عدنان رضوی کی ملزمان کو فرار کرانے کی چالبازیاں بے نقاب
شیئر کریں
(جرأت انوسٹی گیشن سیل)عدنان رضوی نے ڈرگ انسپکٹر اور چیف ڈرگ انسپکٹر کی حیثیت سے بریف کیس کے عوض ہر کسی کو جعلی اور غیر معیاری ادویات بنانے اور فروخت کرنے کی کھلی چھوٹ دی۔ یہی وجہ ہے کہ عدنان رضوی جعلی اور غیر معیاری ادویہ ساز اداروں اور انہیں فروخت کرنے والوں کا چہیتا کہلایا جاتا ہے۔عہدے سے بر طرف ہونے کے باوجود بھی کچھ ادویہ ساز کمپنیاں ’اچھے دنوں کی امید میں ‘بریف کیس کھلاڑی پر ابھی تک اپنی نوازشیں کر رہی ہیں۔ عدنان رضوی کا سب سے بڑا ’ کمال‘ تو یہی ہے کہ یہ ایک طرف’ ریٹ‘ بڑھانے کے لیے کارروائی کر کے مضبوط کیس بناتا ہے تو دوسری جانب ’ بریف کیس‘ لے کر اسی کیس کی سنگینی کو نہایت ہی معمولی جرم میں تبدیل کردیتا ہے۔ 2005ء میں بہ حیثیت ڈرگ انسپکٹر تعیناتی کے بعد سے عدنان رضوی المعروف بریف کیس کھلاڑی پورے سندھ میں یہ کھیل ، کھیل کراس میں مہارت حاصل کرچکا ہے۔
عدنا ن رضوی نے ڈرگ کورٹ میں 18 ؍مئی 2012ء کو ہونے والے چارمقدمات کی سماعت کے موقع پر ان میں نامزد ساتوں ملزمان کے فرار ہوجانے کی رپورٹ جمع کرائی اور عدالت نے بھی اس بات کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے کیس داخل دفتر کردیا۔اسی طرح 8؍ جولائی 2012 ء کو ڈرگ کورٹ میں ہونے والی سماعت میں عدنان رضوی کے دو کیسوں کی سماعت ہوئی اور ان دونوں کیسوں میں نامزد پانچوں ملزمان کو مبینہ طور پر پولیس کے ساتھ ملی بھگت سے مفرورقرار دے کر کیس داخل دفتر کروادیا۔
عدنان رضوی ڈرگ انسپکٹر کی حیثیت سے یہ کھیل چھوٹے میڈیکل اسٹورز کے ساتھ کھیلتا تھا، اور اب یہی کھیل ڈائریکٹر ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری سندھ کی حیثیت سے جعلی اور غیر معیاری ادویات کے نتائج میں تاخیر کرکے کھیل رہا ہے( عدنا ن رضوی کے ان کالے کرتوتوں پر تفصیلی رپورٹ جلد انہی صفحات پر شائع ہوگی) ۔ عدنان رضوی کی تعیناتی کے بعد سے دائر کیے گئے کیسز اور اس میں ملزمان کو ملنے والی ’ مراعات‘ کو دیکھا جائے تو عدنا ن رضوی کی جانب سے ایک ایک پیشی میں درجنوں ملزمان کو مفرور قرار دے کر کیس فائل ڈورمینٹ کیے گئے۔ روزنامہ جرأت کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق عدنان رضوی کی جانب سے مبینہ طور پر پیسے لے کر کیس کی سنگینی کم کرنے، پولیس کے ساتھ مل کر ملزمان کو مفرورقراردینے والے کیسز کی ایک طویل فہرست ہے ، جسے ایک ایک سماعت کے حساب سے انہی صفحات پر شائع کیا جائے گا۔
کچھ ادویہ ساز کمپنیاں عہدے سے بر طرف ہونے کے باوجود بھی ’اچھے دنوں کی امید میں ‘بریف کیس کھلاڑی پر ابھی تک اپنی نوازشیں کر رہی ہیں
