سول و ملٹری بیوروکریسی کا شکوہ کیوں ؟
شیئر کریں
اشتیاق احمد خان
اقتدارواختیارات خیرات نہیں کہ مانگنے سے مل جائیں۔ اقتدار واختیار وہ معاملہ ہے جس میں باپ بیٹے کا نہیں ہوتا اور بیٹا باپ کا۔ یقین نہ ہو تو تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں ،تاریخ ہند پر اعتبار نہ ہو تو تاریخ برطانیہ ،فرانس واسپین پڑھ لیں، ہرجگہ زبان وبیان کا انداز مختلف ہو گا لیکن تاریخ کا بنیادی نکتہ ایک ہی ملے گا۔
اقتدارواختیار چاہے دور بادشاہت میں ہو یا جمہوریت میں، یہ مانگنے سے نہیں ملتا یہ چھینا پڑتا ہے اس کے لیے مصائب برداشت کرنا پڑتے ہیں پھر یہ آپ کا غلام ہوتا ہے۔
رضا ربانی سینئر سیاستدان ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ جدی پشتی سیاستدان ہیں۔ ان کی جانب سے غیرملکیوں کے سامنے سول اور ملٹری بیورو کریسی کے منہ زور ہونے کا رونا اور اپنے بے اختیار ہونے کا اظہار اچھا نہیں لگا۔ اگر اقتدار اور اختیار حاصل نہیں ہے تو سالانہ قوم کے اربوں روپے جمہوریت کے نام پرلوٹنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ اور یہ اعتراف کر لینا چاہیے کہ ہم نا اہل ہیں۔
رضا ربانی جب دولت مشترکہ کی پارلیمانی کمیٹی سے خطاب کر رہے تھے تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ایک مقتدر ادارے کے صدر نشین نہیں گلی محلے کے لاوارث فرد ہیں جو اپنے حق کے لیے ہر ایک کو دہائی دیتا ہے ۔رضا ربانی صاحب اس تقریر کے ذریعے کیا پیغام دینا چاہتے تھے یہ اب تک واضح نہیں ہو سکا۔ لیکن یہ واضح ہو گیا کہ کسی نہ کسی سطح پرراولپنڈی اور اسلام آباد میں کشمکش جاری ہے بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد ہی نہیں اسلام آباد کے اندر بھی کشمکش جاری ہے جس میں بقول رضا ربانی راولپنڈی اور اسلام آباد والوں کا پلڑہ بھاری ہے اور ایوان نمائندگان بے اختیار ۔
اختیار واقتدارکی یہ کشمکش نئی نہیں ہے اور نہ ہی صرف پاکستان کا مسئلہ ہے، مادرجمہوریت برطانیہ، جمہوری امریکا ،سب سے بڑی جمہوریت بھارت اور عوامی قوت چین میں بھی کشمکش نظر آتی ہے۔ مادر جمہوریت برطانیہ میں ملکہ عالیہ کا فرمان حرف آخر ہوتا ہے تو امریکا ہو یا بھارت سول اور ملٹری بیوروکریسی پس پردہ رہ کر اپنے احکامات پر عمل کراتی ہے یقین نہ ہو تو امریکی انتخابی نظام کا عمیق مطالعہ کر لیا جائے ،ایسا انتظام کیا گیا ہے کہ عوام کی رائے کچھ بھی ہوئے وہائٹ ہاو¿س میں وہی پہنچے گا جس پر پینٹاگون کا دست شفقت ہو گا ورنہ ہیلری بے چاری20 لاکھ سے زائد عوامی ووٹ کی اکثریت رکھنے کے باوجود یوں وہائٹ ہاو¿س سے دور نہ ہوتی ۔اور یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ عوامی حمایت یوں بے وقعت ہوئی ہو ۔
