وبال اور اسپتال۔۔
شیئر کریں
دوستو،کرونا پکا مسلمان ہے۔رنگ،نسل،قوم، ملک،سرحد ،زبان،مذہب کی تفریق کے بغیر سب سے بغلگیر ہوتا ہے۔اس نے دنیا کو گلوبل ولیج ثابت کردیا۔کرونا سے بچنے کے قومی نعرہ یہ اپنایاگیا ہے کہ۔۔کرونا سے ڈرنا نہیں،لڑنا ہے۔۔سیدھی بات ہے ہم سب بلڈپریشر کے مریض ہیں چنانچہ ہم ہر وقت لڑنے کے لیے تیار رہتے ہیں‘ پاکستان شوگر کے مرض میں ساتویں‘ ٹی بی میں چھٹے‘ہیپاٹائٹس سی میں دوسرے اورگردے کے امراض میں دنیا میں آٹھویں نمبر پر ہے‘ پاکستان میں ہر سال ڈیڑھ لاکھ افرادکینسر کے مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔پاکستان بچوں کی شرح اموات میں دنیا بھر میں چوتھے نمبر پرہے‘پاکستان جعلی خوراک و ادویات میں بھی دنیا میں بہت آگے ہے‘ آپ کو اس ملک میں دودھ‘ پانی‘ ہوا اور سورج کی روشنی تک خالص نہیں ملتی‘ ہمارے ملک میں ہر سال ہزاروں بچے جینیٹک میوٹیشن کی وجہ سے معذور پیدا ہوتے ہیں۔لوگوں کو آج بھی رفع حاجت کے بعد ہاتھ دھونے کی عادت نہیں اور یہ اگردھونا چاہیں تو واش رومز میں صابن نہیں ہوتا اور اگریہ موجود ہو تو ہاتھ صاف کرنے کے لیے ٹشو پیپر اور گرم ہوا کی مشینیں نہیں ہیں چنانچہ ہم میں سے ہر دوسرا شخص ہاتھوں پر سیکڑوں قسم کے جراثیم لے کر پھر رہا ہے اور یہ جراثیم ایک شخص سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے میں منتقل ہو رہے ہیں‘ آپ کسی دن ٹھنڈے دماغ سے سوچئے کیا ہم ایک بیمار قوم نہیں ہیں۔۔بیماروں پر کرونا حملہ کرے گا تو خود سوچئے ہم دفاع کیسے کریں گے؟؟
کہتے ہیں کہ بعض اوقات انسان کے حالات کی ایسی بینڈ بجتی ہے کہ چاہے سامنے ٹیبل پر پانچ کپ چائے کے پڑے ہوں لیکن مکھی آپ کے کپ میں ہی گرے گی۔۔اس کی تازہ مثال سندھ کے وزیرتعلیم ہیں، جن کا کہنا ہے کہ انہیں کرونا کی علامات بھی نہیں پھر بھی ان کا کرونا ٹیسٹ مثبت آگیا ہے۔۔وزیر پر یادآیا، سندھ کے سابق وزیراعلیٰ سائیں قائم علی شاہ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کافی ’’چیزے‘‘ لیے جاتے ہیں، تعلیمی اداروں اور اسکولوں کے بند کرنے کے حکومتی فیصلے کی سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے شدید مخالفت کی ہے، سائیں فرماتے ہیں، اسکولوں کو بند کرنے کے بجائے گھنٹی نہ بجاؤ، کرونا کو پتہ ہی نہیں لگے گا کہ اسکول کھلے ہیں یا بند ہیں۔۔وہ مزید فرماتے ہیں کہ۔۔لوگ پتہ نہیں کیوں ’’کروناکپور‘‘ سے خوفزدہ ہوکر ’’قرطینہ کیف‘‘ کے پاس جارہے ہیں۔۔؟؟ہمارے ایک دوست نے فون کرکے ہمیں بتایا کہ ۔ ۔لاکڈ ڈاؤن کی وجہ سے گھر میں بیٹھا ہوں، بیوی بہانے بہانے سے قریب سے گزرتی ہے اور کہتی ہے۔۔اللہ بچائے اس آفت سے۔۔ اب یہ پتہ نہیں لگ رہا وہ ’’آفت‘‘ کسے کہہ رہی ہے؟؟ہماری کام والی ماسی نے فون کرکے بتایا ہے کہ ۔۔حکومت کے لاکڈڈاؤن کے اعلان کے بعد وہ گھر سے ہی کام کرے گی۔۔اور فون پر بتایاکرے گی کہ کیا کیا،کیسے کیسے صاف کرنا ہے۔۔
