سیاست وصحافت کے لچھن (ماجرا۔۔محمد طاہر)
شیئر کریں
گجراتی کہاوت ہے: آدمی پر بُرا وقت ہو تو وہ اونٹ پر بھی بیٹھ جائے کتا کاٹ لیتا ہے‘‘۔ شریف خاندان نے جج ارشد ملک کی ویڈیو افشاء کرکے اونٹ پر بیٹھنے کی کوشش کی تھی، مگر ڈیلی میل نے پھر بھی کاٹ لیا۔یوں لگتا ہے کہ ہرگزرتا دن شریف خاندان کے دعوؤں کا امتحان لے گا۔نوازشریف اور شہباز شریف صرف بدعنوانی کے الزامات کے نرغے میں نہیں،اُن پر پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کرنے کے بھی الزامات ہیں۔ پاناما کیس میں ایک فائل اس حوالے سے منظرعام پر لانے سے عدالت نے روک دی تھی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ شریف خاندان جن حالات سے گزررہا ہے، اس کے اصل سبق پر کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں۔ پاکستان میں یہ کس قسم کی سیاست ہے جو آخرکار اس قسم کے حالات پیدا کردیتی ہے، یہ کیسا نظام ہے جو معمولی اور اوسط درجے کے لوگوں کو اُٹھا کر دیوتاؤں میں بدل دیتا ہے کہ اُن سے معمولی قسم کی پوچھ گچھ بھی دشوار بن جاتی ہے۔ وہ پاکستان کی صورت گری اپنے نقشے سے کرنے لگتے ہیں۔ شریفوں نے لاہور کے تاجروں کے ساتھ مل کر پاکستان کی سیاسی صورت گری ایسی کردی ہے جس کی چھاپ کئی عشروں تک مٹائی نہیں جاسکے گی۔ اور جس کا بھگتان طویل عرصے تک ہماری قومی سیاست کو دینا پڑے گا۔ اس پہلو دار خسارے کو سمجھنا بھی انتہائی مشکل امر ہے۔کرسٹینا لیمب نے پاکستان کے نوے کی دہائی کے سیاسی حالات کو اپنا موضوع بنایا تھا۔ کرسٹینا کی کتاب ’’Waiting for Allah‘‘ کی اختتامی سطریں قابلِ غور ہیں۔
’’سیاست سے مفاد حاصل کرنے کی داغ بیل بھی نوازشریف نے ڈالی تھی،اور اب سیاست ایک
تجارت اور مالی منفعت حاصل کرنے کا ذریعہ بن چکی ہے۔ ایک رکشاوالا اپنے رکشے پر مسلم لیگ کا جھنڈا
لگاتا ہے تاکہ پولیس والا اس کا چالان نہ کرے۔دُکاندار اس لیے اپنی دُکان پر جھنڈا لہراتا ہے کہ اس کا
لائسنس محفوظ رہے،اور ٹھکیدار اس لیے پارٹی کو بھرپور چندہ دیتا ہے کہ اسے مزید ٹھیکے ملتے رہیں۔ جمہوریت
سے وابستگی کا دعویٰ بھی صرف اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ دولت کے انبار جمع کیے جاسکیں۔ جنرل ضیاء کے دور
کے بعض وزراء انتخابات سے پہلے صرف اس لیے پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے کہ ان کو تر نوالہ ملنے کی بڑی امید
تھی۔ حالت یہ ہے کہ جو لوگ اب صاحب ِ اقتدار ہیں، وہ کسی نہ کسی شکل میں اقتدار میں ہی رہیں گے اور
غریب عوام ہمیشہ کی طرح نانِ شبینہ کے لیے ترستے رہیں گے۔اور اللہ تعالی پر امید لگائے بیٹھے ہیں کہ
وہی ان کی حالت بہتر کرے گا‘‘۔
