میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نون اور ق لیگ پنجاب میں متبادل سیٹ اپ تشکیل دے سکتے ہیں ،رانا ثناء اللہ

نون اور ق لیگ پنجاب میں متبادل سیٹ اپ تشکیل دے سکتے ہیں ،رانا ثناء اللہ

ویب ڈیسک
جمعرات, ۶ فروری ۲۰۲۰

شیئر کریں

پاکستان مسلم لیگ (ن)پنجاب کے صدر اور رکن قومی اسمبلی رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ مستقبل میں (ن)لیگ اور (ق)لیگ پنجاب میں متبادل سیٹ اپ تشکیل دے سکتے ہیں ، سیاستدانوں کے آپس میں رابطے ہوتے ہیں ، چوہدری پرویز الٰہی،عمرا ن خان نہیں اور نہ ہم عمران خان ہیں ،سیاست ممکنات کا کھیل ہے ، جو بھی ممکن صورت ہو گی اس میں ہم بھی اپنا کردار ادا کریں گے ۔ان خیالات کا اظہار رانا ثناء اللہ خان نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ ا نہوں نے کہا کہ جس قسم کے پی ٹی آئی نے بلندوبانگ دعوے کئے تھے ان کو اتنا وقت دیا جانا چاہئے تھا کہ یہ اپنے ہر جھوٹ پر یوٹرن لیتے اور ہرجھوٹ کے اوپر عوام کے سامنے ایکپوز ہوتے جو انہوں نے عوام سے بولاتھا۔ جتنے قرضے ہم نے 10سال میں لئے تھے اتنے قرضے موجودہ حکومت نے ایک سال میں لئے ہیں،آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں اپوزیشن اپنا کردار ادا کرے گی اور اس غیر نمائندہ اور سلیکٹڈ حکومت سے لوگوں کی جان چھڑوائے گی، پاکستان مسلم لیگ (ن)کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمد شہباز شریف فروری کے آخر میں یا مارچ میں پاکستان واپس آجائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی کارکردگی کا تعلق اس بات سے ہے کہ یا تو پہلے دن ہم نے یہ فیصلہ کر لیا ہوتا کہ یہ الیکشن سلیکشن ہے اور موجودہ پارلیمنٹ عوام کی نمائندہ نہیں ہے کہ جو کہ اس وقت مولانا فصل الرحمان کی تجویز تھی لیکن جب دونوں بڑی پارٹیوں نے جمہوریت ، نظام اورآئینی نظام کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ کا حصہ بننے اور حصہ بن کر ان چیزوں کو درست کرنے کی کوشش یا فیصلہ کیا تو اس کے بعد یہ مناسب نہیں کہ ہم بہت جلد حکومت کی مخالفت شروع کرد یتے اور پھر یہ لوگ کہتے کہ آپ نے ہمیں ایک سال بھی نہیں دیا ، ہمیں تو ایک بجٹ پیش کرکے اس پر عملدرآمد کرنے نہیں دیا ، ہم تو یہ کررہے تھے ، ہم تو وہ کر رہے تھے اورہم نے تو یہاں پر دودھ اور شہد کی نہریں بہادیناتھیں ۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے ڈیڑھ سال قبل حکومت کو میثاق جمہوریت کی طرح میثاق معیشت کرنے کی پیشکش کی تھی اور اس کی تائید بلاول بھٹو زرداری نے بھی کی تھی تاہم موجودہ حکومت تو کسی بات پر ایمان ہی نہیں رکھتی ، یہ میثاق جمہوریت پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ میثاق معیشت پر ایمان رکھتے ہیں اور آگے سے کہنے لگے کہ یہ چور ہیں، یہ ڈاکو ہیں اور یہ این آر او مانگ رہے ہیں، شہباز شریف کے باہر بیٹھنے کی وجہ یہ ہے میاں محمد نواز شریف بیمار ہیں اور ان کا وہاں علاج چل رہا ہے ، شہباز شریف بطور اپوزیشن لیڈر اپنا کردار ادا کریں گے ، (ن)لیگ کے اندر کوئی اختلاف نہیں ، میں اگر خواجہ آصف سے نہ بولوں یا اگر خواجہ آصف میرے ساتھ بات نہ کریں یا ہم دونوں مل کر احسن اقبال سے بات نہ کریں اور احسن اقبال ہمارے ساتھ مل کر شاہد خاقان عباسی سے بات نہ کریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کی طاقت اور یکجہتی وہ قیادت کے ساتھ ہوتی ہے ، اگر ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ ہمارا قائد نواز شریف ہے اور ہماری پارٹی کا صدر میاں شہباز شریف ہے اور اگر ہم پارٹی اور پارٹی قیادت کے ساتھ مخلص ہیں تو ہمارا آپس میں غصہ ناراضگی چلتا رہتا ہے ، کبھی زیادہ ہو جاتاہے ، کبھی کم ہو جاتا ہے اور کبھی صلح ہو جاتی ہے اور کبھی پھر ناراضگی ہوجاتی ہے یہ چیزیں بڑی پارٹیوں میں ہوتی ہیں اور بڑی پارٹیوں میں گروپنگ ہوتی ہے اس لئے ان چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا، فرق اس وقت پڑے گا جب پارٹی ،قیادت کے خلاف بغاوت کرے یا قیادت سے اپنا ناطہ توڑے ۔(ق)لیگ اور چوہدی پرویز الہی سے ربطوں کے سوال پر رانا ثناء اللہ خان کا کہنا تھا کہ سیاستدانوں کے آپس میں رابطے ہوتے ہیں ، چوہدری پرویز الہی ،عمرا ن خان نہیں اور نہ ہم عمران خان ہیں۔یہ ایک انوکھا سیاستدان پاکستان کی سیاست میں آیا ہے جواپنے سیاسی مخالفین یا اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ ہی نہیں رکھتا اوربڑے فخر سے کہتا ہے کہ میں تو اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ ملانے کو تیار نہیں ، رابطے سب کے آپس میں ہوتے ہیں اور ہونے چاہیں اور اس وقت بھی ہیں اور آئندہ بھی رہنے چاہئیں اگر اس سے یہ اخذ کرنا چاہیں کہ (ق)لیگ یا چوہدری پرویز الٰہی یا ان کے دیگر ساتھی ہماری ایماء پر یا ہماری وجہ سے ناراض ہو رہے ہیں یا ہماری وجہ سے کوئی اختلاف کررہے ہیں تو یہ بالکل غلط ہے ، اس اختلاف کی وجہ صرف اور صرف پی ٹی آئی کا رویہ ہے ، عمران خان کا رویہ ہے اور ان کی بری حکمرانی ہے اور اتنی بری حکمرانی اور انتی کم اکثریت سے کوئی حکومت چل نہیں سکتی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مستقبل میں (ن)لیگ اور (ق)لیگ پنجاب میں متبادل سیٹ اپ تشکیل دے سکتے ہیں اور اس بات کو خارج از امکان نہیں کہہ سکتے ، آگے چل کر کوئی ایسی صورت پیدا ہوتی ہے تو سیاست ممکنات کا کھیل ہے ، جو بھی ممکن صورت ہو گی اس میں ہم بھی اپنا کردار ادا کریں گے اور دوسری طرف سے بھی جو ہو گا وہ اپنا کردار ادا کرے گا، ایسی چیزوں پر یہ بالکل نہیں کہا جاسکتا کہ ایسے نہیں ہو گا، اگر ایسا کوئی وقت آتا ہے اور اس کی ضرورت محسوس ہو تی ہے تو ایسا بالکل ہو گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں