سسٹم (رانا خالد محمود قمر)
شیئر کریں
صلاح الدین سسٹم کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس کو مر ہی جانا چاہیے تھا۔ ایسے غریب۔ فاترالعقل کو مرنا ہی چاہیے تھا ایک "چوری” اوپر سے سینہ زوری یعنی جس سسٹم نے اس کا ساتھ دینا تھا اسی کو منہ چڑاتا تھا۔ صلاح الدین عقل مند ہوتا تو "سسٹم ” سے بنا کے رکھتا اس سے ڈیل کرتا مل بانٹ کے کھاتا وہ آج بھی زندہ ہوتا بلکہ اس قدر مال اکٹھا کرچکا ہوتا کہ وہ پنجابی کی کہاوت سچ ہوجاتی جہدے گھر دانے اودے کملے وی سیانے ( جس کے گھر میں دانے ہیں اس کے کملے بھی سیانے ہوتے ہیں) صلاح الدین کا باپ بیٹے کی نعش لینے کے لیے یوں نہ تڑپتا۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار مقتول کے باپ کو وزیرِ اعلیٰ سیکرٹریٹ میں بلاکے افسوس کا "اظہار ” نہ کرتا۔
صلاح الدین اسی قابل تھا کہ وہ قتل ہوتا۔ اب سسٹم کی "خوبصورتی ” ہے کہ اس پر بعدازمرگ ایک ایف آئی آر درج کرے جس کا مدعی وزیرِ اعلیٰ پنجاب کو بنایا جائے ایف آئی آر کا متن کچھ یوں ہو کہ میں سردار عثمان بزدار درخواست گزار ہوں کہ ایک پاگل شخص میرے صوبے میں طویل عرصہ سے اے ٹی ایم چوری کرنے میں مصروف تھا۔ وہ کبھی راولپنڈی میں واردات کرتا تو کبھی گوجرانوالہ میں۔ اسے ملتان میں بھی دیکھا گیا۔ پنجاب کا شاید ہی کوئی شہر ایسا ہو جس کے بنکوں کی اے ٹی ایم میں اس شخص نے واردات نہ ڈالی ہو۔ دو بار یہ شخص جیل بھی جاچکا ماں باپ کے ہوتے ہوئے بھی لاوارث سمجھ کے ریاست نے اسے "وراثت ” کا حقدار قرار دے کر جیل سے نکالا۔ یہ جیل سے نکلنے کے بعد بھی وارداتوں سے باز نہیں آیا فیصل آباد کے ایک بنک میں واردات کی صرف واردات کی ہوتی تو پہلی وارداتوں کی طرح نظرانداز کردیتے لیکن یہاں اس نے ایک ناقابلِ معافی "جرم” کیا۔ صرف واردات نہیں کی بلکہ اس دوران سی سی ٹی کیمرے کی طرف دیکھ کر منہ چڑایا جسے سسٹم کے خلاف سمجھا گیا اور پھر اسے رحیم یار خان پولیس کے شیر جوانوں نے اپنے پنجوں میں جکڑ لیا۔ شیر جوانوں نے اس کے ہر لمحے کو کیمرے کی آنکھ میں بند کیا اور حسبِ ضرورت اسے لیک کرکے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کے خود کو "ایوارڈ” کا مستحق قرار دیا۔ میں صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہونے کے ناطے ان شیر جوانوں کو اس "دہشتگرد ” کی گرفتاری پر اپنے ہاتھ سے ایوارڈ دوں گا۔ یہ شیر جوان اس لیے بھی ایوارڈ کے مستحق ہیں جنہوں نے پنجاب سے جرائم کے خاتمہ کا نیا اور انقلابی طریقہ "ایجاد” کیا ہے۔