پاکستان میں جس جمہوریت کا دفاع کیا جاتا ہے وہ یہی جعلساز اور خانہ ساز تصور ہے۔ پاکستان کے سیاسی اُفق پر جو کشاکش ان دنوں غالب ہے وہ اِسی تصور کی پیداوار ہے۔ شریف خاندان کی بچی کھچی ناموس(؟) کا مورچہ اب بھی کچھ صحافیوں نے سنبھالا ہو اہے۔ وہ شریفوں کی سیاست کا ہی دفاع نہیں کررہے بلکہ اُن پر عائد بدعنوانی کے الزامات کو بھی پسِ منظر میں دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے لیے اُن کے پاس ایک جمی جڑی جمہوریت کی خانہ ساز تاویل ہوتی ہے۔ حالانکہ دنیامیں کہیں پر بھی جمہوریت کو بدعنوانی کی ڈھال کے طور پرپیش نہیں کیا جاتا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ کرپٹ جمہوریت کے تصور میں بھی ایسا نہیں ہوپاتا۔ پاکستان میں مزے ہی مزے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ دفاع کا یہ مورچہ جن صحافیوں ، تجزیہ کاروں یا اینکرز نے سنبھالا ہوا ہے ، خود اُن پر بھی مختلف النوع الزامات ہیں۔ اگر درجہ بندی کے تناظر میں دیکھیں تو ان میں سے کچھ پر شریفوں کے دسترخوان پر ہڈیاں چچورنے کے الزامات ہیں ۔ کچھ پر موجودہ حکومت سے قربت میں ناکامی کے بعد ردِ عمل میں مخالفت کا الزام ہے۔ ایک تو ان میں وہ بھی ہے جو تحریک انصاف کے کارکن کی ماضی بعید کی پرچی دکھا کر امید لطف پر رہے۔مگر ناکامی پر اب برانگیختہ ہو کربی بی مریم کی قصیدہ خوانی میں مصروف ہوگئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کسی کی بھی حمایت اور مخالفت کے لیے کوئی حقیقی اور مثالی کردار بھی تو سامنے ہو۔ ایسا شخص آپ کی رائے کا مخالف بھی ہو تو قابلِ احترام ہوتا ہے۔ مگر امید ِلطف پر آپ کی رائے کا حامی بھی قابل عزت نہیں ہوتا۔ پاکستان کی موجودہ سیاست وصحافت کے یہ لچھن فوراً جانے والے بھی نہیں۔
سیاست دانوں کی بداعمالیوں کو اگر صحافت کی ٹوک کا خطرہ نہ رہے تو پھر وہ جری ہوجاتے ہیں۔ اگر شہباز شریف سے درست سوال کیے جاتے تو ’’ڈیلی میل‘‘ کی رپورٹ پر وہ اترائے نہ پھرتے۔شہباز شریف پر الزام یہ عائد ہوا کہ اُنہوں نے زلزلہ متاثرین کی امداد میں لاکھوں پاؤند کی خورد بُرد کی ،یہاں تک کہ’’ ڈی ایف آئی ڈی ‘‘پروگرام سے بھی چوری کی۔ اس اسکینڈل کی سنگینی یہ تھی کہ یہ امدادی رقم تھی۔ پھر اس رقم سے منی لانڈرنگ کا الزام بھی منسلک تھا۔ ایک بڑے تجزیہ کار اور اینکر پرسن نے (جو خود بھی حکومت کی مخالفت میں ایک سیاست دان کی طرح بروئے کار ہیں) یہ دعویٰ کیا کہ اُنہوں نے شہباز شریف سے اس الزام کی بابت پوچھا تو اُنہوں نے جواب دیا کہ اُن کے ہاتھ میں بٹیر لگ گئی ہے اور وہ اب اسے چھوڑنے والے نہیں۔درحقیقت مسلم لیگ نون برطانوی اخبار ’’ڈیلی میل‘‘ کی رپورٹ کو وزیراعظم کے معاون ِ خصوصی شہزاد اکبر کی نٹ کھٹی قرار دے رہی ہے۔کیا شہباز شریف اور مسلم لیگ نون کے اس طرزِ عمل پر جائز طور پر یہ سوال نہیں بنتا تھا کہ اس سے قبل 23؍ جون 2018 کو اسی اخبار کی رپورٹ ’’Penthouse pirates‘‘ پر بھی مذکورہ اخبار اور اس کے رپورٹر کو عدالت میں لے جانے کی بات کی گئی تھی، پھر کیوں مسلم لیگ نون نے برطانوی عدالت سے رجوع نہیں کیا۔ ایک مرتبہ پھر اسی اخبار ڈیلی میل اور اسی رپورٹر’’DAVID ROSE‘‘نے زلزلہ زدگان کی امدادی رقم کو ہڑپنے کا الزام عائد کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اُنگلیاں ہلا ہلا کرزرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے کرنے والے شہباز شریف کا کوئی بھی دعویٰ قابل اعتبار کیسے ہو سکتا ہے؟ جب کہ ماضی بھی اُن کا اس کی شہادت نہ دیتا ہو۔ مگر یہ سوال کسی نے بھی مسلم لیگ نون کے کسی بھی رہنما سے نہیں پوچھا۔