جب ایک ڈاکٹر نے کہا کہ۔۔ اس جہاں میں ڈاکٹروں کے بہت سے دشمن ہیں تو ہمارے جیسے ایک شوخ مریض نے کہا۔۔جی ہاں، اور دوسرے جہاں میں اس سے بھی زیادہ ہیں۔۔ ایک خاتون نے جب ڈاکٹر کو کہا کہ۔۔جلدی چلیے میرے شوہر کو ایک سو دس بخار ہے۔۔ڈاکٹر نے بڑے معصومانہ انداز میں کہا۔۔بی بی، اب میرے جانے کا کوئی فائدہ نہیں،آپ فائربریگیڈ کو فون کیجئے۔۔بات ہورہی تھی کرونا وائرس کی۔۔کہتے ہیں چین سے پھیلا ،کیوں کہ وہاں حرام جانور بھی کھائے جاتے ہیں۔۔ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ۔۔ہمارے گھروں میں چوہا یا چھپکلی آجائے تو ہمارے گھر والوں کو ٹینشن پڑی ہوتی ہے جب تک اسے باہر نہیں نکالتے سکون کا سانس نہیں لیتے، چین میں تو لوگ لڈیاں ڈالتے ہوں گے کہ لوجی،ڈنر کا انتظام ہوگیا۔۔ویسے سوچنے کی بات ہے کہ اگر گدھوں میں کرونا طرز کا کوئی جان لیوا وائرس ہوتا تو آج چین کے شہر اوہان کی طرح لاہور بھی سیل ہوتا۔۔باباجی فرماندے نے۔۔چین نے تو کرونا کے متاثرین کے لیے چھ دن میں اسپتال بنالیا ،پاکستانی تو لینٹر ڈال کر ایک مہینے تک پانی ہی دیندے رہندے۔۔ڈاکٹر نے جب مریض سے پوچھا کہ ۔۔کل سے تمہیں کوئی تکلیف تو نہ ہوئی؟مریض نے جواب دیا، بس ڈاکٹر صاحب، سانس بہت تیزی سے چل رہی ہے۔ڈاکٹر نے روانی میں جواب دیا، مطمئن رہو میں اسے بھی روک دوںگا۔۔۔ایک مریض نے ڈاکٹر سے شکایت کی کہ ہر شخص سے مجھے پریشانی ہوتی ہے، ڈاکٹر نے دوا تجویز کر دی۔دوبارہ دوا لینے آیا تو ڈاکٹر نے پوچھا۔کیوں بھئی تم نے اپنے ذہنی رویئے میں کوئی تبدیلی محسوس کی۔مریض نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔۔مجھ میں تو کوئی تبدیلی نہیں۔ ہاں البتہ اوروں کا رویہ میرے ساتھ کچھ بدل گیا ہے۔۔ایک اور مریض نے ڈاکٹرسے چیک اپ کے دوران سوال کیا کہ ۔۔ جب میرا داہنا ہاتھ ٹھیک ہو جائے تو ڈھولک بجا سکوں گا۔؟؟ڈاکٹر نے تسلی دیتے ہوئے کہا، ہاں کیوں نہیں، تم ضرور بجا سکو گے۔مریض نے بڑی سادگی سے کہا۔۔ کیسی مزے دار بات ہے حادثے سے پہلے مجھے ڈھولک بجانی نہیں آتی تھی۔
ایک شخص کو شک ہوا کہ اسے مشکل سے سانس آرہا ہے شایداسے کرونا وائرس نے آلیا ۔۔ وہ جلدی سے چیک اپ کرانے ڈاکٹر کے پاس گیا،ڈاکٹر نے چیک اپ کیاپھر اگلے روز بلایا۔۔اگلے روز بھی مرض جوں کا توں تھا، سانس مشکل سے آرہا تھا۔۔ ٹیسٹ وغیرہ کرائے گئے ،کچھ پتہ نہیں لگ رہا کہ مرض کیا ہے۔۔ آخر کار ایک ہفتے تک مسلسل علاج کے بعد ڈاکٹرنے مایوسی کا اظہار کرہی ڈالا اور کہہ دیا کہ ۔۔ تم زیادہ سے زیادہ پندرہ دن مزید زندہ رہو گے اس کے بعد مر جائو گے، وہ بندہ بہت حوصلے والا تھا۔ اس نے سوچا اب مر ہی جانا ہے تو کیوں نہ بقیہ زندگی مزے سے گزاری جائے، اس نے پاکستان کے شمالی علاقوں کی سیر کا پروگرام بنایا۔ اس کے لیے نئے سوٹ سلوائے، شرٹس سلوانے کے لیے وہ درزی کے پاس گیا اور اسے اپنی کہانی اپنی زبانی سنائی تو درزی نے اس کے کالر کا ماپ لیتے ہوئے شاگرد سے کہا ’’لکھو ساڑھے سولہ!‘‘ اس پر وہ صاحب بولے ’’میرے کالر کا سائز تو سولہ ہے اور میں وہی پہنتا ہوں‘‘ جس پر درزی نے فیتہ ایک طرف رکھا اور کہا ’’آپ اگر سولہ کا کالر ہی پہنتے رہیں گے تو آئندہ بھی آپ کے لیے سانس لینا مشکل رہے گا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا رہے گا‘‘
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ جو انسان برداشت کرنے کا فن جانتا ہے،وہ زندگی کی جنگ کبھی نہیں ہارسکتا۔۔خو ش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