سپریم کورٹ میں خواتین ججز کی تعیناتی جلد ہو گی، چیف جسٹس
شیئر کریں
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ ہم انصاف کی فراہمی کے نظام کا حصہ ہیں اس لئے ہمیں پروسیجر کے مطابق چلنا پڑتا ہے لیکن آخری نتیجہ یہ ہے کہ فیصلہ غیر جانبدارانہ، منصفانہ اور درست ہونا چاہیئے ، یہ ہمارا کام ہے اور ہم نے اس کی تربیت لی ہے ۔ ججز روزانہ کیسوں کا فیصلہ کرتے ہیں اور انہیں پہلے پانچ منٹ میں پتہ چل جاتا ہے کہ کیا درست ہے اور کیا غلط ہے ، یہاں تک کہ جو ججز نہیں ہیں ان کو بھی پتہ چل جاتا ہے کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط ہے ۔عدالت میں بہت سے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں اور صرف جج کیس کا فیصلہ کر سکتا ہے اور اگر جج کیس کا فیصلہ نہیں کرتا تو پھر دیگر لوگوں اور جج کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی ایک یا دو خواتین ججز کی تعیناتی جلد ہو گی۔ جج بننے کے بعد خاتون جج کا رویہ بھی مرد جج کی طرح ہو جاتا ہے تا کہ اسے سنجیدگی سے لیا جائے ۔ ہمارے پاس کیسز آتے ہیں اور کریمنل کیسز میں خواتین ججزبلند ترین سزائیں دے رہی ہیں ، سزائے موت تاکہ تاثر پڑے کہ بڑی سخت جج ہے کسی کو نہیں چھوڑتی، آپ کو تاثر قائم کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ آپ کا کنڈکٹ آپ کے بارے میں تاثر قائم کرے گا۔ آئین میں اقلیتوں سمیت ہرشہری کو برابر حقوق حاصل ہیں،قرآن میں ہے کہ اللہ انصاف کرنے والوں کے ساتھ محبت کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سے صرف یہی چاہتا ہے کہ ہم انصاف کریں ۔ان خیالات کا اظہار چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے لاہور ہائی کورٹ میں تیسری خواتین ججز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کانفرنس سے قانون کے شعبہ میں خواتین کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے بطور لاہور ہائی کورٹ جج کے فیصلہ دیا تھا کہ اگر کسی خاتون یا بچے کو کسی جرم میں سزا ہوتی ہے تو یہ مرد وں کے مقابلہ میں ایک تہائی کم ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ سیکشن 497میں درج ہے کہ سنگین ترین جرم کی صورت میں اگر عدالت مناسب سمجھے تو خاتون ملزمہ کو ضمانت دی جاسکتی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین کو سہولیات فراہم کرنے والے جتنے بھی فیصلے ہیں وہ ان ججز نے کئے ہیں جن کی اپنی صرف بیٹیاں ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان محمد افضل ظلہ کی صرف بیٹیاں تھیں اور انہوں نے خواتین کو وراثت کا حق دیا، سابق چیف جسٹس آف پاکستان ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کی بھی صرف تین بیٹیاں ہی تھیں جن میں سے ایک میری اہلیہ ہیں اور انہوں نے کوشش کی کہ ملک میں خواتین اپنے حقوق سے محروم نہ رہیں اور انہوں نے خواتین کے حقوق کے حوالہ سے جتنی بھی تشریحات کیںوہ خواتین کے حق میں کیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کا کہنا تھا کہ میری بھی صرف دو ہی بیٹیا ں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین ججز کی کانفرنس کے انعقاد کا کریڈٹ جہاں لاہور ہائی کورٹ کو جاتا ہے وہاں خاص طور پر یہ کریڈٹ جسٹس عائشہ اے ملک کو بھی جاتا ہے ،یہ میری شاگر د ہیں اور ان کے شوہر پرائیویٹ لاء کالج چلاتے ہیں اور میں اس کالج میں ان کے ساتھ پڑھاتا رہا ہوں۔ معاشرہ میں خواتین کا کردار بڑھتا جارہا ہے اور زندگی کے ہر شعبہ میں خواتین کا کردار بڑھتا جا رہا ہے ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ماضی میں ہم ضلعی عدلیہ میں خواتین ججز کے حوالہ سے سنا بھی نہیں تھا لیکن اب ڈسٹرکٹ جوڈیشری میںاب300 کے قریب خواستین ججز کام کر رہی ہیں اور ہائی کورٹس میں بھی خواتین ججز کام کر رہی ہیں اور انشاء اللہ جلد سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی ایک یا دو خواتین ججز تعینات ہوں گی۔ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں بطور جج تعیناتی کے لئے ایک دو خواتین ججز کے نام زیر غور آئے اور ہو سکتا ہے کہ اگلی دفعہ یہ ممکن ہو جائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنا رہی ہے ۔