شریف خاندان کے راتب خورقلم کاروں نے اس حوالے سے عجب وغریب دفاع کیے۔ اول : یہ واقعہ ہو ا ہی نہیں، ثانیاً :اخبار اور رپورٹر کے خلاف برطانوی عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔ثالثا:یہ اخبار تو کوئی ٹیبلائدقسم میں شمار ہوتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ٹیبلائڈ اخبار پر برطانوی عدالتوں میں ذمہ داری کاقانون ساقط ہو جاتاہے۔ کیا کراچی کے شام کے اخبارات کی طرح کا ہونے کے باوجود یہ اخبار برطانیا میں توہین کے سخت قوانین سے مبرا ہوجاتا ہے۔ پھر اس دلیل کی ضرورت کیا ہے۔ یہ تو ملانصیر الدین والے حیلے ہیں۔ملا نصیر الدین نے اپنے پڑوسی سے عاریتاً صراحی لی، جب واپس کی تو وہ ایک طرف سے چٹخ گئی تھی۔ پڑوسی کی شکایت پر ملانصیر الدین نے جواب دیا کہ حضور:اول تو جب میں نے صراحی واپس کی تو وہ درست حالت میں ہی تھی۔ اے عادلِ جہاں،دوسری بات یہ ہے کہ ہمسائے نے جب مجھے صراحی مستعار دی تھی تو وہ پہلے سے ہی چٹخی ہوئی تھی۔اور جنابِ والا آخری بات یہ ہے کہ میں نے تو ہمسائے سے صراحی اُدھار لی ہی نہیں۔ شہباز شریف کے ان دعووں کی بھی اس سے مختلف کوئی حقیقت نہیں۔ وہ بٹیر ہاتھ لگنے، مقدمہ کرنے اور پھر جان چھڑانے کے حوالے سے ملانصیر الدین کی نفسیات رکھتے ہیں۔
پاکستان میں اس سیاسی خاندان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا مطالبہ صرف یہ نہیں کہ اُنہیں بدعنوان نہ کہا جائے، بلکہ یہ بھی ہے کہ اُنہیں ایماندار سمجھا جائے۔ پھر ان کے راتب خور تجزیہ کاروں اور دانشوروں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ احتساب کے سوال کو موجودہ سیاسی ابتر صورت حال سے جوڑ کر گریز کی راہیں سجھانے پر تلے رہتے ہیں۔ کرپشن کے مسئلے کو موجودہ سیاست ومعیشت کے ابتر منظر سے منسلک کرکے اس سے گریز کا مشورہ بجائے خود ایک کرپٹ ذہن کی پیداوار ہے ۔پاکستان کے موجودہ حالات کی پستی اپنی جگہ ہے ،مگر اس کا یہ مطلب ہر گزنہیں کہ اسے موقع بنا کر کرپشن کے موضوع کو دفن کرنے کی کوشش کی جائے۔ ہو سکتا ہے کہ شریف برادران اور اُن کے صاحبزادگان پر عائد الزامات میں سے کچھ درست نہ بھی ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ موجودہ حکومت احتساب کے باب میں بے احتیاطیوں کی بھی مرتکب ہوتی ہو، مگر بدعنوانی ایک زندہ مسئلہ ہے اور اس سے موجودہ ابتر معاشی منظرنامے کے حیلے کے ذریعے جان نہیں چھڑائی جاسکتی۔ احتساب سے جان چھڑانے کی ایک ہی صورت ہونی چاہئے اور وہ احتساب ہی ہو۔ اس کے بغیر پاکستان ترقی کے پہلے زینے پر بھی نہیں چڑھ سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