آئی جی سندھ کی تبدیلی ۔۔؟
شیئر کریں
یہ پہلا موقع ہے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ سرکار کسی ایشو پر اس قدرسنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہے لیکن یہ یہاں واضح رہے کہ اس ایشو سے عام آدمی کا قطعی تعلق نہیں ہے جبکہ یہ خالصتاًاختیارات اور مفادات کا گیم ہے ۔ بہر کیف اس وقت سندھ حکومت اپنی تمام تر تونائی آئی جی سندھ پولیس کلیم امام کو ہٹانے پر سر ف کررہی ہے اس ضمن میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وزیر اعظم عمران کو یکے بعد تین خط بھی لکھے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آئی جی سندھ کی تبدیلی کا معاملہ کس کروٹ بیٹھتا ہے حالانکہ 15جنوری کو یہ خبر آئی تھی کہ وفاق اور سندھ نئے آئی جی سندھ کے لیے مشتاق مہر کے نام پر متفق ہوگئی ہے لیکن اس وقت وفاق میں تبدیلی سرکار کا اتحادی سیاسی الائنس جی ڈی اے میدان میں نہیں اترا تھا ۔مسلم لیگ فنکشنل کے سر براہ اور حروں کے روحانی پیشوا پیر صاحب پگاڑا کی سربراہی میں قائم ہونے والا سندھ کا یہ سیاسی اتحاد صحیح معنوں میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے خلاف اپوزیشن کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس سیاسی اتحاد کی جانب سے بھی آئی جی سندھ کلیم امام کو ہٹائے جانے کے سندھ سرکار کے فیصلے کی مخالفت کی گئی ہے ۔ سندھ میں اپوزیشن پارٹی بالخصوص جی ڈی اے کی جانب سے آئی جی سندھ کے تبادلے کی مخالفت کرنے کی ایک بنیادی وجہ جو سمجھ آتی ہے وہ یہی ہے کہ کوئی بھی حکومت اپنے مخالفین کو دبائو میں لانے کے لیے جو پینتراسب سے پہلے استعمال میں لاتی ہے وہ پولیس کی خصوصی خدمات کے نتیجے میں ہی پیدا ہوتا ہے جبکہ سندھ جیسے صوبے میں حکومتی جماعت کے ارکان اسمبلی کو بھی اپنی من مانیاں کرنے میں پولیس کی خصوصی خدمات حاصل ہوتی ہیں ۔
بلا شبہ ملک کے دیگر صوبوں کی طرح سندھ میں بھی جھوٹی ، بے بنیاد اور من گھڑت ایف آئی آرزکا اندراج عام ہے جس پر آئی جی سندھ کلیم امام کے دور میں کسی حد تک کنٹرول کرنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کی وجہ سے اس پر مکمل طور پر کنٹرول نہیں کیا جاسکا ۔بہر کیف یہ کسی بھی اعلیٰ سرکاری افسر کی جانب سے یہ ایک انقلابی کوشش تھی جو کہ قابل تعریف بھی ہے اور ایسی کسی بھی کوشش کی کامیابی کے لیے عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بالا سطور میں جو بحث کی گئی ہے اس ہٹ کر اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت آئی جی سندھ کلیم امام کو ہٹانے پر تلی ہوئی ہے اگر محض اس لیے کہ وہ صوبائی سرکار کی ’’چاکری‘‘ نہیں کررہے ہیں اور ان کے اس عمل سے سرکار میں شامل شخصیات کے نجی مفادات پر ضرب پڑی رہی ہیں ۔جیسا کہ خبریں سامنے آئی کہ پولیس کے اعلیٰ افسران رضوان احمد جو کہ شکار پور میں کچے کے علاقوں میں ڈاکوئوں کا تعاقب کررہے تھے جبکہ خادم حسین رند پولیس کے اہم معاملات دیکھ رہے تھے اور ان افسران کا آئی جی سندھ کلیم امام کو اعتماد میں لیے بغیر تبادلہ کردیا گیا جس کا شکوہ آئی جی سندھ کلیم امام کی جانب سے دسمبر میں ایک خط کے ذریعے چیف سیکریٹری سندھ سید ممتاز علی شاہ سے بھی کیا گیا ،یہاں یہ بھی واضح رہے کہ رضوان احمد وہی پولیس افسر ہیں جن سے وزیر اطلاعات سعید غنی خصوصی طور پر ناراضگی رکھتے ہیں ۔