں نے دستیاب حقائق کی روشنی میں یہ انکشاف بھی کیا کہ مبتلائے نمونیا سارے مریض عمر رسیدہ تھے اور ان میں شدید قسم کا نمونیا تھا۔ سیپی ریمزی ماریو نیگری نے اٹلی میں مبتلائے نمونیا مریضوں کی نومبر میں موجودگی پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کورونا وائرس چین میں تشخیض سے پہلے ہی شمالی اٹلی میں پھیل رہا تھا۔ چین میں مصدقہ کورونا کے مریض دسمبر میں سامنے آئے تھے۔ مگر ایک خیال کے مطابق چین میں نومبر میں بھی کورونا کے مریضوں کی موجودگی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تب بھی یہ ایک ساتھ چین اور اٹلی میں کورونا کے مریضوں کی موجودگی کے امکان کو قوی کرتا ہے۔ غور کیجیے! اس موقف میں معمولی سچائی بھی ہو تو یہ کورونا وائرس کی پیدائش کے تصور کو بھک سے اڑا دیتا ہے۔ چمگاڈر اور پنگولین سے لے کر ووہان کی مرطوب مارکیٹ تک کورونا وائرس کے پیدائشی تصور کا تیاپانچا ہو جاتا ہے۔ٹہر کر مس ڈائریکشن کا مشہور فقرہ دوبارہ پڑھ لیجیے۔یہاں بطور حوالہ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ برطانوی اخبار گارجین کی ایک سے زائد رپورٹوں میں کورونا وائرس کے ووہان کی مرطوب مارکیٹ سے فروغ پر شبہ ظاہر کیا گیا ہے۔ الجزیرہ نے بھی اپنی رپورٹوں میں یہ لکھا ہے کہ کورونا کے ووہان سے پھیلنے کا معاملہ اب تک کوئی حقیقی سندنہیں پاسکا۔ اس حوالے سے جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ سب ”نظریات“ ہیں۔حیرت ہے کہ مرکزی دعوے کے متعلق کوئی سند نہیں، اس کے متعلق اب تک جو کچھ کہا گیا سب نظریات ہیں۔ مگر اس پر سوال اُٹھانے والے نظریات ”سازشی نظریات“ ہیں۔ آخر گمراہ کرنے کی کوئی حد ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ کورونا کی پیدائش کا تصور اگر ووہان کی مرطوب مارکیٹ سے دم توڑ جاتا ہے اور اگر اس میں کوئی سچائی نہیں نکلتی تو پھر سب سے بڑا سوال ہی یہ پیدا ہو گا کہ اس سارے عمل کو غلط سمت میں کیوں موڑا گیا؟ ظاہر ہے معاملے کو غلط سمت میں موڑنے والا واحد نام لوگوں کے ذہنوں میں جو اُبھرے گا وہ نیٹ فلکس سیریز کے محرک اور ایونٹ 201 کی آزمائشی مشق کے سرپرست بل گیٹس ہی ہوں گے۔ مگر ایک اس سے بھی بڑا نتیجہ ہمار ا منتظر ہوگا۔ کیا کورونا وائرس کی الگ الگ کھیپیں مختلف ملکوں میں الگ الگ طریقے سے پہنچائی گئیں؟ اس ضمن میں ڈاکٹر عطاء الرحمان کا ایک بیان بھی سامنے ہے۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں موجود کورونا وائرس اپنی اصل میں موجود چین کے نمونوں سے نہیں ملتا۔پھر اٹلی اور چین کے وائرس بھی مختلف الا حوال ہیں۔ دلچسپ طور پر ان کے پیدائشی عرصے میں بھی اختلاف نے ان کے الگ الگ ہونے کے تاثر کو تقویت دے دی ہے۔ایسا دو ہی صورتوں میں ہو سکتا ہے۔ اولاً: کورونا وائرس اپنی اصل ہیئت کو بہت تیزی سے تبدیل کرنے پر قدرت رکھتا ہو۔ ثانیا: کورونا وائرس کی مختلف کھیپیں موجود ہو۔ اگر کورونا وائرس اپنی ہیئت کو تیزی سے بدلنے پر قادر ہوتا توعملاً اِسے حرکت میں آنے میں اتنی دیرکبھی نہ لگتی۔ پھر اس کی مختصر زندگی میں اسے جس ماحول اور کیرئیریا ”ناز بردار“کی ضرورت رہتی ہے وہ بھی اُسے ہمیشہ میسر نہیں آجاتا۔اس لیے اُن کے اپنی موت آپ مرنے کے امکانات اُس کے زندہ رہنے سے زیادہ موجود ہوتے ہیں۔ تو پھر یہ اتنی تعداد میں دنیا بھر میں کیسے اور کیوں ہر وقت دستیاب رہتے ہیں۔سماجی فاصلوں اور لاک ڈاؤن کے باوجود ان وائرسوں میں کمی کیوں نہیں آرہی؟ظاہر ہے کہ یہ تب ہی ممکن ہے جب کورونا وائرس کی مختلف کھیپیں مسلسل حرکت میں آرہی ہوں۔ ہم ابھی بھی نتائج کا انتظار ہی کریں گے کہ ان مختلف الوجود کورونا وائرسز کے تمام نمونے تحقیق سے ہی کھرل ہو سکیں گے کہ اس نے اپنی شکلیں تیز رفتار طریقے سے تبدیل کی ہیں یا یہ وائرسز کی مختلف کھیپیں (BATCHES) ہیں؟جو الگ الگ ظاہر ہو رہی ہیں۔ درحقیقت امریکا اور اٹلی سمیت یورپ میں جس طرح کورونا کے معاملے کو دیکھا جارہا ہے، وہ خود اس پورے معاملے کو مشکوک بنانے کے لیے کافی ہے۔ اس کا ہدف واضح ہوتاجارہا ہے۔ اس ہدف کے سروں کو پکڑنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ کورونا وائرس کے گرد کہانیوں کا ایک جال بُن دیا گیا ہے۔ کھیل مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ اور ماحول مکمل ”مس ڈائریکشن“کا شکار ہے۔دیکھیے بھارتی مصنف امیت کلنٹری (Amit Kalantri) یہاں کتنا حسب حال ہے، لکھتا ہے:
"What I say is misdirection, what you see is an illusion and what results is magic.”
(میرے خیال میں مس ڈائریکشن یہ ہے کہ جسے تم دیکھتے ہو، وہ ایک فریب ہو، اور اس کا نتیجہ ایک جادو کی صورت نکلتا ہو)۔
کورونا کا فریب زدہ ماحول ایک جادو جگانے والا ہے، یورپ اس جانب بتدیج بڑھ رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