لندن کا ہائیڈ پارک عوامی اظہار رائے کی آزادی کا نشان تسلیم کیاجاتا ہے، اخبارات میں عوامی جذبات کے اظہار کے کالموں کا نام ہی ہائیڈ پارک رکھ دیا ہے لیکن کیا واقعی ہائیڈ پارک میں سب کچھ کہنے کی آزادی ہے ؟ہر مقام کی طرح یہاں بھی چند پابندیاں ہیں جن کی بابت پارک کے داخلی دروازے پر انتباہ درج ہے کہ اس پارک میں آپ سب کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن ان تین معاملات پر یہاں بھی گفتگو نہیں کر سکتے وہ معاملات کیا ہیں (1) تاج برطانیہ ،(2 )چرچ برطانیہ اور (3) ملکہ برطانیہ ۔ تاج برطانیہ مملکت کی علامت کے طورپر ،چرج برطانیہ مذہب سے مملکت کی وابستگی کے طور پر اور ملکہ برطانیہ سربراہ مملکت کے طور پر تحفظ یافتہ ہیں۔ یہ تو برطانیہ کا معاملہ ہے جہاں کہاجاتا ہے کہ قانون سب کے لیے مساوی ہے لیکن عملاً ایسا نہیں ،حقیقی مقتدرحلقوں کے لے پالک وہاں بھی قانون سے بالاتر ہیں دکھاوئے کے لیے کاروائی ہوتی ہے پھر طویل ” تحقیق و تفتیش” کے بعد بے گناہی کی سند دے کر حق خدمت ادا کر دیا جاتا ہے اور مزید خدمت کے لیے تیار کیا جاتا ہے وہاں بھی ۔۔۔ یہی اصل مقتدر ہیں باقی سب پتلی تماشہ ۔
قصر سفید کے مکین کا تعین ہر چار سال بعد ہوتا ہے اس کے لیے تقریباً 18 ماہ طویل ڈرامہ تیار کیا جاتا ہے تقریباً 14 ماہ تک پارٹی سے نامزدگی کے حصول کا اسکرپٹ چلایا جاتا ہے ، کئی گھوڑے ہر پارٹی میں نامزدگی کے حصول کے لیے اُتارے جاتے ہیں پھر فکس ریس کی طرح ہاتھ کے گھوڑے کو جتا کر مافیا اپنا الو سیدھا کرتی ہے اس ہی طرح امریکی انتخابات میں پارٹیوں کی صدارتی نامزدگی ہوتی ہے ہاتھی اور گدھے کے مقابلے میں عقاب کامیاب رہتا ہے ۔
پاکستان میں سول اور ملٹری بیوروکریسی کی مضبوطی کے ذمہ دار وہ سیاستدان ہیں جو آج بھی ان کی خوشنودی کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔ 1947 سے1953 کا عرصہ پاکستان میں سیاستدانوں کے باہمی دست گریباں ہونے کا عرصہ ہے، قائد اعظم کے انتقال تک تو معاملات قابو میں تھے ۔لیاقت علی خان کی شہادت تک بھی معاملات قدرے بہتر تھے لیکن اس کے بعد کا 20-22 ماہ کا عرصہ سیاستدانوں کی کھینچا تانی کا وہ عرصہ ہے جس کے بارے میں جواہر لال نہرونے طنزاً کہا تھا کہ میں اتنی دھوتی بھی نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں وزیر اعظم تبدیل ہوجاتے ہیں ۔اقتدار کی اس خواہش نے جنرل اسکندر مرزا کو یہ حوصلہ بخشا کہ وہ گورنر جنرل بن بیٹھا ۔
رضا ربانی جس پارٹی کے نمائندہ اور رہنما ہیں وہ اسکندر مرزا کی اہلیہ ناہید مرزا کی سہیلی نصرت کے شوہر ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی ہے ۔ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستانی سیاست میں متعارف کرانے کا شرمناک کردار اسکندر مرزا کو حاصل ہے، ذوالفقار علی بھٹو پاکستان میں وزارت کے حصول کے باوجود طویل عرصہ تک بمبئی ہائی کورٹ میں کیس لڑتے رہے کہ وہ ہندوستانی پاسپورٹ پر حصول تعلیم کے لیے برطانیہ گئے تھے اور بمبئی میں ان کی جائیداد ان کے حوالے کی جائے ۔اس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے بھارتی شہری ہونے کا اعتراف کیا تھا لیکن وزارت کے مزے پاکستان میں لوٹ رہے تھے ۔یہاں یہ بتانا ضروری نہیں کہ ایرانی نژاد نصرت کی شادی کن حالات میں ذوالفقار علی بھٹو سے ہوئی تھی اور ایران اس وقت کس ملک کی 53 ویں ریاست کا درجہ رکھتا تھا ۔اکتوبر1958 میں جنرل اسکندر مرزا کا نام نہاد جمہوری دور ختم ہوا تو اس کی جگہ جنرل محمد ایوب خان کے مارشل لاءنے لے لی ۔اسکندر مرزا کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی 1956 کا دستور بھی مرحوم ہوا، پھر مارشل لاءکی طویل سیاہ شب تھی ۔ایوب خان نے 1963 میں امریکی انداز کا انتخابی نظام متعارف کراتے ہوئے ایک دستور بھی متعارف کروایا لیکن یہ دستور بھی اتنا کمزور تھا کہ ناتو اپنے خالق کے اقتدار کو بچا سکا نہ ہی اپنا وجود۔ مارچ1969 میں جنرل محمد ایوب خان کے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو جنرل محمدایوب خان نے اپنے بنائے ہوئے آئین کو قتل کرتے ہوئے مارشل لاءنافذ کیا اور اقتدار جنرل محمد یحی خان کے حوالے کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو 1967 میںوزارت سے بے دخل کر دیئے گئے لیکن جنرل محمد ایوب خان ایک مہذب انسان تھے، انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو وزارت سے برطرف کرنے کے بجائے اسے باعزت رخصت کا راستہ فراہم کیا تھا۔یہاں یہ بتانا غیر ضروری ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو جنرل محمد ایوب خان کوڈیڈی کہا کرتے تھے اور اس کی تخلیق کردہ پارٹی کے سیکریڑی جنرل تھے۔ یہ بھی نیرنگی سیاست ہے کہ وہی ذوالفقار علی بھٹو جو اقتدار کے دنوں میں جنرل محمد ایوب خان کو ڈیڈی کہا کرتے تھے اقتدار کے ایوانوں سے بے دخل کیا ہوئے ، ڈیڈی ڈوگ(کتا) ہو گیا ۔
رضا ربانی کا شکوہ اپنی جگہ لیکن سول بیوروکریسی کو بے لگام کرنے میں ذوالفقار علی بھٹو کا کردار فراموش نہیں کیا جاسکتا ،یہ ذوالفقار علی بھٹو کی ہی ” سیاسی جمہوری سوچ” کہ جس کے تحت انہوں نے جنرل محمد ایوب خان کو مشورہ دیا تھا کہ اگر اپنی پارٹی کو مضبوط کرنا ہے تو ہرضلع کے ڈپٹی کمشنر کو پارٹی کا ضلعی صدر اور سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس کو ضلعی جنرل سیکریڑی بنا دیا جائے اس تجویز کو جنرل محمد ایوب خان نے تو قبول نہیں کیا لیکن بیوروکریسی ضرور بے لگام ہو گئی ۔
جنرل محمد یحی خان کے دور سیاہ میں لاڑکانہ اس کی پسندیدہ شکار گاہ تھا لاڑکانہ میںہونے والے شکار میں اپنا اثر دکھایا اور آدھا ملک اس کا شکار ہو گیا،اس وقت بھی ذوالفقار علی بھٹو ہی جنرل محمد یحییٰ خان کے دست وبازو اور نامزد ڈپٹی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ تھے۔ سقوط ڈھاکا کے ساتھ ہی یحیی خان کے اقتدار کا سورج بھی غروب ہو ا تو چشم فلک نے یہ تاریخی عجوبہ دیکھا کہ ایک سیاستدان سول مارشل لاءایڈمنسٹریٹر بن بیٹھا ۔