اس سے ایک جانب پرامن پنجاب کا خواب پورا ہوگا تو دوسری جانب پرانے پاکستان کے پرانے "ڈاکو” اور شوباز وزیرِ اعلیٰ شہبازشریف کے جرم مکاؤ فارمولے ” جعلی” پولیس مقابلے سے جان چھڑوادی۔ اب نئے پاکستان میں نئے طریقے سے پنجاب سے جرائم کا خاتمہ ممکن ہوگا۔ جیسے ہی کسی مجرم نے سسٹم کا منہ چڑایا اس کو پکڑا اور دوران تفتیش ہی "چلتا” کیا۔ اس سے شہبازشریف کے جعلی پولیس مقابلے جیسے فرسودہ طریقہ کار سے پولیس اہلکاروں کے "زخمی” ہونے کا بھی خطرہ ٹل گیا۔ اس ایف آئی آر کے تحت درج مقدمہ عدالت میں جائے گا اور پھر اسی رفتار سے "انصاف” ہوگا جس رفتار سے سسٹم کے ایک باغی ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایما کے تحت پھانسی دی گئی۔ جی ہاں یہ وہی بھٹو ہیں جو اپنے ملک کو اپنے پاؤں پہ کھڑا کرنے کی خاطر گھاس کھانے کو تیار تھے۔
جی ہاں وہی بھٹو جو منکرین رسول باغیان اسلام قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا تمغہ سینے پہ سجائے لہد میں اتر گئے اس محسن کے جنازے میں چار افراد کو ہی شرکت کی اجازت ملی تھی۔ جی ہاں یہ وہی بھٹو ہیں جو 1971 میں بھارت کے ہاتھوں شکست کھانے اور آدھے سے زائد ملک گنوانے کے بعد قید ہونے والے 90 ہزار باوردی قیدیوں کو واپس لانے جیسا کارنامہ سرانجام دے چکے تھے۔ بھٹو کے نقشِ قدم پہ چلنے والا ایک اور "مجرم” جو خود کو عوام کا منتخب وزیراعظم سمجھ بیٹھا تھا سسٹم کو منہ چڑانے کے جرم میں ان دنوں کوٹ لکھپت میں قید تنہائی کاٹ رہاہے۔ جی ہاں۔ یہ نوازشریف بھی خود کو سسٹم سے "الگ” کرنے کا جرم کربیٹھا۔ جی ہاں وہی نوازشریف جسے اپنی زندگی لگنے کی دعا دی تھی ایک مرد مومن مرد حق نے۔ وہ سسٹم کے خلاف بغاوت کرتا کس طرح قبول تھا۔ یہ ملک بنا ہی اس کے لیے ہے جو "سسٹم ” کے تابع رہ کے زندگی گزارنے کا ڈھنگ جانتا ہو۔ جو سسٹم کا منہ چڑائے گا وہ صلاح الدین۔ ذوالفقار علی بھٹو۔ نوازشریف۔ بینظیر بھٹو اور محترمہ فاطمہ جناح کی طرح "بغاوت ” کے جرم میں اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔ جو سسٹم کے "تابع ” ہوگا وہ شہر کا سب سے معزز اور ملک کا سب سے معتبر قرار پائے گا۔ "سسٹم ” کے تحت چلنے والا ملک کا وزیراعظم بھی "سلیکٹ ” ہوسکتاہے آو ہم سب مل کے دعا کریں جو سسٹم کے تحت چل رہے ہیں وہ چلتے رہیں اگر ان کے "باغی” ہونے کا رتی بھر شبہ ہوا تو اب انجام زیادہ بھیانک ہوگا کہ اب ہم دور جدید میں داخل ہوچکے۔ اب سسٹم "خودکار” ہوچکا۔ جیسے ہی کسی کے من میں عوام نے انگڑائی لی سگنل سسٹم کو آگاہ کردے گا اور پھر سسٹم ازخود کام شروع کردے گا اور ایک نئی ایف آئی آر درج ہوگی جس کا متن کچھ یوں ہوگا۔
ایک کرکٹر جس کی زندگی عیاشیوں اور عیبوں سے پر تھی اس نے تحریک انصاف نام کی ایک پارٹی بنائی وہ 17 سال یہ خواب دیکھتا رہا کہ میں کبھی اس ملک کا وزیراعظم بنوں گا۔ خوابوں سے بھی کبھی کسی کو منزل ملی۔ ہمیں اپنے "لے پالک” نوازشریف سے بغاوت کی بو آنے لگی تو ہم نے اسے اس کی "اوقات ” دکھانے کا فیصلہ کیا۔ یہی وہ وقت تھا جب ہماری نگاہ اس کرکٹر پر پڑی اور ہم نے اسے "گود” لینے کا فیصلہ کیا۔ وہ شخص جو 17 سال تانگہ پارٹی کا کوچوان رہا راتوں رات پاکستان کی سب سے مقبول جماعت کا سربراہ بن گیا۔ اسے وہ لب و لہجہ سکھایا جو مخالفین کو روندنے کے لیے آئیڈیل تھا اور پھر اس دن کے بعد اس شخص نے پیچھے مڑ کے نہ دیکھا۔ ہم نے اس سے حلف لیا تھا کہ سسٹم سے بغاوت نہیں کرے گا۔ مخالفین کو دیوار میں چن دے گا۔
وہ کرکٹر جو کبھی عیاشیوں اور رنگین مزاجی میں مشہور تھا وہ "سسٹم ” کے ماتحت رہا تو محترم و معتبر ٹھہرا مگر ایک سال میں ہی اس سے ہمیں "بغاوت کی "بو” آنے لگی۔ پہلی بار ہمیں تب محسوس ہوا جب ہم نے وزیراعلیٰ پنجاب کی پرفارمنس دیکھتے ہوئے اسے فارغ کرنے کا پیغام دیا جسے غور کے قابل بھی نہ سمجھا تب ہمیں لگا کہ ایک "عام” سے کرکٹر نے صلاح الدین کی طرح سسٹم کا منہ چڑایا ہے۔ اسی دن سے خودکار سسٹم نے کام شروع کردیا تھا۔ ٹی وی سکرینوں پر نوازشریف اور زرداری کے خلاف "مجمع ” لگائے مداری نما اینکرز نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب رخ کرکے پرفارمنس اور بیڈ گورننس کی ڈفلی بجانی شروع کردی۔ وہ ٹی وی سکرینیں جو نوازشریف اور زرداری کے خلاف پٹ سیاپہ کرنے میں مصروف تھیں وہاں منظر بدلنے لگے۔ نیٹ اینڈ کلین حکومت کرپٹ حکومت میں بدلنے لگی۔ یہ "مقدمہ” جب انصاف طلب نگاہوں سے انصاف کے میزان پہ نگاہ ڈالتا ہے تو ایک بار پھر انصاف کا بول بالا ہونے کی "امید” پیدا ہوجاتی ہے اور تاریخ اپنے ماضی کی طرح اپنے نئے مہمان کا استقبال کرتی دکھائی دیتی ہے۔ وہ عام سا کرکٹر جو حادثاتی طور پہ معتبر ٹھہرایا گیا تھا جب دوسری بار سسٹم کا منہ چڑاتا سی سی ٹی وی کیمرے کی زد میں آیا اسی روز دھرلیا جائے گا اور پھر اس کے آخری کلمات وہی ہوں گے جو صلاح الدین کے تھے "تساں بندے مارنے کتھوں سکھے” یعنی آپ نے بندے مارنے کہاں سے سیکھے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ صلاح الدین اور وزیراعظم دونوں کے حالات ایک جیسے ہیں وہ بھی صلاح الدین بھی دماغی طور پر ہلا ہوا تھا وہ معاشی طور پہ تہی دست تھا وزیراعظم سیاسی طور پہ تہی دست ہیں اس کا بھی کوئی وارث نہیں ان کا بھی کوئی وارث دکھائی نہیں دیتا۔ ائیں ہم سب دعا مانگیں کہ وزیراعظم پاکستان اس "سسٹم ” کو منہ نہ چڑائیں اور یہ نہ پوچھ بیٹھیں "تساں بندے مارنے کتھوں سکھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