سندھ میں پولیس کے سربراہ کے تبادلے کی حوالے سے معاملہ سنگین صورت اختیار کرتا جارہا ہے اور معاملہ کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے وفاقی کابینہ نے اس کی ذمہ داری گورنر سندھ عمران اسماعیل اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو سونپی ہے ۔بہر کیف وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی جانب سے اس ضمن میں گورنر سندھ عمران اسماعیل سے مشاورتی عمل کو غیر قانونی اور قواعد کے منافی قرار دیا جاچکا ہے جس کا ذکر ان کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کو لکھے گئے اپنے تیسرے خط میں کیا گیا ہے اس خط میں یہ واضح بھی کیا گیا ہے کہ آئی جی کی تبدیلی کے حوالے سے وفاقی کابینہ کا فیصلہ 1993کے معاہدے کی خلاف ورزی ہے ۔
بہر کیف آئی جی سندھ کی تبدیلی کا معاملہ تو کسی صورت حال ہو ہی جائے گا لیکن پیپلز پارٹی کی سندھ سرکار سے یہ سوال کیا جائے کہ وہ صوبے کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اس قدر سنجیدگی کا مظاہرہ کب کرے گی جتنا کہ وہ آئی جی سندھ کلیم امام کو ہٹنانے کے لیے کررہی ہے ۔ سندھ کے سرکاری اداروں میں کرپشن عام ہے ،میرٹ کا قتل اور سفارشی کلچر کا چلن ہے،نوکریاں برائے فروخت ہیں ،صوبے کے دیہی علاقوں میں علاج معالجہ کی سہولت ناپید ہے ،سرکاری اسکولوں سے اساتذہ غائب اور گھر بیٹھے تنخوائیں لینے کا رواج عام ہے ،بلدیاتی نمائندے سرکاری زمینوں پر قبضے کرررہے ہیں جبکہ اپنے سیاسی اثرو رسوخ کو اپنے نجی کاروبار اور مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں ،غریب عوام اور مخالفین کو کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر اپنے کالے کرتوں پر پر دہ ڈالنے اور اسے تحفظ دینے کی روایت عام ہے ،ایسے میں کراچی اور تھر کی صورتحال تو سب کے سامنے ہے جہاں عوام کے بنیادی حقوق کے ساتھ جو کھلواڑ ہورہا ہے اس کی مثال ماضی میں کہیں نہیں ملتی یہی نہیں بلکہ سندھ کے بعض بڑے شہروں میں غیر سندھی عوام کے ساتھ جو سلوک برتا جارہا ہے وہ کسی صورت تعریف کے قابل نہیں ہے ۔یہاں یہ واضح رہے کہ میرا یہ عریضہ صرف سندھ کے حوالے سے اسی طرح کے مسائل اور ایشوز یقینا ملک کے دیگر صوبوں میں بھی ہے جو کسی صورت نظر انداز نہیں کیے جاسکتے ۔بہر کیف سندھ میں ایشو تو بنیادی سہولتوں کے حوالے سے بھی بہت ہیں لیکن یہاں صرف اتنا کہ سندھ سرکار کو چاہئے کہ وہ اپنی صفوں میں میرٹ
اور قانون کی بالا دستی کو فروغ دینے کا موحول پیدا کرے تاکہ اسے کسی بھی بڑے عہدے پر تعینات افسر کو ہٹنانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ لہذا معاملہ محض آئی جی سندھ کلیم امام کی خدمات وفاق کے حوالے کرنے کا نہیں ہے بلکہ معاملہ ترجیحات کا ہے اور سندھ حکومت کی ترجیحات میں سب سے اہم ترجیح محض آئی جی سندھ کلیم امام کو تبدیل کرنادکھائی دیتی ہے اور ایسے میںکیا آئی جی سندھ کی تبدیلی سے صوبے کے دیگر مسائل حل ہوجائیں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