خواہش اور ارادے میں فرق (ماجرا۔۔محمد طاہر)
شیئر کریں
الفاظ کے خراچ عمل کے قلاش ہوتے ہیں۔ پاکستان میں حکمران اشرافیہ کا ہمیشہ سے یہ مسئلہ رہا ہے کہ باتیں زیادہ اور عمل کم کرتے ہیں۔ دشمن سب سے بڑا استاد بھی ہوتا ہے۔ بھارت کی وہمی داستانوں کے بعض حصے کافی سبق آموز بھی ہیں۔ ہندو عقیدے کے مطابق وشنو بھگوان کے ساتویں اوتار رام چندر ہیں، اُن کے استاد سے منسوب کیا سبق آموز فقرہ ہے:دُنیا اُن لوگوں سے بدلتی ہیں جو بولتے نہیں‘‘۔
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بولتے بہت ہیں۔اُن کی گفتارِ بسیار کا عمل سے تناسب نکالا جائے تو شرمناک نتیجہ نکلے گا۔ اگرچہ وہ بعض حیرت انگیز اوصاف کے مالک ہیں۔ اُنہیں اپنے خیالات کے اظہار میں کسی قسم کی پیچیدگی یا ردِ عمل کی پروا نہیںہوتی۔ وہ فی البدیہہ بولنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اپنے خیالات میں کوئی احساس کمتری نہیں رکھتے۔ مدینہ کی ریاست کو ایک ماڈل کے طور پر پیش کرتے ہوئے وہ کسی ایچ پیچ کے شکار نہیں ہوتے۔ اُ ن کی یہ ایک خوبی ہی اُنہیں بہت سے سیاسی رہنماوؤں سے ممتاز کردیتی ہے۔ چنانچہ اُن کی تقاریر پر خواہ کتنی ہی تنقید کی جاتی ہو، مگر وہ بجائے خود ایک بحث کا موضوع بن جاتی ہیں۔مخالفت میں ہی سہی مگر اُن کی تقاریر کا تنقیدی طور پر موضوع بننا ہی اُن کو ایک سبقت دلاتا ہے۔ ماضی کے وزرائے اعظم کا پرچی کے ذریعے سوال کے جواب تک دینے کا تجربہ کافی شرمنا ک رہا ہے۔ مگر کیا وزیرا عظم عمران خان کے لیے یہ سبقت کافی ہے؟
وزیراعظم عمران خان نے دوروز قبل قوم سے خطاب کیا تو اس میں وقت کی بہت اہمیت تھی۔چیئرمین حریت کانفرنس اور مردِ حریت سید علی گیلانی ایک روز قبل ایک خط کے ذریعے پاکستان سے مدد کی اپیل کرچکے تھے۔ اور عین خطاب سے ذرا قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، جی سیون اجلاس کے دوران میںناقابلِ اعتبار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے سائیڈ لائن ملاقات میں اپنے حصے کے سارے کھیل کھیل چکے تھے۔ اُنہوں نے اپنی بدن بولی سے امریکی صدر کے ساتھ بے تکلفی کا تاثر دیا۔اُن پر بھارت میں سب سے زیادہ تنقید یہ ہورہی تھی کہ اُنہوں نے امریکی صدر کو کشمیر پر ثالثی کے لیے کہا تھا۔ اگرچہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد اس پیشکش کے معنی ہی بدل گئے تھے، مگر نریندر مودی نے ا س کا فرانس میں جواب انگریزی میں نہیں ہندی میں دیا۔اُنہوں نے امریکی صدر کے سامنے کہا کہ وہ اس معاملے میں دوطرفہ بات چیت پر یقین رکھتے ہیں اور کسی تیسرے ملک کو کشٹ (تکلیف) نہیں دیتے۔ مودی کے اقدامات پر دھیان دیں تو وہ انتہائی ضابطہ بند (Methodical)ذہن کے ساتھ بروئے کار رہتے ہیں۔ اس سے قبل مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے لیے مودی کی رضامندی کا جو اعلان امریکی صدر نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے دورۂ امریکا میں کیا تھا، وہ اس پر مکمل خاموش رہے تھے۔ بھارت میں کانگریسی رہنما راہول گاندھی نے اُنہیں آڑے ہاتھوں لیاتھا اور پارلیمنٹ میں آکر اس کی وضاحت کا دباؤ ڈالا تھا، مگر مودی نے انتہائی خاموشی سے جی سیون اجلاس میں ٹرمپ سے ملاقات کا انتظار کیااور ٹرمپ کے سامنے اس پیشکش کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ امریکی صدر کی اتنی بے عزتی شاید ہی کبھی ہوئی ہو مگر اُنہوں نے ہاتھوں پہ تالی کے ساتھ اِسے بھی جھیلا۔
نریندری مودی کے اقدامات اُسے ایک خاص طرح کا عملیت پسند اور اپنی دُھن میں مگن ظاہر کرتے ہیں۔ وہ کسی دباؤ میں آئے بغیر اپنی طاقت پر انحصار کرتے ہیں۔ اور اُن کی طاقت’’ ہندوتوا‘‘ہے جو مودی کی حد تک مسلم مخالف جذبات کے ساتھ اُن کو بیخ وبن سے اکھاڑ دینے کی نفسیات رکھتی ہے۔وہ 2002ء میں گجرات فسادات کے باوجو دسیاسی طور پر اپنا قد بلند کرتے رہے اور ایل کے ایڈوانی کو دھکیل کر وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوگئے۔ اُنہوں نے بی جے پی کی پوری طاقت کو اپنی ذات میں مرتکز کر لیا۔ وہ بھارت کی وسیع تر معیشت پر گرفت رکھنے والی تمام بڑی کاروباری شخصیات سے گہرا تعلق استوار کرچکے ہیں۔ جو درحقیقت مودی پر ہرقسم کی سرمایہ کاری کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔گودھرا ٹرین حادثے سے ایک فسادات کا نمونہ (پیٹرن)مودی کی خاص ذہنیت کا پتہ دیتا ہے۔وہ سخت انتہاپسندی کے ماحول کو سیاسی اہداف میں تبدیل کرنے کی شاطرانہ اہلیت رکھتے ہیں۔اُنہیں 2002ء کے فسادات میں’’ گجرات کا قصاب‘‘کہا گیا۔ امریکا میں اُن کے داخلے پر پابندی عائد ہوئی۔ مگر مودی نے دنیا کے تمام دباؤ کو دھتکارا، اب وہ مغرب کی عیسائی اور یہودی دنیا ہی نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا میں بھی اپنے گہرے روابط استوار کر چکے ہیں۔ یوں مودی نے ایک طریقے سے پاکستان کے ساتھ اپنے مسائل کو دو ملکی ہی نہیں بلکہ اسلامی عصبیت سے بھی’’ نیوٹرل‘‘ کرنے کی خاص روش اختیار کررکھی ہے۔ مسلم دنیا کے لیے کشمیر کا مسئلہ اسلامی نہیں بلکہ قومی مسئلہ بنایا جارہا ہے۔ یہ اس پورے مسئلے کے خدوخال کو بدلنے اور دھیرے دھیرے دنیاکو اس سے بیگانگی برتنے پر مائل کرنے کی انتہائی گہری حکمت عملی کا حصہ ہے۔ مودی یہ سارے کا م اپنے خاص طریقے (میٹھڈ) سے کررہا ہے۔