عدلیہ خواتین کے حقوق، انہیں انصاف کی فراہمی کے لئے ترجیحی بنیادوں پر کام کر رہی ہے ۔ جج بننے کے بعد خاتون جج کا رویہ بھی مرد جج کی طرح ہو جاتا ہے تا کہ اسے سنجیدگی سے لیا جائے ۔ ہم نے ایک چیز نوٹس کی ہے کہ خواتین ججز کمرہ عدالت میں مسکراتی بھی نہیں تاکہ کوئی اس کو غلط طریقہ سے نہ لے جبکہ مردججز کے ساتھ ایسا کوئی معاملہ نہیں وہ وکلاء سے مذاق بھی کرتے ہیں اور ماحوم کو خوشگوار رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین جج کو بھی اپنی شخصیت میں تبدیلی لانی چاہیے ، خواتین ججز کو کمرہ عدالت میں خوشگوار ماحول رکھنے کی ضرورت ہے اور انہیں مرد ججز نہیں بننا چاہیئے ، خواتین ججز بہت سے معاملات میں ہم سے بہتر ہیں اور شفیق ہیں اور جب کوئی سائل آپ کو عدالت میں دیکھے گا تو اپنے آپ کو محفوظ ہاتھوں میں تصور کرے گا۔ کمرہ عدالت میں آپ کے رویہ سے لوگ آپ کی عزت کریں گے ۔ خواتین ججز کو جج بننے کے بعد اپنے رویہ میں بے جا سختی لانے کی ضرورت نہیں۔ خواتین ججز کو مرد ججز کی طرح رویہ اپنانے کی ضرورت نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں تین درخواستیں موصول ہوئیں کہ ہمارے کیس خواتین ججزسے مرد ججز کو منتقل کئے جائیں، ہم نے کہا کیوں تو انہوں نے کہا کہ ججز خواتین ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ خواتین ججز کو چاہیئے کہ نارمل ججز کی طرح رویہ اختیار کریں اورقانون کے مطابق انصاف فراہم کریں اس کے بعد لوگ خود نوٹس کرنا چھوڑ دیں گے کہ وہ خاتون جج کے سامنے پیش ہو رہے ہیں یا مرد جج کے سامنے پیش ہورہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت میں بہت سے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں اور صرف جج کیس کا فیصلہ کر سکتا ہے اور اگر جج کیس کا فیصلہ نہیں کرتا تو پھر دیگر لوگوں اور جج کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔ ہر روز ججز کو دیکھنا چاہیئے کہ کتنے کیسز کی کاز لسٹ تھی اور انہوں نے کتنے کیسز کے فیصلے کئے اور لوگوں کو ان کی امانتیں لوٹائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین میں اقلیتوں سمیت ہرشہری کو برابر حقوق حاصل ہیں، اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ جو لوگ انصاف کرتے ہیں میں ان سے محبت کرتا ہوں۔قرآن میں ہے کہ اللہ انصاف کرنے والوں کے ساتھ محبت کرتا ہے ۔ یہ بہت مضبوط الفاظ ہیں، دنیا کا خالق اور ہر چیز کا خالق آپ سے محبت کرنے لگے گا ، اس کے بعد آپ کو زندگی میں کسی چیز کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت کرے گا، آپ کی صحت کی حفاظت کرے گا، آپ کو خوشحال بنائے گا، آپ کے خاندان کی حفاظت کرے گا اورآپ کی زندگی کی ہر چیز کی حفاظت کرے گا کیونکہ اس نے آپ کو پیدا کیا ہے اور آپ پر اس کا کنٹرول ہے بلکہ ساری دنیا پر اس کا کنٹرول ہے اور وہ آپ کو یقین دہانی کروا رہا ہے کہ اگر آپ غیر جانبدار ہیں اور انصاف کرتے ہیں تو پھر اللہ آپ سے محبت کرنے لگتا ہے اور اس کے بعد آپ کو کسی چیز کے لئے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں وہ آپ کی حفاظت کرے گا ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بہت بڑا انعام حاصل کرنے کے لئے یہ بہت تھوڑی قیمت ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ عدالت میں غیر جانبدار رہیں اور انصاف فراہم کریں اور جس کسی کا جو حق ہے اس کو دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ججز روزانہ کیسوں کا فیصلہ کرتے ہیں اور انہیں پہلے پانچ منٹ میں پتہ چل جاتا ہے کہ کیا درست ہے اور کیا غلط ہے ، یہاں تک کہ جو ججز نہیں ہیں ان کو بھی پتہ چل جاتا ہے کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم انصاف کی فراہمی کے نظام کا حصہ ہیں اس لئے ہمیں پروسیجر کے مطابق چلنا پڑتا ہے لیکن آخری نتیجہ یہ ہے کہ فیصلہ غیر جانبدارانہ، منصفانہ اور درست ہونا چاہیے ، یہ ہمارا کام ہے اور ہم نے اس کی تربیت لی ہے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے صرف یہی چاہتا ہے کہ ہم انصاف کریں ۔