عدنا ن رضوی نے ڈرگ کورٹ میں 18 ؍مئی 2012ء کو ہونے والے چارمقدمات کی سماعت کے موقع پر ان میں نامزد ساتوں ملزمان کے فرار ہوجانے کی رپورٹ جمع کرائی اور عدالت نے بھی اس بات کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے کیس داخل دفتر کردیا۔ اسی طرح 8؍جولائی 2012 ء کو ڈرگ کورٹ میں ہونے والی سماعت میں عدنان رضوی کے دو کیسوں کی سماعت ہوئی اور ان دونوں کیسوں میں نامزد پانچوں ملزمان کو مبینہ طور پر پولیس کے ساتھ ملی بھگت سے بھگوڑا قرار دے کر کیس داخل دفتر کروادیا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ عدنان رضوی کے باس اور سابق چیف ڈرگ انسپکٹر کلب حسن رضوی بھی اس کھیل کے ماہر رہ چکے ہیں اور ان کی جانب سے مبینہ طور پر ڈورمینٹ کرائے گئے کیسوں کی تفصیلات بھی آئندہ شماروں میں انہی صفحات پر شائع ہوں گی۔ ذیل میں عدنان رضوی کی جانب سے ایک ہی دن میں ملزمان کو مفرور قرار دیے گئے کیسز کا خلاصہ بمعہ کیس نمبر بیان کیا گیا ہے ۔
عدنان رضوی کی جانب سے اکثر چھاپوں اور مقدمہ سازی کے عمل میں ایک ہی پیٹرن نظر آتا ہے۔ اور وہ یہ کہ وہ اسٹورز پر چھاپے مار کر پہلے اپنی مرضی سے معاملات طے کرنے کی کوشش کرتا ہے، اگر اس میں کامیابی نہ ملے تو پھر ایک زبردست مقدمہ ٹھوکتا ہے اوریوں ملزمان کو مجبور کرکے اپنی ڈھب پر لاتا ہے۔ اس ضمن میں یہ ایک پراسرار پہلو ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ملزمان کو فرار کرانے کا پیٹرن رکھنے والے اس چیف ڈرگ انسپکٹر سے عدالت میں کبھی بازپر س تک کیوں نہیں ہوتی۔
*شاکر میڈیکل اسٹور
2012ء کو عدنان رضوی المعروف بریف کیس کھلاڑی نے گھارو کے ایک میڈیکل اسٹور پر چھاپہ مارا۔ مبینہ طور پر اس چھاپے میں شاکر میڈیکل اسٹور سے بڑی مقدار میں جعلی ، غیر معیار ی اور جنسی ادویات برآمد ہوئیں۔ عدنان رضوی نے مذکورہ میڈیکل اسٹور کے مالک طاہر مسلم ولد محمد مسلم کے خلاف ڈرگ ایکٹ کے تحت مقدمہ نمبر ( 6/2012) قائم کر کے کیس ڈرگ کورٹ میں جمع کروادیا۔ اس کیس کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کیس عدالت میں جمع ہونے، مبینہ طور پر مشتبہ ادویات برآمد ہونے، اور ملزمان کے خلاف کیس قائم ہونے کے باوجود شاکر میڈیکل اسٹور اپنے وقت پر کھلتا اور اپنے وقت پر بند ہوتا رہا۔ یہ سب ہونے کے باوجود ملزم طاہر ولد مسلم عدنان رضوی المعروف بریف کیس کھلاڑی اور پولیس کی نظروں سے اوجھل رہا اور آخر کار اس نے عدالت میں رپورٹ جمع کروادی کہ مذکورہ ملزم فرار ہوچکا ہے۔ عدنان رضوی کی جمع کرائی گئی رپورٹ کی بنیاد پر عدالت نے 18؍مئی 2012کوملزم کو بھگوڑا قرار دے کرکیس فائل ڈورمینٹ کروا دیا۔
اکر میڈیکل اسٹور ،سومرا میڈیکل اسٹور ،تھنویرانی میڈیکل اسٹور، اشوک میڈکل اسٹور،سچل میڈیکل اسٹوراور بابا سری چند میڈیکل اسٹور کے مقدمات کیسے دفن ہوئے؟
* سومرا میڈیکل اسٹور
