خط۔وط۔۔۔ (علی عمران جونیئر)
شیئر کریں
دوستو، ایک زمانہ تھا جب خط لکھتے تھے جو دنوں اور ہفتوں میں اپنی منزل تک پہنچتا تھا ،جواب بھی اسی طرح شدید انتظار کے بعد ملتا تھا۔۔ فورٹی پلس والوں کے لئے خط لکھنا کوئی نئی چیز نہیں ہوگا،یہ بھی ایک عشق تھا، کچھ لوگ قلمی دوستی کرتے تھے، کچھ احباب کے نام خطوط لکھتے تھے ، کاروباری طبقہ بھی اپنے مقاصد کے لئے خط وط لکھتے تھے لیکن کچھ خط ’’دستی‘‘ دیئے یا بھیجے جاتے تھے، جسے عاشقانہ خطوط کہتے تھے۔۔ لیکن فی زمانہ وقت جس تیزی سے ترقی کرتاگیا، خط اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔۔ جو کام پہلے دنوں اور ہفتوں میں ہوتا تھا اب سیکنڈوں میں ہوجاتا ہے۔۔ ایس ایم ایس، واٹس ایپ، فیس بک سمیت دیگر سوشل میڈیا کے ذرائع نے پوری دنیا کو گلوبل ولیج میں تبدیل کردیا ہے۔۔ اب عاشقوں نے بھی خط وط لکھنا چھوڑ دیئے ہیں، ان کے لئے موبائل کمپنیوں نے نائٹ پیکچز نکال دیئے ہیں۔۔چلیں اب کچھ باتیں خط وط یا خطوط کی کرلیتے ہیں تاکہ ہمارے بزرگ اور فورٹی پلس قارئین یادوںکے حسین سپنوں میں کھو جائیں۔۔
لیجنڈ انشائیہ نویس ابن انشا اپنے مضمون ’’ ابتدائی حساب ‘‘ میں خط کی اقسام کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ۔۔۔خط کی کئی قسمیں ہیں۔ سیدھے خط کو خطِ مستقیم کہتے ہیں۔ چونکہ یہ بالکل سیدھا ہوتا ہے اس لئے سیدھے آدمی کی طرح نقصان اٹھاتا ہے۔۔۔تقدیر کے لکھے خط کو خطِ تقدیر کہتے ہیں، جسے فرشتوں نے سیاہی سے لکھا ہوتا ہے، اس لئے اس کا مٹانا مشکل ہوتا ہے۔۔۔جس خط میں ڈاکٹر صاحب نسخے لکھتے ہیں اور جو کسی سے پڑھے نہیں جاتے اسے خطِ شکستہ کہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج کل لوگ بیماریوں سے زیادہ نہیں مرتے بلکہ غلط دوائیوں سے مرتے ہیں۔۔۔خط کی دو قسمیں اور بھی ہیں مثلاً حسینوں کے خطوط۔یہ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو حسینائیں اپنے چاہنے والوں کے نام لکھتی ہیں، جن میں دنیا کے اْس پار جانے کا ذکر ہوتا ہے جہاں ظالم سماج دو محبت کرنے والوں تک نہ پہنچ سکے۔دوسرے ’’حسینوں کے خطوط‘‘ یعنی نقش و نگار جن کی بدنمائی چھپانے کے لئے ہر سال کروڑوں روپے کی کریمیں، لوشن، پاؤڈر اور پرفیومز وغیرہ استعمال کرلئے جاتے ہیں۔
خاتون نیوزکاسٹراپنے محبوب کو کس طرح خط لکھا کرتی تھی۔۔السلام و علیکْم،پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق شام کے چھ بجے ہیں، امی جان پان کے لئے چھالیہ کتر رہی ہیں اور اباحضورحقہ گڑگڑارہے ہیں، سب سے پہلے خاص خاص باتیں۔چچی کے خط سے خبر موصول ہوئی کہ تم شادی کے لئے شور مچا رہے ہو۔خط ملتے ہی اماں کا شادی کے لئے فرنیچر لاہور سے منگوانے کا ارادہ ہے مگر ابا کا اصرار ہے کہ فرنیچر سیالکوٹ سے ہی خریدا جائے۔تفصیلی باتیں رات کا کھانا بنانے کے بعد لکھوں گی۔اب رات کا کھانا بنانے کے بعد خبروں کی تفصیل کے ساتھ حاضر ہوں۔پیارے محبوب تم نے شادی کے لئے اتنا شور مچایا ہے کہ ہمارے گھر بھر میں تھر تھلی مچ گئی ہے۔چچی کے خط سے خبر ملی کہ وہ اگلے ہفتے دن مقرر کرنے کے لئے آ رہی ہیں۔مجھے جب سے یہ خبر موصول ہوئی ہے میرے پاؤں زمین پر نہیں ٹِک رہے۔پیارے محبوب،گھر والے شادی کی تیاری زور و شور سے کر رہے ہیں اماں چاہتی ہیں کے فرنیچر لاہور سے منگوایا جائے لیکن ابا نے یہ کہہ کر ٹانگ اڑا دی کہ سیالکوٹ میں بھی اعلی قسم کا فرنیچر دستیاب ہے۔