ن لیگ کی "تپسی تاں ٹھس کریسی " پالیسی
شیئر کریں
ایک گاؤں میں کسی بندے کے پاس کسی طرح دولت آگئی۔ دولت کا رعب ڈالنے کے لیے ایک بندوق بھی لے لی اور اپنے بیٹے سے کہا چھت پہ جاکے ہوائی فائر کرو گاؤں کے لوگوں پہ ہمارا رعب و دبدبہ پڑ جائے گا۔ بیٹے نے بندوق پکڑی اور چھت پہ چڑھ گیا بیٹا دل کا ذرا کمزور تھا فائر کرنے کی ہمت نہ ہوئی تو وہ بندوق کو چھت پر دھوپ میں رکھ کے نیچے اتر آیا۔ باپ نے پوچھا فائر کی آواز نہیں آئی کیا ہوا بندوق کہاں ہے۔ بیٹے نے کہا کہ اوپر دھوپ میں رکھ آیا ہوں "تپسی تاں ٹھس کریسی” آج جب ہم پاکستان مسلم لیگ ن کی پالیسی کو دیکھتے ہیں تو بے ساختہ کہنا پڑتا ہے کہ ن لیگ مہنگائی۔ بے روزگاری۔ بدامنی اور بے چینی کی دھوپ کے انتظار میں ہے کہ جب غربت کی ماری عوام پہ دکھوں اور تکلیفوں کی دھوپ پڑے گی تو خودبخود ہی "ٹھس” کی آواز آئے گی اور حکومت اس فائر سے منہ کے بل زمین پر گرے گی۔ شہبازشریف جو اس "ٹھس” پالیسی کے منصوبہ ساز ہیں بندوق لہراتے ہوئے چھت سے نیچے اتریں گے اور عوام پر پڑنے والے رعب اور دبدبے سے ایوانِ اقتدار میں جاپہنچیں گے۔ ن لیگ کی بدقسمتی رہی ہے کہ جب بھی عوام نے اس کا ساتھ دیا ہے یہ عوام کے جذبات کا سودا کرکے بچوں سمیت بیرونِ ملک سدھار جاتے ہیں۔ نوازشریف لاکھ کہتے پھریں کہ وہ بیمار ہیں اور اپنے علاج کی غرض سے باہر لوگ ان کی یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔
پاکستان کے لوگ نوازشریف پہ اب بالکل یقین کرنے کو راضی نہیں ہیں وہ جانتے ہیں کہ مشکل وقت میں جو لیڈر بہانہ بازی سے ملک چھوڑ جائے وہ قیادت کے لائق نہیں۔ پاکستان بالعموم اور پنجاب کے لوگ بالخصوص اپنی نئی قیادت بارے سنجیدگی سے سوچیں۔ پنجاب کے لوگ شہبازشریف کو اپنی قیادت کا اہل نہیں سمجھتے۔ شہبازشریف لندن کی سڑکیں ناپنے اور خفیہ ملاقاتیں کرنے کی بجائے واپس آئیں اور بچی کھچی پارٹی کو سمیٹنے کی کوشش کریں۔ ن لیگ کا پنجاب اسمبلی میں ایک دھڑا کھل کر سامنے آچکا ہے جو اپنی پارٹی سے بغاوت کرکے سردار عثمان بزدار کے ساتھ جا بیٹھا ہے ان حالات میں شہبازشریف کا بیرونِ ملک بیٹھنا کسی بھی طرح ن لیگ کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوگا۔ ن لیگ صاف چھپتی بھی نہیں سامنے آتی بھی نہیں پالیسی پہ نظر ثانی کرے اسے ملک کے عوام کا دکھ نہیں تو نہ سہی کم سے کم پنجاب میں اپنے ووٹرز کے دکھوں میں ہی شریک ہوں، پنجاب کے لوگوں نے نوازشریف کے بعد یا متبادل قیادت کے لیے شہبازشریف کی بجائے مریم نواز کو قبول کیا۔ مریم نواز کی دلیرانہ سیاست نے پنجاب کے عوام کے دلوں کے تار یوں چھیڑے کہ وہ جھوم اٹھے۔ نوازشریف کے ووٹ کو عزت دو کے نعرے کی کامیابی میں بھی مریم نوازشریف کا بہت اہم کردار تھا۔ اس نعرے کی وجہ سے شریف خاندان اور ن لیگ کو بہت سی مشکلات سے گزرنا پڑا ان مشکلات میں بھی ن لیگ کا کارکن۔ ووٹر اور سپورٹر بھی ساتھ رہا لیکن افسوس کا مقام کہ ن لیگ نے اینے ماضی سے سبق سیکھنے کی بجائے وہی غلطی دہرائی۔ پچھلی بار نوازشریف۔ شہبازشریف اور فیملی کو نوازشریف کی اہلیہ مرحومہ کلثوم نوازشریف نکالنے میں کامیاب رہیں اور قیدوبند میں نہ گھبرانے اور ساتھ نہ چھوڑنے والے شاہد خاقان عباسی۔ غوث علی شاہ سمیت متعدد ساتھی جیلوں میں ہی تکلیفیں اٹھاتے رہے اس بار امید تھی کہ ن لیگی قیادت اپنی ذات سے آگے بڑھ کے اس قوم۔ ملک اور پارٹی کے بارے میں سوچے گی لیکن یہ بھی خام خیالی رہی۔
آج جب ن لیگ کے ارکان اسمبلی اپنا مستقبل "محفوظ ” بنانے کی خاطر حکومتی پارٹی سے میل ملاپ بڑھاتے ہیں تو میرے جیسے جمہوریت پسند کو وہ لوگ "حق پرست” لگتے ہیں۔ ان سے بات کریں تو ان کارونا بھی بلاوجہ نہیں لگتا کہ قیادت اپنے معاملات بہتر کرنے اور اپنے لیے آسانیاں تلاش کرنے میں مصروف ہے ایسے میں وہ یہ سب کیوں نہ کریں۔ سیاست کے سینے میں دل ہوتا ہے یا نہیں یہ تو یقین سے نہیں کہہ سکتا البتہ اتنا جانتا ہوں دلیری کے بغیر سیاست نہیں ہوسکتی اور ایسا ہی کچھ یہاں پنجاب میں چل رہا ہے۔ پنجاب آدھے سے زائد پاکستان کا نام ہے ایسے صوبے کو جس طرح چلایا جارہاہے وہ پنجاب کے عوام سے ظلم کے مترادف ہے۔ آج کی سیاست میں عمران خان کی تمام تر بیوقوفیوں اور یو ٹرن پالیسیوں کے باوجود کامیابی کا ایک ہی گر ہے وہ ہے ان کی دلیری وہ جو سوچتے ہیں کرگزرتے ہیں۔ انہوں نے کے پی کے میں پارٹی پالیسی کے خلاف کھڑے ہونے والے اپنے متعدد ارکان اسمبلی کو ایک جھٹکے میں فارغ کردیا تھا۔ ادھر ن لیگ کی یہ حالت ہے کہ اسے نہ تو سینٹ الیکشن میں پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والوں کے خلاف عملی قدم اٹھانے کی توفیق ہوئی اور نہ ہی پنجاب اسمبلی میں درجن بھر ارکان اسمبلی کی دیدہ دلیری دکھائی دیتی ہے۔ ن لیگ نے پارٹی کی بندوق ایک کمزور شخص کے ہاتھ میں دے کر اب قوم سے توقعات لگالی ہیں کہ وہ دھوپ بلکہ کڑکتی دھوپ کی دعا کرے کہ "تپسی تاں ٹھس کریسی۔