1973 کے دستور نے فوج کے اقتدار کے قبضے کو غداری قرار دینے کی شق نہ تو ضیاءالحق کو مارشل لاءلگانے اورنہ ہی پرویز مشرف کو آئین معطل کرنے سے روک سکی ۔
آج جو سیاستدان ہیں، ان میں سے چند ایک کے سواءسارے ہی ضیاءالحق کے تراشے ہوئے مٹی کے مادھو ہیں جس طرح ذوالفقار علی بھٹو جنرل محمد ایوب خان کو ڈیڈی کہا کرتے تھے اسی طرح نواز شریف بھی ضیاءالحق کو اپنا روحانی باپ قرار دیتے تھے ۔نواز شریف جنرل ملک غلام جیلانی کی تلاش ہیں اور قوم جنرل ملک غلام جیلانی کو خوب جانتی ہے۔
اگر سول اور ملٹری بیوروکریسی کو اس کی حدود کا پابند بنانا ہے تو سیاستدانوں کو جرا¿ت کا مظاہرہ کرنا ہو گا ،مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہو گا، رجب طیب اردگان اور نیلسن منڈیلا کی مثالیں نہیں بلکہ ان کے کردار کو اپنانا ہو گا، جیل کے نام پر بڑے اسپتالوں کے وی وی آئی پی رومز میں ” علاج” نہیں کرانا ہو گا بلکہ جیل کی سی کلاس کی کوٹھری کو اپنا مسکن بنانا ہوگا، بڑے اسپتالوں میں قید گزارنے اور معاہدے کر کے بیرون ملک جانے والوں کے منہ سے ایسی باتیں اچھی نہیں لگتی ۔رضا ربانی جس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اس پارٹی کے شریک چیئرمین نے ایک عوامی اجتماع میں ایک ادارے کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی لیکن اس کے چند دن بعد ہی ” علاج” کے بہانے بیرون ملک روانہ ہوئے کہ اب تک واپسی کے اعلانات تو ہو رہے ہیں واپسی نہیں ہو رہی۔ ایسے ہی سیاستدانوں میں سے ایک نے تقریباً 24سال تک علاج کے بہانے لندن فرار کا راستہ اختیار کیے رکھا، اس کی پارٹی ہر دور میں شریک اقتدار رہی لیکن 24 سال میں بھی اس کا علاج مکمل نہ ہوسکا لیکن اس عرصہ میں یہ ضرور ہوا کہ پارٹی کا قائد رہتے ہوئے پاکستانی شہریت ترک کر دی اور سابق آقاو¿ں کے دیس میں ان کی شہریت اختیار کر لی ۔
جب سیاستدانوں کا یہ کردار ہو گا تو سول بیوروکریسی ہی مضبوط ہو گی ۔سیاستدانوں کو مضبوط ، بااختیاراور بااقتدار ہونے کے لیے عوام کو سہولیات فراہم کرنا ہو گی جیسا کہ رجب طیب اردگان نے کیا، اس کے بعد ہی عوام ٹینکوں کے سامنے ڈٹ کر اپنے ” پاپا” کا اقتدار اور اختیار بچاتے ہیں کہ ” پاپا” نے ان کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کی ہیں۔ یہاں تو یہ صورتحال ہے کہ سیاستدان سیاست کو خدمت نہیں لوٹ مار کا میدان بناتے ہیں اور اپنی کرپشن چھپانے کے لیے اس ہی بیوروکریسی سے راستہ پوچھتے ہیں جس بیوروکریسی کے اقتدار واختیار پر معترض ہوتے ہیں ۔بیوروکریسی کو اپنا تابع بنانا ہے تو سیاستدانوں کو پانامہ کے پاجامہ سے باہر آنا ہو گا ورنہ پانامہ کے پاجامہ کا ازاربند بچاتے ہوئے بیوروکریسی کو اپنا تابع بنانا ایک خواب ہی رہے گا۔
ہم حضور کو نیک وبد بتائے دیتے ہیں۔
٭٭