آرمی چیف کے حوالے سے قانون سازی اتفاق رائے سے ہونی چاہئے ،احسن اقبال
شیئر کریں
پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سیکرٹری جنرل اور سابق وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاک فوج ہمارا قومی ادارہ ہے اور اس کے سربراہ کے حوالہ سے جو بھی قانون سازی ہونی چاہئے وہ اتفاق رائے سے ہونی چاہئے ، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالہ سے ہم سب کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے تفصیلی فیصلہ کا انتظار ہے اور اس حوالہ سے ہم نے کوئی حتمی مشاورت نہیں کی۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ حکومت کی کسی قسم کی کمیٹی سے کوئی بات چیف کرنا بیکار ہے اور اگر کوئی اتفاق رائے پیدا کرنا ہے اور بات کرنی ہے تو عمران نیازی کو خود اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنا پڑے گا، نواز شریف کے پلیٹ لیٹس ابھی تک مستحکم نہیں ہوئے اور ڈاکٹرز ادویات کے ذریعہ انہیں ایک سطح پر برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نواز شریف کے علاج کے لئے امریکہ جانے کا امکان 50فیصد ہے اور جس دن وہ صحتیاب ہوں گے پہلی فلائٹ لے کر پاکستان آئیں گے ، ایک بیٹی کی یہ خواہش کے وہ اپنے والد کی عیادت کے لئے یا ان کو ملنے کے لئے جانا چاہتی ہے ، یہ ایک فطری خواہش ہے اور اس کے اوپر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا کوئی لندن پلان نہیں، ہمارے تمام پلان پاکستان پلان ہیں اور یہ پاکستان کے لئے ہیں، میاں محمد نواز شریف علاج کے لئے لندن آئے ہیں اور میاں محمد شہباز شریف ان کے ساتھ ہیں، ملک میں اہم معاملات درپیش ہیں جن کے حوالہ سے ضروری تھا ہم شہباز شریف سے مشورہ کرتے اور اس مقصد کے لئے ہم چند لوگ آئے تھے اور اب واپس جارہے ہیںاس کے بعد ساری سیاست واپس پاکستان میں چلی جائے گی ۔انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالہ سے ہم سب کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے تفصیلی فیصلہ کا انتظار ہے اور اس حوالہ سے ہم نے کوئی حتمی مشاورت نہیں کی، پاک فوج ہمارا قومی ادارہ ہے اور اس کے سربراہ کے حوالہ سے جو بھی قانون سازی ہونی چاہئے وہ اتفاق رائے سے ہونی چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ جب سے عدالتی فیصلہ آیا ہے عمران خان نے اپوزیشن کے خلاف حملے شروع کر دیئے ہیں ۔حکومت خود درجہ حرارت بڑھاتی جار ہی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ حکومت کا کوئی اپنا منصوبہ ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ اپوزیشن کے ساتھ ان کا ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہو سکے اور یہ قانون سازی اتفاق رائے سے ہو۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ حکومت کی کسی قسم کی کمیٹی سے کوئی بات چیف کرنا بیکار ہے اور اگر کوئی اتفاق رائے پیدا کرنا ہے اور بات کرنی ہے تو عمران نیازی کو خود اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنا پڑے گا، ہم نے ماضی میں ان کی جتنی بھی کمیٹیوں سے بات کی ہے ان کی کمیٹیوں نے ہمیشہ ڈیفالٹ کیا ، ان کی کمیٹیاں پروڈکشن آرڈرز کے حوالہ سے وعدہ کر کے جاتی ہیں اور عمران خان ویٹو کردیتے