اسی سال عدنان رضوی نے سندھ کے ایک علاقے ڈرو میں واقع سومرا میڈیکل اسٹور پر چھاپہ مارا۔ اسٹور کے مالک عبدالحفیظ سومرو سے مبینہ طور پر معلاملات ’ طے‘ نہ ہونے پر عدنان رضوی نے عبدالحفیظ سومرو اور ان کے دو ملازمین غلام حسین اور محمد قاسم کی خلاف جعلی اور غیر معیاری ادویات فروخت کرنے کا کیس ( کیس نمبر 8/2012) بنا کر عدالت میں بھیج دیا۔ کیس عدالت میں جانے کے بعد سومرا میڈیکل اسٹور کے مالک کے بریف کیس کھلاڑی کے ساتھ معلالات طے پا گئے اور اسی ’ سیٹنگ ‘ کے نتیجے میں عدنان رضوی کی ایما پر پولیس نے بھی مذکورہ ملزمان کو مفرور قرار دے کر رپورٹ عدالت میں جمع کروادی ۔ عدنان رضوی کی جانب سے مفرور قرار دیے جانے پر عدالت نے 18؍مئی2012 کو یہ کیس داخل دفتر کردیا۔
*تھنویرانی میڈیکل اسٹور
2012میں ہی عدنان رضوی نے جھمپیر میں واقع تھنویرانی میڈیکل اسٹورپر کارروائی کی۔ اس ’کارروائی‘ کے نتیجے میں برآمد ہونے والی ادویات کو غیر معیاری قرار دے کر عدنان رضوی نے کیس( کیس نمبر 9/2012) بنا کر ڈرگ کورٹ میں جمع کروادیا۔ اس کیس میں میڈیکل اسٹور کے مالک دھنومل رام ولد رام داس اور اس کے ملازم راجیش کمار ولد دھلو کو مرکزی ملزم قرار دیا گیا۔ دیگر کیسوں کی طرح عدنان رضوی نے مبینہ طور پر بریف کیس لے کر عدالت میں ملزمان کو مفرور قرار دے دیا۔ جب کہ یہ ملزمان اسی میڈیکل اسٹور پر اپنے کاروبار میں مصروف تھے۔ عدنان رضوی کی رپورٹ پر عدالت نے 18مئی2012 کوملزم دھنومل اور راجیش کمار کو مفرور قرار دے کر فائل ڈرمینٹ کردی۔
*اشوک میڈکل اسٹور
عدنان رضوی المعروف بریف کیس کھلاڑی نے میر پور ساکرو کے ’ اشوک میڈیکل اسٹور‘ پر چھاپہ مار کر مبینہ طور پر بڑی مقدار میں جعلی اور جنسی ادویات برآمد کرلی۔ کیوں کہ اشوک میڈیکل اسٹور کے مالک کشور کمار ولد رام رتن نے بریف کیس دینے سے انکار کردیا تھا۔ کشور کمار کی ’ سنگین‘ غلطی پر’ اصول پرست ‘ڈرگ انسپکٹر عدنان رضوی نے ملزم پر کیس ( نمبر 10/2012) بنا کر عدالت میں جمع کرادیا۔ بعدازاں کشور کمار کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس نے اپنی غلطی کا ازالہ بمعہ سود ادا کردیا جس پر عدنان رضوی نے عدالت میں ملزم کو مفرورقرار دینے کی رپورٹ جمع کرادی اور عدالت نے 18مئی 2012کو ملزم کشور کمار کو مفرور قرار دے کر یہ کیس داخل دفتر کردیا۔
* سچل میڈیکل اسٹور
جھمپیر کے علاقے میں واقع سچل میڈیکل اسٹور کے مالکان بھی عدنان رضوی کے دست شفقت سے مستفید ہونے والے افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ پہلے تو بریف کیس کھلاڑی نے مبینہ طور پر معاملات طے نہ پانے پراسٹور مالک رمیش کمار، پرس رام ولد بھول چند اور کپل دیو ولد کرشن چندر پر جعلی اور غیر معیاری ادویات کی فروخت کا الزام عائد کرکے تینوں ملزمان کے خلاف ڈرگ کورٹ میں کیس ( کیس نمبر4/2012)دائر کردیا۔ کیس دائر ہونے کے کچھ ماہ بعد بریف کیس کھلاڑی نے عدالت میں ملزمان کے فرار ہونے کی رپورٹ جمع کرادی۔ عدنان رضوی کی عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ پر عدالت نے8جولائی 2012کو کیس فائل ڈورمینٹ کردی۔