اماں ابا کی سرد جنگ شروع ہونے ہی والی تھی کہ اسلام آباد سے بھائی صاحب عین موقع پر پہنچ گئے۔انہوں نے آتے ہی بیچ بچاؤ کرا دیا۔ورنہ اماں ابا کی جنگ میں گھر کی کافی چیزوں کا نقصان ہونے کا اندیشہ تھا۔کراچی سے خالہ رضیہ کے فون سے یہ رپورٹ موصول ہوئی کہ وہ شادی سے دو ہفتے پہلے ہی درجن بھر بچوں سمیت تشریف کا ٹوکرا لا رہی ہیں ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی ہے کہ دو مہینے رہیں گی۔اس خوفناک خبر کے سنتے ہی گھر میں ہر ایک کو زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے۔اب موسم۔۔گھر بھر میں موسم کی صورتحال کچھ یوں ہے کہ اماں کی گرج دار آواز ہر طرف سْنائی دے رہی ہے اس صورتحال کو دیکھ کر گھر کا ہر ایک فرد ابا سمیت شادی کی تیاریوں میں مصروف ہے۔پیارے ساجن،گھر میں شور وغْل دیکھ کر مجھے تو ہر طرف دھنک رنگ محسوس ہو رہے ہیں اپنی خوشی اور گھر کی آب و ہوا تم تک پہنچانے کے لئے خط لکھ رہی ہوں اس سے پہلے کہ اماں کی گرج دار آواز کے ساتھ مجھے دو مکے پڑ جائیں خط لکھنا بند کرتی ہوں۔انشاء اللہ ملاقات نزدیک ہے تب تک کے لئے اجازت۔
ایک ڈاکٹرشوہر کا واقعہ بھی آپ کے گوش گزار کردوں جو ماہر کیمیا ہونے کی وجہ سے خشک مزاج واقع ہوئے ہیں۔در اصل ڈاکٹر صاحب سے ان کی بیوی کی شکایت تھی کہ وہ انہیں پیار و محبت بھرے خطوط نہیں لکھتے۔ آخر خدا خدا کرکے ڈاکٹر صاحب کا کفر ٹوٹااور انہوں نے رفع شکایت کی ٹھان لی۔ عمر(خاص طور سے وہ عمر جس میں آج عشق و محبت کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں) تو ان کی گزری تھی کتابوں میں اور لیباٹری میں ، کیا جانیں گل و بلبل ، بادہ و ساغر ، ساقی و میخانہ ، شراب و شباب، پنکھڑی و گلاب،ہجر وملاقات اور اردو شاعری کے لوازمات۔ لہذاانہوں نے بعد از خرابی بسیار جو محبت نامہ تیار کیا وہ اس طرح سے تھا۔۔ ڈیئر!جب تم مسکراتی ہو تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ٹیسٹ ٹیوب آپس میں ٹکرائی ہو۔ میرا دل تمہار ا منہ دیکھ کر مرکری کی طرح تڑپنے لگتا ہے۔ اف وہ تمہارا میری طرف چہرہ فوکس کرکے مسکرانا ،قسم ہے نیوٹن کی !مجھے یوں لگتا ہے جیسے میرا دل فاسفورس کا ایک ٹکڑا ہے جو نوے درجے پر جل رہاہے۔ تمہارے بغیر میری زندگی فاسفورس سے بھی ہلکی ہے۔ مجھے تمہاری محبت نے کاربن ڈائی آکسائڈ کی طرح بے رنگ ،بے بواور بے ذائقہ بنا دیا ہے۔میں تمہارے جدائی میں گندھک کی طرح زرد ہوگیا ہوں۔ آخر میں کب تک دھواں دینے والے لیمپ کی طرح جلتا رہوں گا۔ تمہیں کیا معلوم تمہارا قرب کیلشیم سے زیادہ اثر رکھتاہے۔ تمہاری سائنس میرے لیے آکسیجن سے زیادہ افادیت رکھتی ہے۔ جب میں نے تمہیں محدب عدسے میں دیکھاتو تم اور زیادہ حسین نظر آئی۔ کاش کوئی ایسا لٹمس پیپر ہو جس میں تمہیں میرے دل کا رنگ نظر آسکے ، پلیز تم میرے پیار کو سمجھو ایسا نہ ہو کہ میرے دل کو زنگ لگ جائے ، تمہاری نفرت کا سلفورک ایسڈ پڑے اور میری زندگی ہائیڈروجن بن کر اڑ جائے۔۔فقط تمہارا۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔رشتے خون کے نہیں احساس کے ہوتے ہیں ،اگر احساس ہو تو اجنبی بھی اپنے ہو جاتے ہیں اور اگر احساس نہ ہو تو اپنے بھی اجنبی ہو جاتے ہیں۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