سعادت کی زندگی شہادت کی موت
شیئر کریں
مفتی محمد وقاص رفیع
تبلیغیجماعت سے وابستہ وطن عزیز ملک پاکستان کے مشہور و معروف نعت خواں ، داعی الیٰ اللہ بھائی جنید جمشید بھی مسافرانِ آخرت میں شامل ہوگئے ہیں ، وہ چند روز قبل اپنی اہلیہ کے ہمراہ دس روز کی تشکیل کے لئے ” دعوت و تبلیغ “ کے سلسلے میں ملک کے مشہور علاقے ”چترال“ کی طرف گئے ہوئے تھے ، جہاں سے گزشتہ مو¿رخہ 7 دسمبر بدھ کے روز ان کی ”اسلام آباد“ کی طرف واپسی متوقع تھی ۔
چنانچہ گزشتہ روز 3:30pm (تین بج کر تیس منٹ پر ) وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ P.I.A ( پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز)A.T.R-42 مسافر طیارہ ، پرواز نمبر P.K-661 پر سوار ہوکر چترال سے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے اور جب ضلع ایبٹ آباد کے علاقہ ”حویلیاں“ کے قریب ”بودلہ“ نامی گاو¿ں میں پہنچے تو اچانک جہاز کا رابطہ کنٹرول ٹاور سے منقطع ہوگیا ،اور P.I.A کے پائلٹ کیپٹن صالح جنجوعہ نے کنٹرول ٹاور کو ہنگامی پیغام دے دیا کہ جہاز ان کے کنٹرول سے باہر ہوگیا ہے۔ جہاز کا کنٹرول ٹاور سے رابطہ کیا ٹوٹا گویاسانسوں کی ڈور ہی ٹوٹ گئی اور جنید جمشید سمیت47 مسافروں کی زندگیاں ”حویلیاں“ کی پہاڑیوں میں ہمیشہ کے لئے موت کی آغوش میں چلی گئیں ۔
جنید جمشید مو¿رخہ 3 ستمبر 1964 ءکو شہر قائد کراچی میں پیدا ہوئے ۔ یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی تعلیم لاہور سے حاصل کی اور اپنے عنفوانِ شباب کی ابتداءانہوں نے” پاپ موسیقی گروپ وائٹل سائنز “کے نمائندہ گلوکار کی حیثیت سے کی ۔
1987 ءمیں جنید جمشید نے جب پاکستان ٹیلی ویژن پراپنا ملی نغمہ ”دل دل پاکستان “ گایا تو اس نے اس قدر شہرت حاصل کی کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ لاکھوں دلوں کی دھڑکن اور کروڑوں دلوں کی آواز بن گیا ۔ چنانچہ یوم آزادی ، یوم پاکستان ، اور دیگر قومی دنوں پر اس نغمے کی دھنوں کا بجنا ان دنوں کا ایک لازمی حصہ تصور کیا جانے لگا۔اور اس نغمے کی بدولت جنید جمشید ایسے چھائے کہ اگلی پوری دھائی میں ان کا کوئی ثانی پیدا نہ ہوسکا ۔چنانچہ ان کے ”پاپ گلو کاری “ کے زمانہ ( 1987 ئ…. 2002 ئ) کے زمانہ کے ”جنید آف وائٹل سائنز“ نامی البم 1994 ءمیں ، ”اس راہ پر“ نامی البم 1999 ءمیں اور ”دل کی بات“ نامی البم 2002 ءمیں ریلیز ہوئے ۔
لیکن اس کے فوراً بعد ہی اچانک تبلیغی جماعت کے مشہورو معروف عالم دین مبلغ اسلام حضرت مولانا ڈاکٹر طارق جمیل صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی اَن گنت محنتوں ، کوششوں اور نیم شب دعاو¿ں کی بدولت جنید جمشید کارجحان اسلامی تعلیمات کی طرف کچھ اس طرح سے بڑھنے لگ گیا کہ آہستہ آہستہ انہوں نے گانوں ، باجوں اور موسیقی جیسی صنعت وحرفت کو خیر آباد کہہ دیا اور دعوت و تبلیغ اور اشاعت اسلام کی طرف مائل ہوکر داعی الیٰ اللہ بن گئے ۔ چنانچہ( 2002ءسے لے کر 2016ءتک) کی ان کی تمام زندگی اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناءاور حضور نبی کریم کی نعت خوانی و ثناءخوانی اور دعوت الیٰ اللہ جیسے رفیع العظمت اور عظیم المرتبت کام میں گزری ۔
مولانا طارق جمیل صاحب فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہماری جماعت رائیونڈ سے کراچی کی طرف ٹرین میں سفر کر رہی تھی کہ اچانک میری نظر ٹیلی ویژن کی اسکرین پر پڑی جس میں جنید جمشید چند نوجوان لڑکیوں کے ساتھ ڈانس کر رہا تھا ، میں دل ہی دل میں اپنے آپ سے سوال کرنے لگا کہ اس نوجوان کو بھی اللہ تعالیٰ توبہ کی توفیق عطا فرماسکتے ہیں؟ لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ اس کو راہِ راست پر لانے کے لئے اللہ تعالیٰ میرا ہی انتخاب فرمائیں گے ؟“