* بابا سری چند میڈیکل اسٹور
جھنگوال کے علاقے میں واقع بابا سری چند میڈیکل اسٹور بھی بریف کیس کھلاڑی کی دستبرد سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ کیس میں لکھے گئے بیان کے مطابق 2012میں عدنان رضوی نے اس میڈیکل اسٹور پر چھاپہ مار کرغیر معیاری اور جعلی ادویات بر�آمد کی۔ ’ انسانی جانوں سے کھیلنے‘ کے جُرم میں بابا سر ی چند میڈیکل اسٹور کے مالک رام چند ولد گیان چند اور ایک ملازم موہن کمار ولد کھیم چند پر ڈرگ ایکٹ 1976کے تحت مقدمہ ( کیس نمبر7/2012)دائر کردیا گیا۔ بعدازاں ’انسانی جانوں سے کھیلنے والے‘ ان ملزمان کے جرم کی سنگینی کم ہوگئی ، اور ’ انسانی ہمدردی ‘ کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے عدنان رضوی نے مبینہ طور پر پولیس کے ساتھ مل کر ان ملزمان کو مفرور قرار دے کر رپورٹ عدالت میں جمع کرادی اور عدالت نے بھی 8جولائی 2012 کو ہی اس کیس کو فوراً ڈرمینٹ کردیا۔
عدنان رضوی کی جانب سے اکثر چھاپوں اور مقدمہ سازی کے عمل میں ایک ہی پیٹرن نظر آتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ وہ اسٹورز پر چھاپے مار کر پہلے اپنی مرضی سے معاملات طے کرنے کی کوشش کرتا ہے، اگر اس میں کامیابی نہ ملے تو پھر ایک زبردست مقدمہ ٹھوکتا ہے اوریوں ملزمان کو مجبور کرکے اپنی ڈھب پر لاتا ہے۔ اس ضمن میں یہ ایک پراسرار پہلو ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ملزمان کو فرار کرانے کا پیٹرن رکھنے والے اس سابق چیف ڈرگ انسپکٹر سے عدالت میں کبھی بازپر س تک کیوں نہیں ہوتی۔ ا س پراسرا ر پہلو کی اپنی تہہ داریاں ہیں۔ درحقیقت انسانی جانوں کو بچانے اور جعلی ادویات سے نجات کا مقصد اتنا بڑا ہے کہ اس کے لیے ان تہہ داریوں کو کھنگالنا بھی کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں لگتا ۔ مختلف سماجی رہنماوؤں کی جانب سے اس معاملے پر سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ ایک چیف ڈرگ انسپکٹر آخر کیسے اتنا طاقت ور ہو گیا کہ وہ ملزمان کوفرار پر فرار قراردلواتا رہے اور ڈرگ کورٹس خاموش تماشائی رہے۔ اس پراسرار پہلو کو اپنی آئندہ رپورٹوں میں مزید کھنگالنے کی کوشش کریں گے۔ تاہم یہاں ایک پہلو انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ عدنان رضوی ایک مرتبہ پھر اپنی پرانی طاقت کے حصول کے لیے سیکریٹری صحت کے دفتر کے چکر لگانے لگا ہے اور مختلف سفارشوں پر انحصار کررہا ہے۔ سیکریٹری صحت کے لیے خود اپنی نیک نامی سے جڑے مسئلے پر پوری توجہ دینے کی ضرورت ہے اور عدنان رضوی کو تمام مناصب سے فارغ کرنے کے بعد ایک ہمہ پہلو تحقیقات کی ضرورت ہے تاکہ یہ اندازا لگایا جاسکے کہ اس ہمہ صفت موصوف نے کیا کیا ’’کارنامے‘‘ سرانجام دیے۔درحقیقت عدنان رضوی ایسے لوگ سرکاری مناصب کے بجائے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے کے مستحق ہیں۔