خطہ کشیدگی میں اضافے کا متحمل نہیں ہوسکتا ،شاہ محمود قریشی
شیئر کریں
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان کی خواہش ہے خطہ جنگ کی نئی دلدل میں نہ پھنسے ، پاکستان امن کا خواہشمند ہے ۔ امریکا میں ایک بڑا طبقہ جنگ نہیں چاہتا، خطہ کشیدگی میں اضافے کا متحمل نہیں ہوسکتا ، گفت و شنید سے معاملات حل ہونے چاہئیں، طاقت کے استعمال سے حالات بگڑ جائیں گے ۔نجی ٹی وی سے انٹرویو میں شاہ محمود قریشی نے کہاکہ ہم نے یہ نہیں سوچنا کہ امریکہ کیا چاہا رہا ہے بلکہ ہم نے دیکھنا ہے کہ ہمارے مفاد میں کیا ہے ،ہم نے دیکھنا ہے کہ پاکستان کے مفاد میں کیا ہے ، پاکستان کے مفادمیں یہ ہے کہ خطہ میں عدم استحکام نہ ہو، پاکستان کے مفاد میں ہے کہ یہ علاقہ اور خطہ کسی نئی جنگ میں مبتلا نہ ہو جائے اور یہ خطہ کسی نئی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے بھیانک اثرات ہو سکتے ہیں جو کہ انسانی اور معاشی دونوں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا، اسٹاک مارکیٹس میں مندی کا رجحان دکھائی دے رہا ہے ، اس کا اثر صرف پاکستان اور خطہ پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی معیشت پر ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی پوری کوشش ہے کہ برادر اسلامی ملکوں کے تعلقات میں بگاڑ پیدا نہ ہو، ہماری یہ کوشش ہے کہ طاقت کا استعمال نہ کیا جائے ، ہم یہ چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے جو اصول ہیں، جو یواین چارٹر ہے اور جو بین الاقوامی قانون ہے ان کا احترام کیا جائے ۔ ہم یکطرفہ کاروائی کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ طاقت کا استعمال ہو اس سے حالات مزید بگڑیں گے ۔ میری خطہ کے مختلف وزراء خارجہ سے گفتگو ہورہی ہے اور ر ابطے ہو رہے ہیں تقریباً سب کی یہی سوچ ہے کہ ہم نے صبروتحمل سے سب پارٹیوں کو یہ کہنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور معاملات کو تنائو کی طرف نہ لے کر جائیں اور تنائو کو کم کرنے کے لئے جو کردار ہم ادا کر سکتے ہیں وہ کریں گے ۔ اللہ نہ کرے جنگ ہو، جنگ کا فائدہ کسی کو نہیں ہو گا، جنگ کا فائدہ پورے خطہ کو نہیں ہو گا اور دنیا کو نہیں ہوگا، جنگ خطرناک قدم ہو گا۔پہلے ہی اس خطہ میں کافی جنگیں چھڑی ہوئی ہیں، پہلے ہی پورا مشرق وسطیٰ کئی دہائیوں سے کئی تنازعات کا شکار ہے اور ان تنازعات کی وجہ سے جو یہاں معاشی ترقی اور خوشحالی آنی تھی اس سے یہ خطہ محروم رہ گیا،پاکستان کی خواہش ہے خطہ جنگ کی نئی دلدل میں نہ پھنسے ،پاکستان امن کاخواہشمند ہے ،امریکا میں بھی ایک بڑا طبقہ جنگ نہیں چاہتا ۔ ہماری مشرقی سرحد پر بھارت کی صورتحال سب کے سامنے ہے ، بڑی تیزی سے وہاں حالات بگڑ رہے ہیں، مقبوضہ کشمیر تو ان کے ہاتھ سے نکل گیا ،صرف جبراور عسکری بل بوتے پر انہوں نے لوگوں کو وقتی طور پر دبایا ہوا ہے ، لیکن اب معاملات کشمیر سے آگے جاچکے ہیں اور اب تو دلی کیا ہر ریاست اس کی لپیٹ میں آگئی ہے اب تو ان کے طالب علم سڑکوں پر ہیں ، آج تو ان کی یونینز نے ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے اور ان حالات میں مشرقی سرحد پر ہمارے خطرات بڑھ گئے ہیں اور بھارت توجہ ہٹانے کے لئے فالس فلیگ آپریشن کر سکتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں اگر جنگ چھڑتی ہے اور حالات مزیدبگڑتے ہیں تو افغانستان کا امن کا عمل جو آگے بڑھ رہا تھا اس میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے ، پاکستان کو ان سب چیزوں کو سامنے رکھ کر حکمت عملی سوچنی ہے ۔ ان کا کہنا تھا ہم سمجھتے ہیں کہ امن اور گفت وشنید کا راستہ اپنا یا جائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جن پر ایران نے حملہ کیا ہے وہ اس کا اندازہ لگا رہے ہیں اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق کوئی جانی نقصان نہیں ہے اور ابھی تفصیلات کا انتظار ہے اور ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ان کا جنگ کا ارادہ نہیں ہے اور وہ تنائو میں اضافہ نہیں چاہتے اور ان کے بیان میں سنجیدگی اور ٹھہرائو تھا اور انہوں فہم وفراست کا مظاہرہ کیا۔ میری رائے میں امریکہ کو بھی محتاط رہنا چاہیئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں امریکی صدر کے خطاب کا انتظار کرنا چاہیئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ ایک بہت بڑی لابی جنگ کی خواہشمند نہیں ہے اور امریکہ میں بہت بڑا طبقہ اپنی باہر تعینات افواج کی واپسی کا خواہاں ہے اور کسی نئی جنگ میں امریکہ کو دھکیلنے کا خواہشمند نہیں ہے ۔