یہ کون لوگ ہیں؟
شیئر کریں
بل گیٹس ایک انتہائی پراسرار کردار ہے۔مگر دنیا میں جاری کھیل مائیکرو سوفٹ کے بانی بل گیٹس کا تنہا رچایا ہوا نہیں۔ اس کے ساتھ اور بھی بہت سے کردار ہیں جو متوازی طور پر اپنے اپنے دائرے میں یہی کھیل کھیل رہے ہیں۔ ان سب کی کوششیں ایک بڑے منصوبے میں مربوط ہوتی ہیں۔ یہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہوتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں یہ خود کو ”گڈ کلب“ کہتے ہیں۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ پر مکمل گرفت کے باعث ان کے متعلق بہت کم حقائق سامنے آتے ہیں۔ مگر کچھ لوگ ان کاتعاقب پھر بھی نہیں چھوڑتے۔ یہ انسانیت کے حقیقی محسن ہیں۔ نیویارک کے ایک مقامی میڈیا کی ویب سائٹ پر مئی 2009ء میں ایک ایسی ہی رپورٹ سامنے آئی، جس نے دنیا کے مختلف حلقوں کو چونکا دیا۔
نیویارک کے مقامی میڈیا نے”گڈ کلب“ کا انکشاف کرتے ہوئے ایک خفیہ اجلاس کی تفصیلات لکھی جو 5/ مئی 2009 ء کو ہوا تھا۔ یہ اجلاس ”سر پال نرس“کی قیام گاہ پر ہوا، جو راک فیلر یونیورسٹی کے تب صدر تھے۔ اجلاس میں امریکا کے امیر ترین لوگ شریک ہوئے۔ اجلاس کے امتیازی اورخصوصی دعوت نامے پر تین لوگوں کے دستخط تھے۔سرمایہ کاری کے دنیا بھر میں گرو گھنٹال وارن بفیٹ، دنیائے بینکاری کا سرخیل ڈیوڈ راک فیلر اور مائیکرو سوفٹ کا باوا بل گیٹس۔
اس سے قبل وارن بفیٹ 2006ء میں اپنے 30بلین ڈالرز کے ٹیکس فری اثاثے رکھنے والی بفیٹ فاونڈیشن کو دنیا کی سب سے بڑی نجی فاؤند یشن کا روپ دینے کے لیے گیٹس فاؤنڈیشن میں ضم کرچکے تھے۔ راک فیلر افریقا میں سبز انقلاب کے نام پر آبادی میں کمی لانے کے لیے مختلف حربوں کے استعمال میں گیٹس فاؤنڈیشن کے ساتھ شراکت کرچکے تھے۔ درحقیقت راک فیلر اس اجلاس کے حقیقی میزبان تھے۔ اس گڈکلب میں شریک ایک اور رکن کا نام ٹیڈ ٹرنر تھا۔ یہ ارب پتی شخص دراصل”سی این این“ ٹی وی کے بانی ہیں۔ٹہر جائیے! اس کا اتنا تعارف کافی نہیں۔ٹیڈ ٹرنر نے1996 ء میں ”آڈوبون نیچر میگزین“ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا: دنیا کی آبادی میں پچانوے فیصد یعنی 225 سے 300 ملین تک کمی ہونا ہی آئیڈئیل ہوگا۔یہ حد سے زیادہ کمی تھی۔ چنانچہ اُس نے فلاڈیلفیا کی ٹیمپل یونیورسٹی میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے آبادی میں کمی کے ہندسے کو مزید بہتر کیا۔ ٹرنر نے 2008میں اس تعداد کو کم کرتے ہوئے ازراہِ کرم 2 ارب کردیا، جو تب آبادی کا 70فیصد تھی۔یہ کوئی چُھپے ہوئے نہیں چَھپے ہوئے خیالات ہیں۔مگر ان سے سوال کون کرسکتا ہے؟حیرت کی بات یہ ہے کہ گیٹس اپنے ان ہی خیالات کوبیان کرتے ہوئے قدرے خوبصورت پیرایہ اور زیادہ انسان دوست الفاظ استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر ٹیڈ ٹرنر تو اس کا بھی کوئی لحاظ نہیں کرتا۔ ٹرنر کے الفاظ دیکھیں:
”ہمارے پاس بہت سارے لوگ ہیں۔ اسی باعث یہ گلوبل وارمنگ ہے۔ ہمیں کم چیزیں استعمال کرنے والےکم لوگوں کی ضرورت ہے“۔
آگے بڑھتے ہیں۔گڈ کلب کے پہلے اجلاس میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ ایلی براڈ، نیویارک کے تب کے ارب پتی میئر مائیکل بلومبرگ اور وال اسٹریٹ کے ارب پتی اور کونسل برائے خارجہ تعلقات کے سابق سربراہ پیٹر جی پیٹرسن بھی شریک تھے۔ان کے علاوہ ہیج فنڈ ارب پتی جولین ایچ رابرٹسن،جونیئر،بھی شریک ہوئے، یہ وہی شخص ہے جس نے جارج سوروس (یہ صاحب حیرت کی خود ایک الگ کہانی ہے) کے ساتھ مل کر تھائی لینڈ، انڈونیشیا، جنوبی کوریااور ایشیا کی اُبھرتی معیشتوں کی کرنسیوں پر حملہ کیا تھا۔ اسی سے 1997-98 کے ایشیا بحران نے جنم لیا تھا۔اس اجلاس کے دیگر شرکاء بھی اپنی اپنی کہانیاں رکھتے ہیں۔ ویب سائٹ نے دعویٰ کیا کہ اُن کے پاس ”گڈ کلب“ کی معلومات دراصل اسی اجلاس میں شریک ایک ارب پتی کے ذریعے پہنچی ہے۔ گڈ کلب کے اس اجلاس میں دنیا کی معاشی بدحالی، صحت اور ماحولیات کے بحرانوں پر غور کیا گیا۔ مگر اس اجلاس کا مرکزی موضوع بل گیٹس کی جانب سے پیش کی جانے والی تشویش تھی کہ عالمی آبادی کو کنٹرول کرنے اور اس میں کمی لانے کے ایجنڈے کو مزید موثر طریقے سے کیسے آگے بڑھایا جائے؟دنیا پر دولت کے ذریعے حکومت کرنے والے اس”پلوٹوکریس“ پاگلوں کے ٹولے نے اتفاقِ رائے کیا کہ ”وہ ایسی ہر حکمت ِ عملی کی حمایت کریں گے جس میں آبادی میں اضافے کو ماحولیاتی، معاشرتی اور صنعتی خطرات سے بھی زیادہ تباہ کن خطرے کے طور پر دیکھا جائے گا“۔ بس بل گیٹس کو اور کیا چاہئے تھا۔
آئیے بحث کے ان ست رنگی پہلوؤں کو یہاں سمیٹ لیتے ہیں تاکہ ہم کورونا وائرس کے مرکزی موضوع کی دیگر تہہ داریوں میں داخل ہوسکیں۔ بل گیٹس اور وارن بفیٹ دنیا بھر میں عالمی آبادی میں کمی لانے کے پروگراموں کے مالیاتی سرپرست ہیں۔ اسی طرح ٹیڈ ٹرنر کی بھی اس حوالے سے ایک شناخت ہے۔ جو دنیا بھر میں اپنی ٹیکس فری اسٹاک آمدنی کو ترقی پزیر دنیا میں آبادی کم کرنے کے منصوبوں پر خرچ کرتا ہے۔ ان سب کے افریقا اور دیگر ایشیائی پروگرامات دراصل انسان دوستی کا نقاب اوڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ غریب افریقیوں اور ایشیائی لوگوں کے لیے صحت کے حوالے سے جو منصوبے بھی پیش کرتے ہیں، چاہے وہ جینیاتی تبدیلیوں کے ساتھ مصنوعی بیجوں سے زیادہ فصل پیدا کرکے بھوک مٹاؤ کا منصوبہ ہو یا پھر ویکسی نیشن اور دیگر ادویات کے ذریعے غیر مریض آبادیوں کے مستقبل کے صحت خطرات کی پیش بندی کی افسانوی خدمات ہو،سب کی سب نس بندی کے مکروہ مقصد کے ساتھ لتھڑی ہوئی ہیں۔ ان میں سے اکثر چیزیں عملاً ثابت ہوچکی ہیں جن میں بچوں کو پیدا کرنے والی خواتین میں بانجھ بنانے کا مرض بھی شامل ہے۔ اگر چہ گیٹس فاونڈیشن اور وارن بفیٹ کی دولت افریقا میں کوفی عنان کی زیر قیادت سبز انقلاب کی آڑ لے کر جی ایم او بیج کی حمایت کررہی ہے، مگر افریقا میں ایک مقامی مزاحمت ہمیشہ موجود رہی ہے۔ یہ مزاحمت ہی تو آخری امید ہوتی ہے۔ یہ بے دست وپا سیاہ فام باشندے جن کے نام بھی دنیا اچھی طرح نہیں جانتی، دراصل تیسری دنیا کے اصل ہیروز ہیں۔ ان کی زندگیاں بنی نوع انسان کی حفاظت کے لیے وقف ہیں۔ یہ طاقت وروں کی دنیا میں طاقت کے سامنے بے خوفی کی فتح ہے۔ یقین جانئے یہ معمولی بات نہیں۔
اپنے ارد گرد نظر ڈورائیے!کیسا آلودہ منظر ہے۔ہر طرف سوسائٹی کنٹرول کرنے کی ایک خوف ناک آویزش جاری ہے۔ یہ ایسا خواب ہے جسے مختلف نظریات کی ضرورت رہتی ہے۔ یہ نظریات اگر اخلاقی نظر آئیں تو اور اچھا ہے، مگر عملاً مقصد سوسائٹی پر کنٹرول ہوتا ہے۔ اس کے لیے اختیار کیے گئے نظریات سے وابستگی بھی اہم نہیں ہوتی۔ دنیا میں تمام کاروبار گڈ کلب کے اسی اشرافیہ کو کسی نہ کسی طرح فائدہ پہنچاتے ہیں۔تمام کارپوریشنز ان کی ہی ہیں۔ کورونا وائرس ریاستوں کا کنٹرول کرنے کے لیے کارپوریشنز کا آخری معرکہ بھی ثابت ہوسکتا ہے، اگر اس کو یہاں نہ روکا گیا۔ اس کے لیے ہمیں غیر معمولی ذہانتیں درکار ہیں جو پردے کے پیچھے جھانک سکیں۔ کیونکہ پردے کے اوپر چلنے والی ساری مناظر فریب زدہ ہیں۔ اندازا کیجیے! وہی افراد جو جنرل الیکٹرک یا ڈزنی چلاتے ہیں وہ این بی سی، ٹیلی منڈو اور سی بی ایس کے بھی مالک ہیں۔ وہ سماجی طبقہ جو پیداوار کے تمام وسائل کا مالک ہے، معاشرے میں گردش کرنے والی تصاویر، معلومات اور نظریات کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔ یہ ہماری توجہ بانٹ دیتے ہیں۔ یہ ہمارے ارتکازِ توجہ کے دشمن ہے،اسے بھٹکاتے رہتے ہیں۔ یہ دنیا انتہائی خطرناک نظریاتی آویزش کا میدان ہے۔ جس میں گمراہ کرنا اور عوام کو گمراہ رکھنا ایک بنیادی ہدف ہوتا ہے۔ ہر کام کے لیے لوگ میسر ہیں۔ سائنسی نتائج کو جھٹلانے کے لیے خود سائنس دان میدان میں آجاتے ہیں۔ مذہبی توجیہات کے لیے اہلِ مذہب کے دُکاندار دستیاب ہوجاتے ہیں۔ پھر آدمی کہاں جائے! اب ذرا اُن مقامی سیاہ فام افریقیوں پر دھیان دیں، جو جدیدیت کے نام پر زندگی کے تعیشات پر آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کو تیار نہیں ہوتے۔ جو کارپوریشنز کو کہتے ہیں، اپنے منافع سمیت ہماری زمینوں سے دفع ہو جاؤ، ہمیں ہماری فطرت کے ساتھ جینے دو! ہماری بیماریوں کے علاج ہمیں کرنے دو، یہ تمہاری تجربہ گاہ نہیں، ہماری زندگی ہے، اِسے ہمیں ہی جینے دو۔ ہم ان کے نام نہیں جانتے تو کیا ہوا، یہ ہمارے حقیقی ہیروز ہیں۔ ہم اُنہیں سلام پیش کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