ہیں، ویٹو کی طاقت جس شخص کے پاس ہے جب تک وہ بات چیت نہیں کرے گا اس وقت تک آپ کسی کے ساتھ کیا بات کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیشہ سے ملک کی روایت رہی ہے کہ اہم معاملات پر وزیر اعظم خود پارلیمانی رہنمائوں کو اعتماد میں لیتا ہے لیکن یہ تو ایک شہنشاہ صاحب ہیں اور ایمپرر عمران نیازی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہ شاید دنیا میں کسی سے بات چیت نہیں کر سکتے ، ان کے وزیر ہیں اور ان کی بی ٹیم ہے وہ لوگوں سے بات چیت کرے گی اور اس سے معاملات چلیں گے اور یہ نعوذُ بااللہ کسی اوپر عرش پر بیٹھے ہیں،اگر مرکز میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کا سربراہ اپوزیشن لیڈر کے ہو پاس تو پھر یہی اصول تمام صوبائی اسمبلیوں میں نافذ ہونا چاہئے ،شہباز شریف کی جانب سے پی اے سی کی سربراہی چھوڑنے کے معاملہ پر ہم نے بلاول بھٹو زرداری، سید خورشید احمد شاہ، ایم ایم اے کی قیادت اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ ڈاکٹرز کی رائے ہے کہ نوا ز شریف کو علاج کے امریکہ لے جانا چاہئے شاید وہاں ان کا بہتر علاج ممکن ہو سکے ،ڈاکٹرز جو حتمی رائے دیں گے ہم اس پر عمل کریں گے ، نواز شریف کے علاج کے لئے امریکہ جانے کا امکان 50فیصد ہے اور جس دن وہ صحتیاب ہوں گے پہلی فلائٹ لے کر پاکستان آئیں گے ، گزشتہ ایک سال میں 12لاکھ افراد بیروزتار ہو گئے ہیں جبکہ 6سے 8لاکھ افراد خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں،کسی بھی مارکیٹ میں چلے جائیں ہر تاجر ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر بیٹھا ہے ، مارکیٹ سے سرمایا غائب ہو گیا ہے ، اس وقت سرمایا یا پاکستان سے بھاگ رہا ہے یا زیر زمین چلا گیا ،ہم نے نواز شریف کی تیمارداری کی ہے اور ملکی معاملات پر زیادہ بات نہیں کی کیونکہ ان کی صحت ٹھیک نہیں ہے تاہم یقیناً وہ ملک کے حالات پر تشویش میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک بیٹی کی یہ خواہش کے وہ اپنے والد کی عیادت کے لئے یا ان کو ملنے کے لئے جانا چاہتی ہے ، یہ ایک فطری خواہش ہے اور اس کے اوپر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ عدالت کے حکم پر ہم حکومت کے پاس گئے ہیں کیونکہ عدالتی حکم پرسب کو عملدرآمد کرنا پڑتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ مریم نواز کو نوازشریف کے سامنے گرفتار کرنے کا مقصد انہیں ذہنی طور پر ٹارچر کرنا تھا کہ دیکھیں ہم آپ کی بیٹی کو پکڑ کر لے جارہے ہیں، نواز شریف اس وقت بڑی سنگین بیماری سے نبردآزما ہیں ، اس موقع پر ہم مریم نواز کو میڈیا کی خبر بنانے کے لئے سیاسی سرگرمی میں ڈالیں ، یہ حکومت پھر انہیں پکڑے گی ۔انہوں نے کہا کہ میڈیا کو پتہ ہے کون کس کے کہنے پر پکڑتا ہے ، اگر میں متحرک ہوتا ہوں اور چار بیان دیتا ہوں تو میڈیا چلا دیتا ہے احسن اقبال کے گرد گھیرا تنگ ہو گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اب گھیرا ان حکمرانوں کے گرد تنگ ہو گا جنہوں نے کشمیر کا سودا کیا ہے ، جنہوں نے سی پیک کو بند کیا ہے ، جنہوں نے معیشت کو تالے ڈالے ہیں، ہم ان ہتھکنڈوں سے نہ گھبرانے والے ہیں ، نہ ڈرنے والے ہیں، ہماری جدوجہد اور ہمارا اصولی مئوقف قائم رہے گا ۔