ایک اور بیان میں مولانا طارق جمیل صاحب فرماتے ہیں کہ جب جنید جمشید توبہ تائب ہوکر نیا نیا تبلیغی جماعت میں لگا اور داڑھی بھی رکھ لی تو کچھ عرصہ بعد کسی مشہور کمپنی نے انہیں اپنے کسی پروگرام میں بلایا اور ان سے درخواست کی کہ: ” صرف دس منٹ کے لئے آپ نے گانا گانا ہوگا ،ساتھ میں لڑکیاں ڈانس کریں گی ، اس کا معاوضہ (غالباً) پانچ کروڑ روپیہ آپ کو دیا جائے گا۔“ جنید جمشید نے اس گراں قدر پیش کش کو کھلے دل سے قبول کرلیا اورسب سے پہلے جاکر اپنی داڑھی کٹوادی اور جاکرپروگرام میں حاضر ہوگیا۔ہمیں جب یہ بات معلوم ہوئی تو ہم چند ساتھی جماعت لے کر جنید جمشید کے دروازے پر دوبارہ انہیں اللہ کے راستے میں وصول کرنے کے لئے حاضر ہوگئے ۔ جنید جمشید نے جب ہمیں دوبارہ اپنی طرف اس محبت اور عقیدت کے ساتھ آتے دیکھا تو وہ شرم کے مارے پانی پانی ہوگیا اور ہم سے شرمندگی محسوس کرنے لگا اور مجھ سے معذرت کرنے لگا ،لیکن میں نے اسے تسلی دی اور اس سے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے اللہ تعالیٰ بڑے غفور رحیم ہیں ، بندہ ہزار بار بھی گناہ کرلے اور پھر سچے دل سے توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کے سارے گناہ معاف کردیتے ہیں ، اس لئے آپ دوبادہ اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرلیں ، اللہ تعالیٰ آپ کو معاف فرمادیں گے، چنانچہ جنید جمشید نے توبہ تائب ہوکر دوبارہ اللہ تعالیٰ سے دوستی کرلی اور داڑھی رکھ لی ۔“
اس کے بعد ایک مرتبہ پھر کسی مشہور کمپنی نے جنید جمشید کو گاناگانے کی پیشکش کی اور ساتھ ہی یہ آفر دی کہ اس بار گانا گانے کی آپ کی قیمت کمپنی نہیں بلکہ آپ خود مقرر کریں گے، کمپنی پیڈ اور پین آپ کے ہاتھ میں تھمائے گی، آپ نے خود اس پر اپنے گانا گانے کی قیمت لکھنی ہوگی ،مگر اس بار جنید جمشید نے گانا گانے سے صاف انکار کردیا اور کہہ دیااب یہ کام مجھ سے نہیں ہوسکتا اور اب میری یہ گردن تو یہاں سے کٹ سکتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے پیارے حبیب کی مبارک سنت میرے چہرے سے نہیں کٹ سکتی ۔“
چنانچہ2002ءمیں جنید جمشید نے جب حمد و نعت پڑھنا شروع کی تو اس میدان میں بھی انہوں بام شہرت کے عروج کو خوب چھوا اور اللہ تعالیٰ نے اس میدان میں بھی ان کو خوب عزت و ترقی سے سرفراز کیا ۔ چنانچہ2007ءمیں ان کو تمغہ¿ امتیاز سے نوازا گیا ۔ ان کا حمد اور نعتیہ کلام پر مشتمل پہلا البم ”جلوہ¿ جاناں“ کے نام سے2005 ءمیں ریلیز ہوا ۔ دوسرا البم ”محبوب یزداں“ کے نام سے 2006 ءمیں ریلیز ہوا۔تیسرا البم ” بدر الدجی ٰ“ کے نام سے 2008 ءمیں ریلیز ہوا او ر چوتھا البم ”بدیع الزماں“ کے نام سے 2009ءمیں ریلیز کیا گیا ۔ اس کے علاوہ اس دوران جنید جمشید نے اپنا کاروبار بھی شروع کیا ، جس کی شاخیں بڑے بڑے شہروں میں قائم ہیں ۔ وہT.V پروگراموں میں” رمضان نشریات“ کی میزبانی بھی کرتے رہے اور فلاحی سرگرمیوں میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہے ۔
قارئین بات مکین کو یہ پڑھ کر جنید جمشید کی زندگی پر رشک آئے گا کہ جب ان کے والد ماجد دنیا سے رخصت ہوئے تو وہ اللہ کے راستے میں تھے ، پھر جب ان کی والدہ ماجدہ کے انتقال کا وقت آیا تب بھی وہ اللہ کے راستے میں تھے اور اب جب خود ان کی شہادت کا وقت آیا تو بھی اپنی شریک حیات کے ساتھ اللہ کے راستے میں تھے ۔ دیکھئے ! اللہ تعالیٰ نے کیسی ان کو سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت عطا فرمائی ہے؟اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ انہیں اور ان کے ساتھ شہید ہونے والے تمام شہداءکو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور پیچھے ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الکریم۔
٭٭