مسئلہ رویت ہلال کا نہیں ہے !! (جلال نُورزئی)
شیئر کریں
درحقیقت چاند کی رویت کے مسئلہ کو جواز بنا کر در پردہ اغراض حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ملک و عوام کی وحدت میں خلیج پیدا کی جاتی ہے۔اور یہ پہلو گہرے غور و فکر کا متقاضی ہے ۔ یہ سب کچھ نظام و ریاست کی عملداری روندنے والی بات ہے۔ لہذا ریاست کو اس پر قابو پانے کے لئے راست قدم اُٹھانا ہو گا ۔قیام پاکستان کے بعد بنگلہ دیش کے اندر بعض معاملات جیسے اردو کی بجائے بنگلہ کو قومی زبان کا درجہ دینے کی چار پانچ نوجوانوں کے شور و غوغا کو اہمیت کا حامل نہ سمجھا گیا۔ریاست غافل رہی، نتیجتاً حالات نے گمبھیر صورت اختیار کرلی اور بڑے نقصان پر منتج ہوئے ۔ ان مظاہر کا مشاہدہ کراچی وبلوچستان کی سیاست میں بھی ہو چکا ہے ،اور اب ایک اور نام سے د یکھ رہے ہیں۔مرکزی رویت ہلال کمیٹی اور اس کے چیئرمین مفتی منیب الرحمان متنازعہ ہرگز نہیں ہیں بلکہ انہیں متنازعہ بنانے کی مکروہ سعی ہوئی ہے ۔وفاقی وزیر سائنس و انفارمیشن ٹیکنالوجی فواد چودھری بھی اس بار بڑے جذبے اور اعتماد کے ساتھ سامنے آئے۔ قمری کلینڈر بنانے کا اعلان کیا ۔مگر پشاور کی مسجد قاسم علی خان کے خطیب مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے فواد چودھری کی بھی ایسی کی تیسی کردی۔ اور پہلے جیسی ڈھٹائی سے چاند کے نظر آنے کا غلغلہ بلند کیا ۔ یوں پشاور اور خیبر پشتونخوا کے مختلف علاقوں میں 4جون2019ء کو عید منائی گئی۔ طرفہ یہ کہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے بھی سرکاری سطح پر اعلان کرکے قومی وحدت پر ضرب لگائی۔ سرکاری سطح پر اعلان کی روایت مفتی پوپلزئی کے ساتھ ملکر عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے ڈالی تھی۔ جن کے رہنماء پوپلزئی کے ساتھ کھڑے ہوکر الگ راہ اپناتے۔عوامی نیشنل پارٹی کی بات تو سمجھ میں آتی ہے، مگر تحریک انصاف کی حکومت کا گمراہی کی راہ پر جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیراعظم عمران خان یہ مسئلہ نظر انداز نہ کرتے اور خیبر پشتونخوا حکومت کی گوشمالی کرتے۔ ریاست کو مفتی پوپلزئی کے خلاف بھی حرکت میں آنا چاہیے۔ جو ہر سال عین رمضان المبارک اور شوال کے چاند کی رویت کے مسئلے پر قوم کے اندر تفرقہ ڈالنے کی مکروہ جسارت کر بیٹھتا ہے۔ لوگوں کی عبادات خراب کرتا ہے۔ اس بار بھی خیبر پشتونخوا کے اندر عید الفطر کودوسرے معنوں میں لیا گیا!۔جبکہ ریاست و حکومت بے سدھ دیکھتی رہی۔حالانکہ3جون کو چاند نظر آنے کا قطعی امکان نہیں تھا، مگر پھر بھی ان کے خلاف قانون حرکت میں نہ آیا۔جیسے کہا کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی متنازعہ ہرگز نہیں ہے ۔بلکہ تنازعہ اُٹھا کر اصل میں ریاست کے استحکام اور وحدتِ عوام کو پارہ پارہ کرنے کی سوچی سمجھی تخریب کی جاتی ہے۔ اسی کی دہائی کے پہلے چند سال خود سری کی اس نوع کے تماشے بلوچستان کے پشتون آبادی والے علاقے جیسے پاک افغان سرحدی شہر چمن ، قلعہ عبداللہ اس سے متصل دوسرے مقامات، کوئٹہ کے نواحی علاقوں پشتون آباد، خرو ٹ آباد، کچلاغ وغیرہ میں بھی ہوتی رہیں۔چناں چہ یہاں کے مقامی علماء نے اس انتشار کے سدباب کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا۔ اور مقامی عوام بھی مرکزی رویت ہلا ل کمیٹی اور ریاست کے اعلان کو مقدم سمجھتے ۔ یوں کسی کو مزید انتشار کی جرأت نہ ہوئی۔ مجھے1984ء ،1985 ء 86 ء اور اس کے بعد کے سال یاد ہیں کہ جب میرے والد مولانا نیاز محمد درانی مرحوم، قلعہ کاسی کے جامع مسجد کے لائوڈ اسپیکر سے اعلان کراتے کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اعلان پر ہی عمل کیا جائے۔شہر و اطراف کی دیگر مساجد کے علماء کرام کے نام فوری خطوط بھیجتے۔ جس میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی اتباع کی گزارش کی جاتی ۔ جمعہ اور عیدین کے اجتماعات میں ریاست کے فیصلوں پر چلنے کی تلقین کرتے۔عوام کی آگاہی کے لیے اخبارات کو بیانات جاری کرتے ۔ والد مرحوم غالباً1998 ء میں جب میاں نواز شریف کی حکومت تھی مر کزی رویت ہلال کمیٹی کے رکن بنائے گئے ۔اسلام آباد کی لال مسجد کے خطیب مو لانا محمدعبداللہ چیئر مین تھے ۔ان کی شہادت کے بعد ڈاکٹر محمود احمد غازی (مرحوم) چیئر مین بن گئے۔جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں ڈاکٹر غازی وزیرِ مذہبی امور بنیم، تو اس منصب پر مفتی منیب الرحمان مامور کر دیئے گئے ۔ یعنی والد محترم مفتی منیب الرحمان کے ساتھ بھی مرکزی رویت ہلال کمیٹی میں شامل رہے ۔ مفتی منیب الرحمن اور چند دوسرے علماء والد کی دعوت پر رہائشگاہ آکر ظہرانے میں بھی شریک ہوئے ہیں ۔ مفتی منیب الرحمان کو اللہ نے بہت ساری خوبیوں سے نوازا ہے ۔ملک کے اندر مثبت کردار کے حامل ہیں ، تعصبات سے پاک ہیں ۔ کہنا یہ چا ہ رہا ہوں کہ حکومت کے ساتھ اگر علماء بھی اپنا فرض نبھاتے ہیں تو کسی کو من مانی اور دیندار عوام کو وسوسوں میں مبتلا کرنے کی جرأت نہ ہو گی ۔گویا اس مسئلے پر دینی جماعتوں اورعلماء کرام کو بالاتفاق کردار ادا کرنا چاہیے۔ بلوچستان کے علماء کو بھی منفی رجحانات روکنے کی ذمہ داری نبھانی چاہیے۔ کوئٹہ کے ایک خطیب جو مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے رکن رہ چکے ہیں۔جو خود کو صوبائی خطیب بھی گردا نتے ہیں۔اس حضرت نے صوبے میں سالوں سے مذہب اور دوسرے ناموں سے جاری خون خرابے کے باب میں مذمت و مخالفت کے دو بول تک ادا نہیں کیے ہیں ۔ یہاں تک کہ دو سطری بیان چاند کی رویت کے شرعی مسئلہ بارے جاری کرنے کی بھی زحمت و ہمت نہ کر سکے ہیں، کہ جس میں عوام کو مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اعلان اور ریاست کی پیروی و رہنمائی کی ہدایت کی جاتی ہو ۔ گویا یہ معاملہ نظر انداز کرنے کا نہیں ۔یہ ایک بیانیہ ہے جس میں ضدِ ریاست نمونہ پنہاںہے ۔