بھارت کے شاطر وزیراعظم نریندر مودی نے5؍اگست کو مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کی تبدیلی سے قبل تین بڑے اقدامات اُٹھائے۔ بی جے پی نے جون 2018ء میںمقبوضہ کشمیر کی مخلوط حکومت سے اچانک علیحدگی اختیار کرلی۔ یوں مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں مخلوط اقتدار کا خاتمہ ہوگیااور معاملات گورنر راج کی طرف چلے گئے۔ نومبر 2018ء میں کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے گورنر کو فیکس کیا کہ وہ کشمیر اسمبلی میں حکومت سازی کے لیے مطلوبہ حمایت حاصل کرنے میںکامیاب ہوگئی ہے اس لیے اُنہیں حکومت کی تشکیل کی دعوت دی جائے۔ مگر گورنر نے اچانک اسمبلی برخاست کردی اور دعویٰ کیا کہ اُنہیں محبوبہ مفتی کا کوئی فیکس نہیں ملا۔یہ مودی حکومت کا دوسرا سوچا سمجھا اقدام تھا۔ تیسرے اقدام کے طور پر مودی کی مرکزی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کا راستا روکا۔ الیکشن کمیشن جون 2019 ء میں انتخابات کا خواہاں تھا۔مگر مرکزی حکومت کے دباؤ پر بغیر کسی تاریخ کا تعین کیے انتخابات ملتوی کردیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر میں ہر طرح کی تالابندی ہونی شروع ہوگئی۔ تمام مواصلاتی رابطے، انٹرنیٹ کی سہولت اور ابلاغی ذرائع کو معطل کردیا گیا۔ دنیا سے کشمیر کو کاٹ کر مودی حکومت نے اپنے تیور واضح کردیے تھے۔ کشمیری قیادت باربار کہہ رہی تھی کہ یہاں جو کچھ اب ہورہا ہے، اس شدت کے ساتھ پہلے کبھی نہیں ہوا۔ مودی کی انتہاپسند حکومت کچھ خطرناک کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ پاکستان ان حالات میں مودی سے تعلقات کی بحالی کا خواہاں تھا۔ پاکستان کی ہرسطح کی قیادت صورتِ حال کی سنگینی کو درست طور پر بھانپنے میں مکمل ناکام رہی۔اس کا اندازا اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر یہ ردِ عمل دیا کہ اُنہیں اس کااندازا ہی نہیں تھا کہ مودی حکومت یہ کام کرگزرے گی۔
یہ دنیا عمل کی دنیا ہے۔یہ ارادہ باندھنے والوں کی دنیا ہے۔آج کی دنیا کے قصر میں کوئی انتظارگاہ نہیں بنائی جاتی۔ یہ یکایک تبدیلیوں سے منقلب ہوتی ہے۔ اس میں ارادوں کی پختگی ہی زندگی کی ضمانت بنتی ہے۔ امریکی صدر نکسن نے اپنی کتاب میں لکھا تھا: طاقت اور اختیار کو سمجھنے کے لیے خواہش اور ارادے کے مابین فرق کو جاننا ضروری ہے۔ خواہش کرنا مفعولی عمل ہے جبکہ ارادہ ظاہر کرنا ایک فاعلی عمل ہے۔ پیروکار خواہش ظاہر کرتے ہیں مگر لیڈر ارادہ کرتے ہیں‘‘۔ ہماری شعری تہذیب نے بچپن میں ہی ہمیں تعلیم کیا تھا
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
بھارت کی مسلسل پیش قدمی کے ردِ عمل میں ہم نے اب تک خوب صورت تقاریر کی ہیں۔ ہمارے پاس بحث کے لیے بھی یہی موضوع ہے کہ یہ تقاریر اچھی تھی یا نہیں۔ اور یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ایک جنگ ہماری دہلیز پر دستک دے رہی ہے۔ ہمارے حکمرانوں سے ہم تقاریر سے کچھ زیادہ کے خواہش مند ہیں، جس کا وقت اب آگیا ہے۔ جلیل عالی کا کیا خوب صورت شعر ہے
راستا سوچتے رہنے سے کدھر بنتا ہے
سر میں سودا ہو تو دیوار میں در بنتا ہے
٭٭