میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ایران سے جوہری معاہدہ ختم کرنا تباہ کن ہوگا، ٹرمپ کو سی آئی اے کی تنبیہ

ایران سے جوہری معاہدہ ختم کرنا تباہ کن ہوگا، ٹرمپ کو سی آئی اے کی تنبیہ

منتظم
جمعرات, ۱ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

شام کی صورتحال میں خرابی کا ذمے دار ماسکوہے ، نومنتخب امریکی صدر روسی وعدوں سے ہوشیار رہیں،عنقریب سبکدوش ہونے والے جان برینن کا برطانوی ذرائع ابلاغ کو انٹرویو
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے خاتمے اور روس کے ساتھ قریبی تعلقات کے قیام کا اشارہ دیا تھا،سی آئی اے چیف نے حماقت قرار دے دیا
شہلا حیات
امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سربراہ نے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خبردار کیا ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کا خاتمہ ‘تباہ کن اور ‘حماقت کی انتہا ہوسکتا ہے۔بی بی سی کے ساتھ انٹرویو میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان برینن نے شام میں صورتحال میں خرابی کا الزام ماسکو پر عائد کرتے ہوئے نومنتخب صدر کو مشورہ دیا ہے کہ وہ روسی وعدوں سے ہوشیار رہیں۔خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے خاتمے اور روس کے ساتھ قریبی تعلقات کے قیام کا اشارہ دیا تھا۔جان برینن سی آئی اے کے سربراہ کے عہدے پر چار سال تعینات رہنے کے بعد جنوری میں اس عہدے سے سبکدوش ہوجائیں گے۔برطانوی ذرائع ابلاغ کو اپنے پہلے انٹریو میں جان برینن نے ان معاملات کی نشاندہی کی جس میں نئی انتظامیہ کو ‘ہوشیاری اور تنظیم کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں دہشت گردی کے متعلق استعمال کی جانے والی زبان، روس کے ساتھ تعلقات، ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ اور سی آئی اے کے خفیہ اقدامات کی صلاحیتیں شامل تھیں ۔ جان برینن کا کہنا تھا کہ ‘میرے خیال میں یہ حماقت کی انتہا ہوگی اگر نئی انتظامیہ یہ معاہدہ ختم کر دے۔جان برینن نے ڈونلڈ ٹرمپ نے آنے والے ٹیم کو انتخابی مہم کے دوران ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی تنسیخ کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔
جان برینن نے بتایا کہ ‘میرے خیال میں یہ تباہ کن ہوگا۔ واقعی ایسا ہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس کی مثال نہیں ملتی کہ ایک معاہدہ جو گزشتہ انتظامیہ نے کیا وہ دوسری انتظامیہ ختم کر دے۔ انھوں نے کہ ایسا کرنے سے ایران میں سخت گیروں کو تقویت ملنے کا خطرہ ہے اور دیگر اقوام بھی ایران کی ازسرنو کوششوں کے جواب میں جوہری پروگرام شروع کر سکتی ہیں۔
ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے بعد جب بی بی سی نے برطانیہ کے تھنک ٹینک رائل یونائٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ٹموتھی سٹیفرڈ سے پوچھا تھاکہ ایٹمی معاہدے میں جیت کس کی ہوئی ہے؟تواس کے جواب میں تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ ’امید ہے دونوں کی۔ ایران کو امریکی، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی جانب سے عائد پابندیوں میں نرمی مل جائے گی جبکہ امریکہ کو ایران کے جوہری پروگرام پر پابندیوں میں کامیابی ملی ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’جس طریقے سے یہ معاہدہ بنایا گیا ہے اس میں عالمی طاقتوں کو قلیل مدتی برتری ملی ہے، لیکن ہتھیاروں پر جزوی پابندی رہے گی، میزائلوں پر پابندی رہے گی اور ایران کے جوہری پروگرام پر پابندیاں عائد ہوں گی۔ ایران کو اس معاہدے کے چند سال گزر جانے کے بعد پابندیاں ہٹائے جانے سے فائدہ ہو گا۔ جب یہ معاہدہ10سے 15 سال کے عرصے میں داخل ہو گا تو ایران کو زیادہ فائدہ پہنچے گا اور معاہدے کے آخری برسوں کے دوران جوہری پروگرام پر لگی پابندیاں ہٹنا شروع ہوں گی۔
تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ’ امریکیوں کے خیال میں ایران کے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی صلاحیت محدود کرنے سے خطے میں امن آئے گا کیونکہ خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ کی اہم وجہ بھی یہی ہے اور دوسرے ممالک بھی جوہری صلاحیت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ خطے میں امریکا کے اتحادی اسرائیل اور خلیجی ممالک خاص طور پر پریشان ہیں کیونکہ ا±ن کے خیال میں ایران کے پاس تیل کی دولت کے علاوہ منجمد اثاثوں کے ذریعے زیادہ وسائل آ جائیں گے۔ ایران کو اسلحے کی فروخت پر پابندی بھی رفتہ رفتہ ختم ہو جائے گی۔ ایران آئندہ 10 سے 15 برسوں میں خطے میں زیادہ طاقت ور ہو کر اپنا اثر و رسوخ ظاہر کرے گا۔ایران کے صدر حسن روحانی نے معاہدے کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آج ہم ایک نئے مقام پر پہنچے ہیں۔ جوہری معاہدہ دنیا سے تعلقات کی نئی شروعات ہیں۔ ہم نے ہمیشہ کہا کہ ان مذاکرات میں ہار جیت نہیں ہے۔ یہ ایسے ہونے چاہئیںجو سب کو منظور ہوں۔‘معاہدے کے بعد صدر بارک اوباما نے کہا تھا کہ یہ معاہدہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کا بہترین طریقہ کار تھا اور ایران کے لیے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی تمام راہیں بند کر دی گئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ معاہدہ دنیا میں جوہری ہتھیاروں کے پھیلاﺅ میں اہم رکاوٹ ہے۔صدر اوباما نے امریکی کانگریس کے حوالے سے کہا تھا کہ ’اگر کانگریس نے ایران معاہدے کے خلاف کوئی قانون سازی کی تو میں اس کو ویٹو کر دوں گا۔‘انھوں نے کہا تھا کہ اس معاہدے کی غیر موجودگی میں یہ متوقع ہے کہ خطے کے دیگر ممالک بھی جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کریں اور دنیا ایک مرتبہ پھر ہتھیاروں کی دوڑمیں پھنس جائے۔اس سے قبل یورپی یونین کی خارجہ امور کی مندوب فیدریکا موگیرینی اور ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھاکہ اس معاہدے کو منظوری کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ہونے والے مذاکرات میں 6 عالمی قوتیں امریکا، برطانیہ، روس، چین، فرانس، جرمنی اور ایران کے درمیان جوہری پروگرام محدود کرنے پر بات چیت کی مہم کئی ماہ سے جاری رہی تھی۔ اس معاہدے کے لیے مذاکرات 2006 میں شروع ہوئے تھے۔ معاہدے کے تحت ایران کے خلاف عائد عالمی اقتصادی پابندیاں ختم کر دی جائیں گی اور ایران اپنی جوہری تنصیبات کو اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے لیے کھول دے گا۔
اس معاہدے کے بعد ایران کے صدر حسن روحانی نے ایرانیوں سے خطاب میں اسرائیل کے بارے میں کہا کہ آج غزہ، لبنان، یروشلم اور غربِ اردن کے افراد بہت خوش ہوں گے کیونکہ صیہونی حکومت کی کوششیں ناکام ہوئی ہیں۔صیہونی حکومت ہمسایہ ملکوں کو دھوکا نہیں دے پائی گی۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اس معاہدے کو ایک ’تاریخی معاہدہ‘ قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا تھا۔اور کہاتھا کہ ’میں پر امید ہوں کہ اس معاہدے سے مشرق وسطیٰ میں سیکورٹی چیلنجز سمیت بہت سے معاملات میں تعاون بڑھے گا۔ یہ معاہدہ خطے میں امن و استحکام میں اہم کردار اد کرے گا۔ اقوام متحدہ تمام فریقین کے ساتھ معاہدہ پر عمل درآمد کے لیے تیار ہے۔ہم ایران کے ایٹمی تنصیبات تباہ بھی کر سکتے تھے۔ لیکن اس سے مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگ چھڑ جاتی۔
اس ساری صورتحال میں اگر نومنتخب امریکی صدر نے ایران سے معاہدہ ختم کیا تو دنیا کی 6بڑی طاقتوں کی برسوں کی محنت ضائع ہوجائے گی ۔
انٹرویو میں جان برینن کا شام کی صورتحال کے حوالے سے کہنا تھا کہ شامی حکومت اور روس دونوں شامی شہریوں کی ہلاکت کے ذمہ دار ہیں جسے انھوں نے ‘ہیبت ناک قرار دیا۔صدر اوباما کی انتظامیہ نے صدر بشارالاسد کے خلاف لڑنے والے اعتدال پسند باغیوں کی حمایت کی پالیسی اپنائی تھی۔جان برینن نے شامی حکومت اور روس دونوں کو شہریوں کی ہلاکت کا ذمہ دار قرار دیا۔سی آئی اے کے سربراہ کا کہنا تھا کہ انھیں یقین ہے کہ امریکا کو یہی پالیسی جاری رکھتے ہوئے باغیوں کی شام، ایران، حزب اللہ اور روس کے خلاف مدد کرنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ روس شام میں مستقل میں اہم اکائی رہے گا لیکن انھوں نے کسی بھی قسم کے معاہدے پر پہنچنے پر شک و شبہات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ماسکو مذاکرات میں ‘چال باز’ رہا ہے، اور حلب کو ‘قابو کرکے اس عمل سے نکلنا چاہتا ہے۔ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کی جانب سے اس امر کا اظہار کیا گیا تھا کہ وہ متعدد معاملات پر روس کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کوششیں کریں گے۔جان برینن کا کہنا تھا کہ ‘میرے خیال میں صدر ٹرمپ اور ان کی نئی انتظامیہ کو روسی وعدوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی وہ وعدے نبھانے میں ناکام رہا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں