ون وہیلنگ۔۔ کھیل یا موت کا سامان؟
شیئر کریں
شاید قانون نافذ کرنے والوں کی نظر میں جرم نہیں ، یا پھر وہ فطری انصاف کے منتظرایسے لفنگے رائڈرز کی لاقانونیت کو صرف نظر کرتے ہیں
بیشتر رائڈرز کا تعلق کسی مضبوط سیاسی یا نوکر شاہی یا مافیا چین سے ہوتا ہے جن پر ہاتھ ڈالنے کے معاملے میں قانون کمزور واقع ہوا ہے
اشتیاق احمد خان
ون وہیلنگ یا ایک پہیے پر موٹر سائیکل دوڑانا قانوناً جرم ہے۔ لیکن شاید قانون نافذ کرنے والوں کی نظر میں جرم نہیں ہے یا پھر وہ فطری انصاف کے منتظرایسے لفنگے رائڈرز کی لاقانونیت کو صرف نظر کرتے ہیںکیونکہ بیشتر رائڈرز کا تعلق کسی مضبوط سیاسی یا نوکر شاہی یا مافیا چین سے ہوتا ہے جن پر ہاتھ ڈالنے کے معاملے میں قانون کمزور واقع ہوا ہے ۔ون وہیلنگ پر ہائی کورٹ بھی پابندی عائد کر چکی ہے اورموٹر وہیکل ایکٹ کے تحت یہ ایک جرم ہے۔ ہائی کورٹ کے حکم کے بعد سڑکوں پر بینرز لگا دیئے گئے ”ون وہیلنگ کھیل نہیں موت کا سفر ہے“۔ شاید قانون نافذ کرنے والوں کی نظر میں ان بینروں کا آویزاں کر دیا جانا ہی عدالتی حکم کی تعمیل کے لیے مناسب اقدام تھا جو اُٹھا لیا گیا۔
یوں تو کون ساایسا دن ہوتا ہے کہ شہر کی سڑکوں پر نو عمر لڑکے اس عمل میں مصروف نظر نہیں آتے ،کون سی ایسی سڑک ہے جس پر عدالتی حکم کی دھجیاں نہیں بکھیری جاتیں۔ لیکن حیدرآباد کے شہریوں کے لیے خصوصاً پختہ عمر کے موٹر سائیکل سواروں کے لیے جمعہ کا دن یوم حساب ہوتا ہے۔ ہر طرف طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے نو عمر لڑکے جن کی عمریں ابھی اتنی نہیں ہوئی ہوتی ہیں کہ وہ قانونی طور پر ڈرائیونگ لائنسس حاصل کر سکیں ،وہ موٹر سائیکل پر فراٹے بھرتے نظر آتے ہیں ،ون وہیلنگ ہی نہیںموٹر سائیکلوں پر کرتب دکھانے کے مقابلے بھی چل رہے ہوتے ہیں جیسے لیٹ کر اور کھڑے ہو کر موٹر سائیکل چلانا۔الغرض وہ کونسا انداز ہے جو یہ لڑکے اختیار نہیں کرتے۔ اور یہ سارے مظاہرے چھوٹی سڑکوں اور گلیوں میں نہیں بلکہ مرکزی شاہراہوں پر بھی ہوتے ہیں اوران سڑکوں پر جہاں ٹریفک پولیس کے اہلکار عام افراد کو ہیلمٹ کی عدم موجودگی پر چالان کی پرچی تھماتے نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایس ایس پی آفس کی دونوں سڑکوں پر بھی یہ مظاہرے عام ہیں لیکن نہ تو ٹریفک پولیس کے اہلکار کسی کو روکنے ٹوکنے اور کوئی کاروائی کرنے پر آمادہ ، نہ ہی ضلعی پولیس کے اہلکار جو راہ چلتے مسافروں کا سامان چیک کرنا اپنا اولین فرض جانتے ہیں لیکن انہیں یہ اوباش رائڈرنظر نہیں آتے ۔
یوں توتقریباً ہر شہرہی ان نوعمروں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے ہر سٹرک ان کے باپ کی جاگیر ہے۔ سڑکوں پر چلنے والے اپنی جان ومال کی خود ہی حفاظت کر لیں تو ٹھیک ورنہ اسپتال اور قبرستان کا سفر یقینی ہے۔ لیکن خصوصی طور پرحیدرچوک سے حسین آباد چوک، حسین آباد چوک سے محمد چوک، گل سینٹر سے لطیف آباد فلائی اوور،محمود گارڈن سے خدا حافظ بورڈوالی سڑک، ایس پی چوک سے پریس کلب اورفاران ہوٹل سے گل سینٹر جانے والی سڑک ان لڑکوں کے ون وہیلنگ اور سرکس کے مظاہروں کے خصوصی مراکز ہیں۔ حیدرآباد کا ایس ایس پی آفس حیدرچوک سے حسین آباد اور ایس پی چوک سے پریس کلب جانے والے سڑکوں پر واقع ہے۔ اور حیدر چوک ،گل سینٹر چوک، شہباز بلڈنگ چوک، حسین آباد چوک، محمود گارڈن چوک ، ایس پی چوک پر ہر وقت ٹریفک اور ضلعی پولیس کے اہلکار تعینات ہوتے ہیں لیکن ان اہلکاروں میں سے کوئی کسی کارروائی کا ذمہ دار نہیں ہے کہ ان لڑکوں کی بڑی تعداد ان گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے جو کارروائی کرنے والے اہلکار کو ضلع بدر بلکہ دربدر کرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں یوں پولیس اہلکاران لڑکوں کے ساتھ فطرت کے انصاف کا انتظار کرتے ہیں جبکہ شہری اذیت کا شکار ہونے پر مجبور ہیں۔